امیدوں کے چراغ

387

دانیہ آصف
۔’’کتنی یاد آرہی ہے نا گڑیا رانی‘‘۔ اُداسی سے منہ بسورتی ہوئی میمونہ نے سوچا جب شادی ہوئی تھی تو عنایہ نے کہا تھا ہر ہفتے ملانے لے کر آئوں گی لیکن… جب امی سے کہتی ہوں مجھے ہی خالہ جانی کے گھر لے چالیں تو وہ بھی ٹال جاتی ہیں۔ اپنے گھر کے باغیچے میں جھولے پر بیٹھی 8 سالہ میمونہ نے دُکھی سے انداز میں سوچا۔ اُس نے اپنی گڑیا کی شادی اپنی خالہ زاد بہن کے گڈے سے کی تھی۔ اور خالہ جانی میں تو اُس کی اپنی جان اَٹکی ہوئی تھی۔ اُنہی کی وجہ سے تو اُس کے اپنے گڈے کی شادی رُکی ہوئی تھی جو کہ پڑوس میں رہنے والی اُس کی سب سے اچھی دوست ’’حیا‘‘ کے گڈے سے تھی۔ بھلا اپنی جان سے پیاری خالہ جان اور اپنی گڑیا کے بغیر وہ اپنے گڈے کی شادی کیسے کرسکتی تھی؟ سوچتے سوچتے اچانک اُس کی نظر سیبوں کے درخت پر پڑی اور اُس کو اویس بھائی یاد آگئے۔ وہ مزید اُداس ہوگئی۔ ’’کتنے مزے سے اُس کو گود میں اُٹھا کر درخت کے قریب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اپنی مرضی سے جو چاہو توڑ لو اور اپنی مرضی سے رس بھرے سیب توڑ کر کھانے کا تو مزہ ہی کچھ اور ہے۔ اب تو سیب کھانے کا دل ہی نہیں چاہتا‘‘۔ مجھے اب بھی یاد ہے جب طلحہ بھائی کی شادی میں ہم پاکستان گئے تھے تو کتنا مزہ آیا تھا وہاں پر کتنا سکون تھا میں تو وہاں پر بے فکر ہو کر پوری رات سکون سے سوئی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے سوچنے لگی اور ایک بار جب رات گئے ’’آئس کریم‘‘ کھانے کا پروگرام بنا تھا تو میں بول بیٹھی تھی کہ ’’اتنی رات میں کیسے جائیں گے فائرنگ شروع ہوگئی تو۔ کونے کونے پر فوجی کھڑے ہوں گے‘‘۔ اور میری اِس بات پر سب اُداس سی ہنسی ہنس دیتے تھے۔ اُس کے بعد جب ثناء بھابی نے میرا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا تھا کہ ’’گڑیا یہ پاکستان ہے یہاں پر ایسی کوئی فکر نہیں‘‘۔ رات کے وقت جگمگاتا لاہور تو جیسے گھومنے جاتے کبھی کہیں تو کبھی کہیں۔ اپنے ہنسی مذاق اور اپنی خوشدلی کی وجہ سے اویس بھائی تو سب کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے۔ اچانک اُسے پھر سے اویس بھائی یاد آگئے۔ انہوں نے تو اُسے لاہور کے ’’بانو بازار‘‘ سے کتنی پیاری چوڑیاں دلوائی تھیں۔ اب تو وہ اُس کے پاس اُن کی نشانی کے طور پر رہ گئی تھیں اور پھر اچانک ہی میمونہ غصے سے سُرخ ہوگئی اور روتے ہوئے زور سے بولی۔ کیا قصور تھا اویس بھائی کا، اُن کو کیوں مارا وہ تو کالج سے واپس آرہے تھے۔ سب کو خوش رکھنے والے سب کا خیال رکھنے والے اویس بھائی کو ہم سے چھین لیا۔ کیا سمجھتے ہیں یہ لوگ ہم پر ظلم کرکے ہمیں یہاں سے بھگادیں گے نہیں کبھی بھی نہیں، ہم اپنے کشمیر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔ بلکہ ان کو یہاں سے بھگادیں گے۔ میمونہ کی آواز سن کر امی بھاگی ہوئی آئیں اور اُس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولیں’’صبر کرو میمونہ! یہ نہ ہو کہ بھارتی فوجی گھر کے اندر گھس آئیں، انہیں تو بس بہانہ چاہیے ظلم و زیادتی کرنے کا‘‘۔ میمونہ نے رندھے ہوئے گلے سے کہا، لیکن امی مجھے خالہ جانی یاد آرہی ہیں، کتنا روئی تھیں وہ اویس بھائی کی شہادت پر، اب تو انہیں میری کسی شرارت پر بھی ہنسی نہیں آتی۔ وہ روتے روتے بے حال ہوئی جارہی تھی کہ اچانک فائرنگ شروع ہوگئی، امی نے اُس کو اندر چلنے کے لیے کہا، پرندے بھی سہم کر اُڑ بھاگے اور وہ اندر جاتے ہوئے سوچنے لگی کہ ابھی تو چھوٹی ہوں لیکن جیسے ہی کچھ کرنے کے قابل ہوں گی ان بھارتی فوجیوں کو کشمیر سے نکال باہر کرنے میں اپنا حصہ ضرور ڈالوں گی۔ ان شاء اللہ! میرا کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔

حصہ