صرف ایک فاتح

315

سیدہ عنبرین عالم
راجا آنند کمار، آندھرا پردیش کے نواحی علاقے کی ایک کچی بستی کا مکین۔ باپو جی ریڑھی لگاتے تھے، 4 بڑی بہنیں تھیں اور راجا ان کا اکلوتا سب سے چھوٹا بھائی۔ باپو جی ساری زندگی ماں جی کو بیٹیاں پیدا کرنے پر کوستے رہے۔ راجا سے ان کا رویہ بہت اچھا تھا، مگر راجا کو اپنی ماں بہنوں کی دن رات کی بے عزتی باپ سے نفرت پر مجبور کرچکی تھی۔ صرف باپو جی اور راجا کو کھانے کے لیے دو روٹیاں ملتیں، باقی سب گھر کی عورتیں ایک، ایک روٹی کھاتی تھیں۔ راجا کے باپو کی کمائی کم نہیں تھی، مگر کمائی کا 70 فیصد حصہ راجا کی تعلیم پر خرچ ہوجاتا۔ وہ پرائیویٹ انگریزی اسکول جاتا تھا، اسے احساس تھا کہ اس کے تعلیمی خرچے کی وجہ سے بہنیں بیاہی نہیں جاسکتیں۔ وہ ساتویں میں ہی تھا کہ گائوں کے درزی کے ہاں ملازم ہوگیا۔ باپو جی کا بے جا لاڈ پیار بھی اسے نہیں بگاڑ سکا تھا۔ ان کے منع کرنے کے باوجود وہ درزی کے ہاں کام کرنے لگا، شرط صرف یہی تھی کہ مجھے کام سکھا دو۔ درزی بوڑھا تھا اور اس غریب بستی میں زیادہ کام بھی نہیں تھا، اس لیے وہ تنخواہ نہیں دے سکتا تھا، اسے راجا کے آنے سے سہولت ہوگئی۔ ساتویں جماعت سے کام شروع کیا تھا، دسویں تک آتے وہ ایک ماہر درزی بن گیا اور بہنوں کو کام سکھا دیا، جو وہ شروع سے ہی سکھاتا آرہا تھا۔ اب آگے کی پڑھائی کے لیے اسے ممبئی جانا تھا۔ وہ ایک فیکٹری سے کترنیں خرید لاتا اور بہنوں کو دے دیتا، وہ اتنے شان دار ڈیزائن کے کپڑے تیار کرتیں کہ ممبئی کے کئی بوتیک میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتے۔ بیٹیاں باپ سے دس گنا زیادہ کمانے لگیں تو باپ کا بھی منہ بند ہوگیا، گھر کے بھی حالات بہتر ہوئے اور راجا کی اعلیٰ تعلیم کا خرچا بھی نکلنے لگا۔ راجا نے ماس کمیونی کیشن میں داخلہ لے لیا تھا، پڑھائی بھی جاری تھی اور ایک چینل میں نوکری بھی کرنے لگا۔ چینل نے سروے کے لیے ایک ٹیم اسرائیل بھیجی تو اس میں راجا آنند کمار کا نام بھی شامل تھا۔
چینل کی ٹیم اسرائیلی دفاعی ٹیکنالوجی کا جائزہ لینے گئی تھی، مگر راجا جس چیز کی وجہ سے زیادہ حیران تھا وہ اسرائیلی زراعت کے طریقے تھے۔ اسرائیل کی سرزمین آدھی سے زیادہ صحرا پر مشتمل تھی۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تو یہاں دنیا بھر سے یہودی آکر آباد ہوئے، یہ دنیا کے امیر ترین لوگ تھے اور انتہائی پُرتعیش زندگی کے عادی تھے، مگر اسرائیل کے قیام کے بعد وہ ایک ایسے بیاباں صحرا میں رہنے کا فیصلہ کرچکے تھے جہاں نہ پانی تھا اور نہ خوراک۔ اچانک 70 لاکھ لوگ آکر اس جگہ آباد ہوگئے۔ یہ آبادی اب ایک کروڑ ہوچکی ہے۔ ابتدا میں برسوں تک پانی اور خوراک درآمد کی جاتی رہی، مگر یہ کوئی دائمی حل نہیں تھا۔ آخر کیا کیا جائے…؟ راجا کے سامنے جو اسرائیل تھا، وہ ایک سرسبز جنت تھا، پھولوں اور پھلوں سے لدے ہوئے باغ۔ اسرائیل نہ صرف اپنی 90 فیصد خوراک کی ضروریات خود پوری کررہا ہے بلکہ کئی ملکوں کو برآمد بھی کررہا ہے۔ اسرائیل جب بنا تھا تو اس کا صرف 20 فیصد حصہ قابلِ کاشت تھا، آج اسرائیل کا 60 فیصد حصہ فارمز، زرعی زمین اور پانی کے نظام پر مشتمل ہے۔ اسرائیل کے زرعی بجٹ کا 17 فیصد صرف زرعی تحقیق کے لیے خرچ ہوتا ہے۔ اسرائیل کی طاقت اس کے ہتھیار اور ٹیکنالوجی نہیں بلکہ زراعت ہے۔ 1970ء تک اسرائیل میں صرف کینو اُگتے تھے، آج سوائے ناریل کے اسرائیل میں ہر طرح کا پھل اُگتا ہے۔ اس نے اپنے وجود کا 60 فیصد حصہ صرف خوراک کے حصول کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ وہ 8 مہینے کا اضافی اناج پورے ایک کروڑ اسرائیلیوں کے لیے ذخیر کرکے رکھتا ہے۔ خوراک کی حفاظت اور غذائی اعتبار سے کسی ملک کا محفوظ ہونا کتنا ضروری ہے یہ راجا کو آج پتا لگا۔
راجا کی اپنے ہوٹل کے ایک ملازم سے دوستی ہوگئی جس کا نام بنیامن تھا۔ اس نے بتایا کہ Nan Dain Jain نامی کمپنی اسرائیلی زراعت کا زیادہ تر ریسرچ کا کام اور ایجادات کرتی ہے جو 1977ء میں بنی تھی۔ یہودی نسلی طور پر کبھی بھی کسان نہیں تھے، مگر دوسری جنگِ عظیم میں انہوں نے دیگر کئی سختیوں کے ساتھ خوراک کی شدید کمی کا بھی سامنا کیا، اس لیے ان کی پہلی ترجیح خوراک کے معاملے میں ناقابلِ تسخیر ہونا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کو جنت نظیر بنانے میں سب سے بڑا کردار اُن کے سب سے بڑے دشمنوں یعنی فلسطینیوں کا ہے جو 1948ء سے یہاں مزدوری کی تلاش میں ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کا ہی خون پسینہ ہے جس نے صحرا کے سینے کو چیر کر جنت برآمد کی، اور جب اسرائیل اناج، پھلوں، سبزیوں سے لدی ہوئی جنت بن گیا تو فلسطینیوں کا اسرائیل میں داخلہ بند کردیا گیا۔ اب تھائی لینڈ سے مزدور منگوائے جاتے ہیں اور زیادہ تر کام انتہائی جدید مشینوں اور روبوٹس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اسرائیل سے بہتر زرعی ٹیکنالوجی دنیا کے کسی ملک میں نہیں پائی جاتی۔ بھارت، یورپ، امریکا وغیرہ سے کئی طالب علم زرعی تعلیم حاصل کرنے اسرائیل آتے ہیں۔ اسرائیل دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں ہوائی کیمروں سے پوری فصل کا جائزہ لیا جاتا ہے، پرندوں کو فصل سے دور رکھنے کے لیے ڈرونز استعمال ہوتے ہیں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے آب پاشی بھی کی جاتی ہے۔ یہودی جو کیمیکل کھادوں کی بڑی بڑی ملوں کے تمام دنیا میں مالک ہیں، اسرائیل میں بائیو فرٹیلائزر استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کہ کیڑے مارنے کے لیے بھی کیمیکل کے بجائے بائیو پیسٹیسائڈز استعمال کرتے ہیں۔
راجا یہ تفصیلات سن کر حیران تھا، اس نے اسرائیل کے اُن علاقوں میں جانے کا فیصلہ کیا، جہاں فارمز بنے ہوئے تھے۔ اسے دور سے پانی کی بہت بڑی جھیل نظر آئی، وہ حیران رہ گیا، بھلا صحرا میں کہاں سے جھیل آگئی! قریب پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ وہ اصل میں پتلی پتلی لمبی لمبی کئی خندقیں ہیں، ہر خندق کو پلاسٹک کی بڑی بڑی لمبی سی چادروں سے ڈھانپ دیا گیا ہے، وہ چادریں جب ہوا سے ہلتی ہیں تو دور سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ پانی ہے۔ راجا نے ایک کسان سے اس کی وجہ پوچھی تو اُس نے بتایا کہ ان چادروں کے ذریعے ہم ایک طرف تو حرارت کنٹرول کرکے ہر موسم میں ہر چیز اگا سکتے ہیں، دوسری طرف جو پانی پودوں کو دیا جاتا ہے، وہ جلدی بھاپ بن کر نہیں اڑتا اور زراعت کم پانی میں ہوجاتی ہے، چونکہ یہ صحرا ہے تو پانی بہت احتیاط سے خرچ کرنا پڑتا ہے۔ راجا کے لیے یہ چیزیں بالکل نئی تھیں۔
کسان راجا کو کینو کے ایک باغ میں لے گیا۔ ہر طرف کینوئوں سے لدے ہوئے بے شمار درخت تھے، مگر جو بات عجیب تھی وہ یہ کہ یہ درخت بمشکل 6 فٹ کے تھے، جب کہ عام طور پر کینو کے درخت 30 سے 35 فٹ تک کے ہوتے ہیں۔ راجا نے کسان سے اس بارے میں سوال کیا، کسان کے چہرے پر مزید غرور اتر آیا ’’یہ ہماری نئی ٹیکنالوجی ہے، طویل عرصے کی ریسرچ کے بعد اس طرح کے کینو کے درخت اُگائے جاسکے ہیں۔ درخت کو اونچا بنانے میں پانی اور وسائل بھی زیادہ خرچ ہوتے ہیں، وقت بھی بہت لگتا ہے، لہٰذا اسرائیلی سائنس دانوں نے یہ چھوٹے درخت دریافت کیے، یہ کم عرصے میں پھل دینے لگتے ہیں اور پھل اتارنے میں بھی زیادہ خرچا نہیں ہوتا، زمین پر کھڑے کھڑے پورے درخت کا پھل اتار سکتے ہیں‘‘۔ اس نے بتایا۔
کسان نے اسی وقت دو کینو توڑ کر راجا کو دیے۔ کینو انتہائی رس دار اور میٹھے تھے، ذرا بھی ترشی نہیں تھی۔ کینو کو اسرائیل میں Mandoline کہا جاتا ہے۔ کسان نے اسے آٹھ دس کینو اور تھما دیے جن کے لیے راجا کو ایک تھیلا کھیت کے باہر سے خریدنا پڑا۔ کئی لوگ کھیتوں اور باغوں سے براہِ راست خریداری کررہے تھے۔ خود ہی درخت سے پھل توڑتے اور ادائیگی کرتے اور چل پڑتے۔ اس طریقۂ تجارت میں ’’مڈل مین‘‘ نہیں ہوتا، یعنی کسان نے پھل اُگایا، اب ایک آدمی کسان سے پھل خریدے گا، اس میں اپنا منافع رکھ کر مارکیٹ میں سپلائی کرے گا، پھر دکان دار اپنا منافع رکھ کر کنزیومر کو بیچے گا، اس پھل کی قیمت کنزیومر تک پہنچنے میں تین گنا ہوجاتی ہے۔ سپلائر اور دکان دار صرف منافع خور ہیں، ان کی ملکی معیشت میں کوئی سرمایہ کاری، محنت یا Input نہیں ہے۔ کسان کو بہت کم نرخ ملتے ہیں اس لیے وہ اگلی بار بہتر فصل نہیں دے سکتا۔ یہ طریقہ بڑی سے بڑی معیشت تباہ کرسکتا ہے، جب کہ کسان سے براہِ راست خریداری کرنے میں کسان کا بھی فائدہ ہے۔
راجا واپس ہوٹل پہنچ چکا تھا۔ رات ہوگئی تھی، کل سے شوٹنگ کی مصروفیات شروع ہوجانی تھیں۔ وہ ڈائننگ ہال میں بیٹھا ہوا تھا، اس کا دوست بنیامن بھی وہیں آکر بیٹھ گیا، راجا نے اسے کھانے کی پیشکش کی۔ ’’یار! دنیا یہودیوں کو کتنا بھی برا کہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہودی بہت محنتی ہیں۔ آپ لوگ مٹی کو سونا بنا سکتے ہو، پھر سب آپ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ حالانکہ یہودی دماغوں کی ایجادات سے تمام دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے‘‘۔ اس نے بنیامن سے پوچھا۔
بنیامن نے قہقہہ لگایا ’’کیا تمہیں معلوم ہے 1960ء میں پاکستان نے ’’گرین ریوولیوشن‘‘ کے نام سے پروگرام شروع کیا تھا، زراعت میں ایسی ایسی ایجادات کیں کہ دنیا کے کئی ممالک ان سے زراعت سیکھنے لگے۔ پاکستان کی آمدنی اس قدر بڑھ گئی کہ وہ کئی ممالک کو قرضہ دینے لگا۔ دفاعی حکمت عملی بھی مضبوط ہوگئی۔ تم جانتے ہو یہودیوں کا کوئی اصل دشمن پوری دنیا میں ہے تو وہ پاکستان ہے، کیوں کہ پاکستان مدینہ ثانی اور اسلام کا قلعہ ہے، کہتے ہیں کہ پوری دنیا پر جو ایک بار اسلام کی حکومت قائم ہونی ہے وہ پاکستان سے ہی ہوگی، اس لیے پاکستان کی یہ تیز رفتار ترقی روکنا ضروری تھی۔ ایک سازش تیار کی گئی، ملک میں اسلام کا اثر رسوخ کم کیا گیا، اقربا پروری اور رشوت خوری کا کلچر متعارف کرایا گیا۔ کوٹہ سسٹم کے ذریعے عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا، سبز انقلاب بھی ختم کردیا گیا۔ 1965ء کی جنگ اور 1971ء میں بنگلہ دیش کا قیام پاکستان کے تابوت میں آخری کیل تھی۔ پھر پاکستان سر نہ اٹھا سکا، مگر اسرائیلیوں کو یہ سمجھ آگئی تھی کہ پاکستان کا سبز انقلاب ہی کامیابی کی کنجی ہے، اور پھر یہ انقلاب اسرائیل میں آیا‘‘۔ اس نے تفصیل سے بتایا۔ راجا کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’بھلے پاکستان نے ایٹم بم بنا لیا ہو، مگر ان کی روحیں اس قدر مسخ ہوچکی ہیں کہ وہ کبھی ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ سبز انقلاب تو دور کی بات، کچھ ہی عرصے میں وہ ایک ایک لقمے کو ترسیں گے، مریںگے‘‘۔ وہ سفاکی سے بولا۔
’’کیا برا تھا کہ اگر وہ بھی ترقی کرتے، تم بھی کھاتے، وہ بھی بھوکے نہ مرتے۔ یہ ظلم کیوں کیا؟‘‘ راجا نے افسوس سے کہا۔
بنیامن نے خونخوار نظروں سے راجا کو دیکھا اور بولا ’’کیوں کہ کوئی ایک جیے گا، یا اسرائیل یا پاکستان۔ ہم تو دشمن ہیں، ہم تو برا کریں گے، مگر وہ تو خود کو اللہ کا نائب کہتے ہیں، مگر ڈرتے ہیں کہ کہیں اللہ کا قرآن نہ نافذ ہوجائے۔ جب اللہ کی حکمرانی کا راستہ روکو گے تو شیطان کے سوا اور کس کی حکمرانی آئے گی! اللہ کے سوا جو کچھ ہے وہ شیطان ہے، ہم شیطان کے پجاری ہیں‘‘۔ وہ بولا۔
راجا نے افسردگی سے سر ہلایا ’’آپ شیطان ہو مگر جاگ رہے ہو، وہ اللہ کے نائب ہیں مگر سو رہے ہیں۔ فاتح تو پھر جاگنے والا ہی ہوگا۔ ہم کافر ہیں مگر جانتے ہیں کہ شیطان تباہی ہے۔ ہم تو انتظار میں ہیں کہ کوئی دوسرا محمد بن قاسم آئے جو ہم اچھوتوں کے ساتھ کھانا کھائے اور ہمیں ہمارے سماج کی ظالم روایتوںسے نجات دلائے، کاش وہ جلدی آئے‘‘۔ اس نے امید بھرے لہجے میں کہا۔

حصہ