محبت کی چاہت

525

عالیہ زاہد بھٹی
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو… کہ ہم کو،تتلیوں کے جگنوؤں کے
دیس جانا ہے کہ ہم کو…رنگوں کے جگنو،
روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں،ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو ہمیں…‘‘
عنابیہ جیسے ہی داخل ہوئی دھیمے سروں میں نیّرہ نور کی مدھر آواز نے گویا ہاسٹل کے اس کمرے کو افسردہ کر رکھا تھا اک عجیب سی قنوطیت اور وحشت سی اسے اس ماحول سے محسوس ہونے لگی۔نیم تاریکی میں پردے گرائے عروبہ گرم شال اوڑھے راکنگ چیئر پر موسیقی کے ردھم پر جھول رہی تھی۔
عنابیہ نے جاتے ہی پہلے کھڑکیوں سے پردے ہٹائے اور ساتھ ہی پلگ کھینچ کر آواز کا گلہ گھونٹ دیا۔عروبہ نے اس حرکت پر ابرو اچکا کر اسے دیکھا ’’کیا بدتمیزی ہے یہ؟‘‘ وہ غصے سے بولی۔
عنابیہ دھم سے بیڈ پر گرتے ہوئے شان بے نیازی سے کہنے لگی’’بندی کو عنابیہ راحم کہتے ہیں، بدتمیزی نہیں۔‘‘”
یہ بند کیوں کیا؟تمہیں کیا تکلیف تھی؟‘‘ عروبہ کو اپنی پرسکون خلوت میں اس کی دخل اندازی گویا پسند نہیں آئی تھی۔
’’اس لیے کہ ابھی ہماری عمر ان گیتوں کی نہیں ہے۔ اداس،افسردہ اور اماں جی کو یاد کرتے ہوئے گیت کہ اماں جی ماتھے پر اک ممتا بھرا بوسہ تو دے دیں۔‘‘ عنابیہ ساری شاعری کا ستیاناس کر کے مسخرے پن سے کہہ رہی تھی۔
’’ارے ہماری عمر کچھ اور ہی سننے کے ہے’’پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا۔
’’بیٹا ہمارا ایسا کام کرے گا۔‘‘وہ کھنکتی آوازوں کے ساتھ گنگنا رہی تھی۔
’’خدا کے لیے اپنے یہ عشق وعاشقی کے ٹوٹکے اپنے پاس رکھو‘ میرے لیے اپنے اماں اباکا پیار ہی کافی ہے۔‘‘
’’تمہیں پتا ہے سرد موسم میں پاپا جی اور میں شور مچا مچا کر مما کو زچ کردیتے کہ ٹھنڈ لگ رہی ہے ، ٹھنڈ لگ رہی ہے اور مما جلدی جلدی گرما گرم چائے،کافی یا سوپ لے کر آجاتیں۔ اک میٹھا سا بوسہ میرے ماتھے پر دے کر وہ بھی ہمارے ساتھ آبیٹھتیں۔‘‘ عروبہ نے گہری آہ بھری۔ یکدم اس کی آواز بھرا گئی ’’آئی ریئلی لو مائے پیرینٹس۔‘‘
’’ارے کیا ممی ڈیڈی چائلڈ بنی ہو۔ ساری زندگی ماں باپ کے پاس تھوڑی رہنا ہے آخر اپنے پارٹنر کے ساتھ بھی تو وقت گزارنا ہے۔‘‘ عنابیہ ترنگ میں بولی۔
’’جی بالکل مگر اس کے ساتھ جسے ہمارے والدین ہمارے لیے منتخب کریں گے۔ ہر راہ چلتا کم از کم میرا پارٹنر نہیں بن سکتا۔‘‘ عروبہ کے اصول اٹل تھے۔
’’کیسے نہیں بن سکتا آج کوئی اگر میرے دل میں اتر گیا، عنابیہ تو اسی سے دوستی بھی کرے گی اور اپنا بنا کر بھی دکھائی گی۔ ‘‘ وہ اپنی فلاسفی جھاڑ رہی تھی۔
’’ایک بات کہوں کھانے کی ٹیبل سجی ہو یا شاپنگ کرتے ہوئے چیزوں کی سلیکشن ہو مجھے سامنے رکھی چیزوں کو دیکھ کر بھی سمجھ نہیں آتی کہ مجھے کیا کھانا اور کیا لینا ہے جب بھی خود منتخب کیا ناں کھانے کو دل کیا نہ پہننے برتنے کو اچھا لگا مگر مما نے جب بھی خود منتخب کرکے دیا مجھے لگا یہی تو مجھے چاہئے تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اس پوری دنیا میں ایک اللہ کومعلوم ہوتا اک ہماری ماں کا وجدان بتاتا ہے کہ میرے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط یہ الگ بات کہ اس کا شعور کسی کو ازل سے ہوتا ہے اور کوئی ٹھوکر کھاکر سنبھلتا ہے۔‘‘
عروبہ نے بحث سمیٹ کر کتاب کھول لی یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب مزید بات نہیں عنابیہ بھی اس کا موڈ بھانپتے ہوئے کندھے اچکا کر اپنے بستر کو سیٹ کرنے میں لگ گئی۔
کمرے کادروازہ تواتر سے دھڑ دھڑا رہا تھا عروبہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو وارڈن کا پریشان چہرہ سامنے تھا’’تمہیں عنابیہ کے بارے میں کچھ پتا ہے۔‘‘وارڈرن نے عروبہ سے پوچھا۔
’’جی میم دوپہر تک ہم دونوں ساتھ ہی تھے،ابھی کا پتا نہیں۔‘‘عروبہ نے جواب دیا۔
’’ابھی یہ خبر آئی ہے کہ عنابیہ اپنے کسی دوست کے ساتھ تھی وہیں سے اس کے دوست پر فائرنگ کر کے عنابیہ کو اغوا کر لیا گیا ہے پولیس اسی لیے سب سے تفتیش کر رہی ہے‘ ہاسٹل آئے ہیں تم سے بھی پوچھ گچھ کرنا چاہ رہے ہیں کہ تم اس کی روم میٹ ہو۔‘‘ وہ اور بھی تفصیل بتا رہی تھیں مگر اس کے کان سائیں سائیں کر رہے تھے۔ ’’دوست،اغوا ،تفتیش…‘‘ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اسے لگا محبت کی غلط ترجمانی سے اک اور وجود چاہے جانے کو ان چاہا کر گیا تھا، چاہنا اور چاہے جانا تو زندگی کا حاصل ہوتا ہے مگر یہ کیسی چاہت ہے کہ جسے خود بھی نہیں پتا ہوتا کہ وہ اس کی چاہت ہے ضرورت ہے یا محض وقتی اُبال؟ اسے یاد آیا کہ بچپن میں جب وہ اپنے پاپا جی کے ساتھ کسی مٹھائی کی دکان پر جاتی تھی تو سب سے زیادہ کلر فل، نگاہوں کو بھاتی مٹھائی کے لیے پاپا سے ضد کرتی تو جب وہ مٹھائی اسے مل جاتی تو اس کا ایک ہلکا سا چکھنا بھی محال ہو جاتا کہ اس کا ذائقہ اسے بالکل بھی نہیں بھاتا۔ ایسے وقت گزرتا گیا اور آج بھی جب وہ علم کے سب سے اونچی سند پانے جارہی تھی اسے یقین تھا کہ اس کے پیدا کرنے والے رب اور والدین دونوں کو پتا ہے کہ اس کی کیا چاہت ہے سو وہ اسے اس کے حساب سے سب سے درست چاہت سے محبت کروا دیں گے۔ وہ اپنی چاہت سے محبت نہیں کرنا چاہتی تھی بلکہ وہ تو محبت کی چاہت کو محسوس کرتے ہوئے اسے محبت کی اصل شکل میں پانا چاہتی تھی کہ جس میں پھر چاہت کو چاہا جائے وہ چاہت جو محض وقت کا تقاضا یا صورت گری کا فریب نہ ہو وہ انتہائی اندر سے اٹھتی محبت کی وہ طلب ہو جو ماں کے ماتھے کے بوسے سے شریک سفر کی نگاہ کی پسندیدگی تک کا سفر طے کر لے کہ ماتھے کا یہ بوسہ بھی اگر عمر کا تقاضا ہے تو شریک سفر کی نگاہ کا التفات بھی روح کی ضرورت ہے اور ضرورتوں کو بھلا اللہ اور ماں باپ کے علاوہ کون جان سکتا ہے سو عنابیہ کی طرح اپنی چاہت سے محبت کو پانے کے بجائے محبت کرنے والے رب اور والدین کی محبت میں چاہت کو ’’ڈھونڈ‘‘ کر اپنایا جائے یہ یقین رکھتے ہوئے کہ ان چاہت والے رشتوں نے میرے لیے ’’محبت‘‘ ضرور ڈھونڈ کر رکھی ہوگی بس درست وقت آجائے میری محبت مجھے ضرور ملے گی یہ میرے چاہنے والوں کی چاہت ہے اور یہی محبت کی چاہت ہے۔

حصہ