گریز کی راہیں

488

سمیہ اختر
گریز کی راہیں درحقیقت فرائض، ذمہ داری اور مقصدِ حیات سے فرار کی کیفیت ہے۔ ایک مسلمان جب کلمۂ حق کا اعلان کرتا ہے، خدا اور رسولؐ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کی جواب دہی کا بھی مکمل شعور رکھتا ہے، اس کے باوجود اپنے نفس کے حوالے ہوجاتا ہے اور خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے فرار کے راستے اختیار کرتا ہے۔
وہ فرض، وہ ذمہ داری اور مقصدِ حیات دراصل اقامتِ دین ہے جس سے انسان بھاگتا ہے اور حیلے بہانے تراشتا ہے، کیوں کہ یہ راستہ مشکل اور کٹھن ہے، اور انسان آسانی اور عیش کا طالب ہوتا ہے۔
اس باب میں مولاناؒ نے بات کو واضح کرنے کے لیے امت اور قرآن کے درمیان جو مکالمہ لکھا ہے، وہ اقامتِ دین کی فرضیت کے ساتھ ساتھ اس کے راستے میں آنے والی شدید مشکلات کو بھی واضح کرتا ہے۔ اسلام کے بنیادی ارکان پر ایمان لانا، قرآن کو حق و سچ ماننا، آخرت کی جواب دہی کے خوف کے باوجود بھی جب جب اس امت کو اقامتِ دین کے کام کے لیے متوجہ کیا گیا تب تب یہ امت وہ سارے حیلے بہانے تلاش کر لائی جو فریضۂ اقامتِ دین سے روگردانی کا سبب بنے۔ مولانا یہاں ان تاویلوں، بہانوں اور معذرتوں کو بے نقاب کرتے اور ان پر تنقید کرنے کا درس دیتے ہیں، تاکہ امت اپنے فرائض اور اقامتِ دین کی طرف متوجہ ہوسکے۔
اسی باب میں مولاناؒ نے آگے گریز کے پانچ فلسفے بیان کیے ہیں۔ ایک گروہ ہے جو اسلامی ریاست کے قائم ہونے کا منتظر ہے اور اقامتِ دین کو انفرادی ذمہ داری تصور کرکے مطمئن ہے۔ دوسرا گروہ حالات کے سازگار ہونے تک اقامتِ دین کے فریضے کے لیے اجتماعی جدوجہد کو عاقبت نااندیشی خیال کرتا ہے۔ ایک اور گروہ ہے جو حضرت عمرؓ اور ابوبکرؓ جیسی شخصیات کے نہ ہونے کو اس راستے میں حائل سمجھتا ہے، اور ایک گروہ حضرت مہدیؑ کے انتظار میں ہے، اور ایک دنیاوی گروہ ہے جو کہ اسے فرض ہی نہیں سمجھتا۔ ان تمام گروہوں اور ان کے گریز کے فلسفے کو، ان کی معذرتوں اور بہانوں کو مولاناؒ نے اپنے فرائض سے بھاگنا اور گریز سے تعبیر کیا ہے۔ فریضۂ اقامتِ دین ایک ایسا فرض ہے جو انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ اجتماعی حیثیت سے امت پر فرض ہے۔ حالات چاہے کتنے ہی ناسازگار ہوں اس کی فرضیت اٹل ہے۔ وقت اور حالات کے تحت امت پالیسی میں تبدیلی کرسکتی ہے مگر مقصدِ حیات میں تبدیلی ناممکن ہے۔
(انتخاب: ’’کتاب فریضۂ اقامتِ دین‘‘۔ از: مولانا مودودیؒ)

حصہ