پرانا کوٹ

2107

غزالہ ارشد
آپ نے غلام عباس کی کہانی ’’اوور کوٹ‘‘ تو پڑھی ہوگی، آج میں آپ کو ’’پرانا کوٹ‘‘ کے نام سے ایک سبق آموز کہانی سناتی ہوں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش نہ کریں، یہ صرف ادب شناسی کا رعب ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔
یوں تو کراچی والوں پر اکثر کوئی نہ کوئی برا وقت آتا ہی رہتا ہے، لیکن انتہائی برا وقت تب آتا ہے جب کراچی میں سردی پڑ جائے، یا کراچی والوںکو سردی کے موسم میں پنجاب سے شادی کا کوئی دعوت نامہ موصول ہوجائے۔ گرم کپڑوں کی قلت کے باعث کراچی کے باسی شادی مرگ کی سی کیفیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ جب سے پنجاب سے بھانجے کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا تھا صبح و شام دماغ انہی تانوں بانوں میں الجھا ہوا تھا کہ شادی کے کپڑوں کا اہتمام کروں یا سردی سے تحفظ کی تیاریاں کروں! مہنگائی کے اس دور میں یہ کہاں ممکن تھا کہ لہکتے مہکتے بازار جائیں اور خوشی خوشی لدے پھندے واپس آکر اِترا اِترا کر سب کو شاپنگ دکھائیں۔ یہاں تو حالت یہ تھی کہ اگر قمیص بنوا لی ہے تو شلوار کے لیے پرانی گٹھریاں کھولی جائیں کہ کوئی میچنگ کا دوپٹہ یا شلوار مل جائے۔ اللہ اللہ کرکے شادی بیاہ کے لین دین اور پہننے اوڑھنے کی تیاریوں سے فارغ ہوئے تو وہاں کی سردی کی خبر گیری کرنے لگے۔ ہر روز اس امید پر فون کرتے کہ شاید سردی نے واپسی کا ارادہ کرلیا ہو اور ہماری بچت ہوجائے۔ مگر کہاں جی! ہر روز پہلے سے زیادہ شدید سردی کی خبریں ملتیں۔ محکمہ موسمیات کی خبریں سن سن کر لگتا تھا جیسے ہمیں جلانے کو خاص طور پر ایسا خون جما دینے والا درجہ حرارت بتایا جاتا ہے۔
آخر بیٹی سے کہا ذرا ہمت کرکے پرانا گرم کپڑوں والا صندوق کھول کر تو دیکھو، شاید کوئی بات بن جائے۔ بیٹی کو اس مشن پر بھیج تو دیا لیکن دل کو کامیابی کی کوئی امید نہ تھی، اس لیے کہ کراچی والوں کی عجیب فطرت بن چکی ہے، ذرا سردی آئی اور انہوں نے کہنا شروع کردیا: ’’لو اب دو چار دن کے لیے کون گرم کپڑے خریدے! ایسے ہی چادر وادر لپیٹ کر گزارا کرلو۔ اس سردی کا کیا بھروسا، نہ جانے کل ہو، نہ ہو۔ بے کار اتنا پیسہ گرم کپڑوں پر کیوں خرچ کریں!‘‘ اور ہوتا بھی یہی تھا، اگر کوئی بھول چوک سے کبھی ایک آدھ سوئیٹر خرید بھی لیتا تو اگلے دن دہکتا سورج اُس کا مذاق اُڑا رہا ہوتا، اور وہ بے چارہ اپنی رقم ڈوب جانے پر تلملا رہا ہوتا۔ انہی سوچوں میں گم بیٹی کی طرف سے کسی جواب کی منتظر تھی کہ ایک زوردار چیخ نے دل دہلا دیا۔ اللہ خیر کرے کہیں چوہا نہ آگیا ہو، میں نے دل تھام لیا۔ اتنے میں دیکھا کہ بیٹی خوشی سے نہال ایک کوٹ ہاتھ میں تھامے گنگناتی چلی آرہی ہے:
’’مل گیا… ہم کو کوٹ مل گیا…‘‘
لگتا تو ٹھیک ٹھاک ہے… اس نے چاروں طرف گھما کر دیکھا۔ کوٹ کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لیے میری آنکھوں میں بھی چمک آگئی۔ ماں نے کتنی محبت سے میرے جہیز میں بنا کر دیا تھا… اور پھر بیتے دنوں کی یادوں کا سلسلہ چل نکلا۔ پہلی مرتبہ جب ہنی مون منانے مری گئی تو یہ کوٹ پہنا تھا۔ تب شدید برف باری کا سامنا تھا۔ اس کوٹ نے مجھے ماں جیسی حرارت دی تھی۔ کوٹ سے خیال پھسل کر ماں کی طرف چلا گیا اور پھر آنکھوں سے ساون بھادوں کی جھڑی لگ گئی۔ ’’اوہو… میں سمجھ گئی امی، آپ اپنا یہ پرانا کوٹ نہیں پہننا چاہتیں تو اتنا رونے کی کیا ضرورت ہے! چلیے چھوڑ دیں اس کوٹ کو، کچھ اور تلاش کرتے ہیں۔‘‘
’’نہ بھئی، کم سے کم تیس سال پرانا کوٹ ہے، مجھے نہیں پہننا۔‘‘ میں نے صاف انکار کردیا۔
’’اماں کسی کو کیا پتا…!‘‘ بیٹی بضد تھی کہ اسی پر گزارا کرلیں۔
’’نہیں بھئی مجھے مذاق نہیں اُڑوانا… ارے بھلا تمہاری خالائوں کو نہیں پتا ہوگا کہ اس کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟‘‘
’’اچھا اماں تو پھر چار آٹھ دن کے لیے نیا کوٹ خرید لیں۔‘‘ اس کی آواز میں طنز نمایاں تھا۔
’’تمہاری ہانڈیوں میں ٹماٹر ڈالوں یا کوٹ بنوائوں؟‘‘ میں نے جل کر کہا۔ ’’اس حکومت نے تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑا۔‘‘
’’امی کہاں کی بات آپ کہاں لے جاتی ہیں! ٹماٹر تو اب مہنگے ہوئے ہیں، آپ کا کوٹ تو تیس سال پرانا ہے۔‘‘
’’اچھا اب زیادہ میرا دماغ نہ کھائو۔ میرا مسئلہ ہے، کچھ نہ کچھ خود کرلوں گی۔‘‘ میں نے غصے سے کہا اور کوٹ کو اٹھا کر دور پھینک دیا۔ ایسے موقع پر میں نے اپنی ہمسائی کو آزمانے کا فیصلہ کیا اور اُسے اپنی رام کہانی سنائی، اور ہمدردی سمیٹنے کے لیے آخر میں کہا ’’دیکھو ناں اب دو چار دن کے لیے کوٹ پر اتنا پیسہ خرچ کرنا کہاں کی عقل مندی ہے!‘‘
ہمسائی نے بڑی ہمدردی سے میرا مسئلہ سنا اور رازداری سے بتایا کہ اس کی والدہ کا ایک سوئیٹر اس کے پاس موجود ہے جسے وہ ہر سردیوں میں چند روز کے لیے پہنتی ہے پھر سنبھال کر رکھ دیتی ہے۔ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے اس نے فراخ دلانہ انداز میں مجھے وہ سوئیٹر لے جانے کی پیشکش کی۔
امی کا سوئیٹر… دماغ نے حساب لگایا، گویا کہ وہ میرے کوٹ کی عمر سے بھی زیادہ ہوگا۔
دلبرداشتہ وہاں سے نکلی اور دوسری ہمسائی کے سامنے مسئلہ رکھا۔ اُس نے بھی پوری ہمدردی کا اظہار کیا اور اس بات کی تائید کی کہ چند روزہ شادی کے لیے کوٹ خریدنا بے کار ہے، ہم نے کہاںکراچی میں دوبارہ پہننا ہے۔ پھر میرے کان کے قریب منہ لا کر رازداری سے بولی ’’لنڈے سے ایک کوٹ خریدا ہے، چاہو تو لے جائو۔‘‘
لنڈا بازار گئے بغیر ہی ایک عجیب سی بدبو دماغ میں سرایت کر گئی اور میں مایوس وہاں سے اٹھ آئی۔
گھر آکر بڑی محبت سے اسی کوٹ کو اٹھایا۔ اسے پہنا اور پیار سے اس پر ہاتھ پھیرا۔ اب ایک ایک کرکے اس کی خوبیاں نظر آنے لگیں۔ واہ رنگ تو بالکل ویسا ہے، سائز بھی ماشاء اللہ پورا ہے، اور یہ دیکھو ابھی تک جیبیں اندر سے سلامت ہیں، ورنہ تو ایک جیب میں ہاتھ ڈالو تو سفر کرتے کرتے کمر تک پہنچ جاتا ہے۔ سب بٹن بھی سلامت ہیں۔ اپنے گھمنڈ اور تکبر پر نادم ہوکر اس کوٹ کو ڈرائی کلین کرایا اور پھر ہمیشہ کی طرح نیا کوٹ خریدنے کا ارادہ ترک کردیا۔
ویسے بھی جہاز کا ٹکٹ خریدنے کے بعد بجٹ میں گنجائش ہی کہاں رہ گئی تھی! مقررہ دن بڑی شان سے تیار ہوئے اور کوٹ کو ہاتھ پر لٹکایا۔ کراچی کا درجہ حرارت کوٹ پہننے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ لاہور ائر پورٹ پر لینڈ کرتے ہی ہاتھ خودبخود کوٹ کی جانب بڑھ گئے۔ سرد ہوائوں کے مقابلے میں کوٹ نے ماں جیسا سکون دیا تھا۔ کپکپاتی ٹانگوں کی وجہ سے خیال گزرا کہ کاش ماں نے ہاف کوٹ کے بجائے فل کوٹ بنادیا ہوتا۔
ائر پورٹ سے باہر نکل کر اِدھر اُدھر کوئی شناسا چہرہ نظر نہ آیا۔ یکدم پیچھے سے کسی نے زوردار جپھا مارا۔ ’’دیکھا میں نے تمہارے کوٹ سے پہچان لیا۔‘‘ میری بہن خوشی سے مجھ سے لپٹی ہوئی تھی۔ ’’ارے یہ وہی کوٹ ہے ناں جو امی نے تمہاری شادی پر دیا تھا اور تم اسے پہن کر ہنی مون کے لیے مری بھی گئی تھیں… تم نے ابھی تک اسے سنبھالا ہوا ہے۔‘‘
’’اچھا… اچھا گھر تو چلو… باقی باتیں بعد میں کریں گے۔‘‘ میں نے موضوع بدلنا چاہا۔
’’دیکھو میری یادداشت کتنی اچھی ہے، تیس سال بعد بھی پہلی نظر میں ہی اسے پہچان لیا۔‘‘
’’کاش تمہاری یادداشت اتنی اچھی نہ ہوتی…‘‘ میں نے دل میں زچ ہوتے ہوئے سوچا۔
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے اپنے بیٹے کو بتانا شروع کیا ’’دیکھو تمہاری خالہ نے جو کوٹ پہنا ہے یہ کم از کم تیس سال پرانا ہے… ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں میں!‘‘ وہ اپنی رو میں بولے جارہی تھی۔
اس سردی کے موسم میں بھی میرے پسینے چھوٹ رہے تھے۔
’’ہاں بھئی پھر بتائو گھر میں کون کون آچکا ہے؟ شادی کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟‘‘ میں چاہتی تھی کہ وہ کوٹ سے دھیان ہٹا دے۔
’’ویسے فاران تمہارے میوزیم میں ایک اور شان دار آئٹم کا اضافہ ہوسکتا ہے۔‘‘ اس نے خوشی سے بیٹے کو مخاطب کیا۔
’’ہاں خالہ میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ تیس سال پرانا کوٹ، دراصل میں اپنے بزرگوں کا ورثہ جمع کررہا ہوں، ایسی اینٹک چیزیں جمع کرنا میرا مشغلہ ہے۔ میرے پاس دادا کا حقہ ہے، نانی کی شادی کا غرارہ ہے، دادی کی ساڑھی ہے اور اب خالہ آپ کا کوٹ بھی میرے اس میوزیم کا حصہ بنے گا۔‘‘ وہ خوشی سے چہک رہا تھا۔
میرے اندر سردی کا احساس ختم ہوچکا تھا اور صرف ذلت کا احساس باقی تھا۔ اس سے پہلے کہ جاتے ہی سارے خاندان میں میرا کوٹ متعارف کرایا جائے، مجھے خود کچھ کرنا ہوگا۔ خاموشی سے میں نے کوٹ اتارا، آہستہ سے اسے ہینڈ کیری میں بند کیا اور زوردار نعرہ لگایا ’’ارے بھئی! یہاں تو موسم بہت خوش گوار ہے اور مجھے تو ذرا بھی سردی نہیں لگ رہی۔‘‘
اس سمجھ داری کا اثر یہ ہوا کہ کوٹ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر میری اہمیت اجاگر ہوگئی اور کوٹ کا جوش و خروش دب گیا۔
شادی کے ہنگاموں سے فارغ ہوکر میں نے فاران کو بلایا اور ایک گفٹ پیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا ’’یہ لو اس تیس سال پرانے کوٹ کو اپنے میوزیم کی زینت بنا لو۔‘‘
جی، اب آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ اس کہانی کا سبق کیا ہے جس کا وعدہ آغاز میں آپ سے کیا گیا تھا۔ تو میرے عزیز ساتھیو! اس کا سبق یہ ہے کہ پرانے کپڑوںکی شان علیحدہ ہے اور اس کے لیے کسی قسم کے احساسِ کمتری میں مبتلا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

حصہ