صحت مند سرگرمیاں

404

روزانہ ایکسرسائز ہماری ذہنی نشوونما اور جسمانی ساخت کو صحت مند اور خوب صورت بناتی ہے۔ ایسی بہت سی ایکسرسائز یعنی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے لائف اسٹائل کو بھی متاثر کرتی ہیں اور ان کے بے شمار فائدے ہمیں حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ سرگرمیاں ایسی ہوتی ہیں جو جسم کو مضبوط اور لچک دار بناتی ہیں اور ہماری صحت پر خوش گوار اثرات مرتب کرتی ہیں۔ یہ سرگرمیاں ہمیں نہ صرف قدرت سے قریب کرتی ہیں بلکہ ہم جو کھاتے ہیں اس کی اضافی مقدار کو جلا دیتی ہیں اور ہمارے جسم کو شیپ دیتی ہیں۔ یہاں ہم چند ایسی سرگرمیوں کا ذکر کررہے ہیں جو کہ بہت آسان ہیں اور آپ کو فٹ رکھنے میں نہ صرف مدد دیں گی بلکہ تروتازہ بھی رکھیں گی۔
سوئمنگ: سوئمنگ ہمارے جسم کو مکمل طور پر ٹون کرتی ہے۔ یہ ہماری ٹانگوں، ہاتھوں اور پٹھوں کو حرکت میں رکھتی ہے، روزانہ سوئمنگ ایک گھنٹے میں 500 سے 800 کیلوریز کو جلاتی ہے اور جسم کو لچک دار بناتی ہے۔ اس لیے ہفتے میں تین دفعہ 20 منٹ کی سوئمنگ ضرور کریں۔
جاگنگ: جاگنگ بہت آسان اور بہت ہی اہم ایکسر سائز ہے۔ یہ نہ صرف ہماری ٹانگوں کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بلکہ پورے جسم کو فٹ رکھتی ہے۔ (اگر آپ کو پٹھوں اور جوڑوں کی تکلیف ہے تو جاگنگ سے پرہیز کریں۔)
سائیکلنگ: سائیکلنگ ٹانگوں، خاص طور پر کولہوں اور رانوں کو ٹون رکھنے کا بہترین طریقہ ہے۔ 15 منٹ کی سائیکلنگ 105 سے 225 کیلوریز کو ضائع کرنے میں مدد دیتی ہے، اور اس کا بہترین نتیجہ اسمارٹنس کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ خیال رہے سائیکلنگ کے لیے صرف گرائونڈ یا باغ کا انتخاب کیا جائے، سڑک پر سائیکلنگ حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
یوگا: یوگا ہمارے دماغ اور روح کی صلاحیتوں کی بیداری کا نام ہے۔ یوگا ایکسرسائز میں بہت احتیاط سے کام لیا جاتا ہے، اس کے لیے ماہر کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، کیوں کہ کسی آسن میں تھوڑی سی غلطی آپ کو متاثر کرسکتی ہے۔ لیکن کسی ماہر کی مدد سے کی گئی یوگا ایکسرسائز ہماری صحت کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ یہ ہماری باڈی کو متوازن رکھتی اور اندرونی صلاحیتوں کو ابھارتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ Stress کو دور کرنے کا بھی بہترین راستہ ہے۔
ایکسرساز کے بعد غذا کی ضرورت: ایکسر سائز کے بعد ہمارے جسم سے اضافی کیلوریز جل جاتی ہیں، لیکن اس کے بعد ہمیں پروٹین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے مچھلی، پھل، سبزیاں، دودھ، سویاں، میوہ وغیرہ میں سے کسی چیز کا لینا ضروری ہوتا ہے۔
ایکسرسائز کے لیے بہترین وقت: کسی بھی ایکسر سائز کو کرنے کا سب سے بہترین وقت صبح کا وقت ہے، کیوں کہ خالی پیٹ کی جانے والی ایکسرسائز زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے اور اس کے نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس لیے اگر آپ اپنے آپ کو فٹ اور اسمارٹ رکھنا چاہتے ہیں تو ان میں سے کسی بھی سرگرمی کو اپناکر خود کو سلم اور اسمارٹ بنا سکتے ہیں۔
…٭…
ذہنی اور جذباتی تنائو کی کیفیت بچوں اور بڑوں دونوں پر طاری ہوسکتی ہے، لیکن اسے دور کرنے کے لیے بڑوں کی نسبت بچوں کو ادویہ نہیں دی جاتیں، اور اس بات پر خود معالجین بھی متفق ہیں۔ اس کے باوجود حال ہی میں ایک چشم کشا طبی تحقیق منظرعام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکا جیسے ملک میں جسے جدید طب کے میدان میں نہایت اہمیت حاصل ہے، بچوں کے ذہنی تنائو اور جذباتی دبائو کو دور کرنے کے لیے معالجین کی جانب سے ادویہ استعمال کروانے کے رجحان میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ ادویہ عام طور پر بچوں کی بدمزاجی کے خاتمے اور ان کے منفی رویوں کو ختم کرنے کے لیے معالجین تجویز کرتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نفسیاتی ماہرین و معالجین اپنے پاس لائے جانے والے ان بچوں کا نفسیاتی طریقوں سے علاج کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ادویہ خصوصاً گولیوں وغیرہ کی مدد سے علاج کرنے سے مریض کو فی الوقت تو افاقہ ہوسکتا ہے تاہم کم عمری میں نفسیاتی رویوں کی تبدیلی کے لیے ادویہ کے استعمال سے ان بچوں کی آئندہ کی زندگیوں پر دیرپا لیکن مضر اثرات کے رونما ہونے کو قطعاً نظرانداز نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ تحقیق میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ رجحان جس کا ابھی صرف امریکا کی حد تک ہی جائزہ لیا گیا ہے، کیا مستقبل میں ایک مثبت عمل کے طور پر سامنے آئے گا، یا اس سے متعدد بیماریوں کی علامتیں جنم لیں گی؟ صورت حال جو کچھ بھی ہو ایک بات یقینی ہے، وہ یہ کہ اس کی ذمہ دار صرف فوری علاج اور جلد صحت یابی کی وہ خواہش ہے جس نے اس تیز رفتار دنیا کے باسی حضرتِ انسان کو ہر مرض کا علاج دوا اور وہ بھی جو تیزی سے اثر کرے، میں ڈھونڈنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
پہلے علاج اور صحت یابی کے لیے معالجین مریضوں کے معمولاتِ زندگی کو بھی پیش نظر رکھتے تھے، اور مرض کی علامتوں کے تحت انہیں غذا میں ردوبدل اور آرام کا مشورہ دیا جاتا تھا۔ شیر خوار بچے کو لاحق کسی بھی مرض کے علاج کے لیے ماں کو بھی پرہیز کروایا جاتا تھا، لیکن اب ہم صرف ادویہ اور وہ بھی سریع الاثر میں ہر مرض کا علاج ڈھونڈنے لگے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کمسن بچوں کے نفسیاتی مسائل کے تدارک کے لیے انہیں عمر سے قطع نظر ادویہ استعمال کروانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ بچوں کے نفسیاتی عوارض کو ختم کرنے کے لیے والدین کے رویّے نہایت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

حصہ