۔5فروری: یوم یکجہتی کشمیر، مسئلہ کشمیر۔۔۔۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں

2508

افشاں نوید
۔1990ء سے 2020ء… تیس برس سے ہم ہر سال 5 فروری کو یک جہتی کشمیر کا دن مناتے ہیں۔ اِس سال پھر سیمینار اور کانفرنسیں، احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں، ہاتھوں کی زنجیریں بنیں گی۔ امریکی اور بھارتی حکمرانوں کے پتلے نذرِ آتش کیے جائیں گے۔6 فروری کے اخبارات کوریج دیں گے۔ الیکٹرانک میڈیا لائیو کوریج کرے گا، اور پھر ہم اس ’’یک جہتی‘‘ کے لیے اگلے برس کے 5 فروری کا انتظار کریں گے۔
ہم قراردادیں منظور کراتے ہیں، وہ سرکٹاتے ہیں۔ ہم مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں، وہ لاشیں گنتے ہیں اور روز نئی قبریں کھودتے ہیں جن میں بیشتر نوجوانوں کی ہوتی ہیں۔ ہم کہتے ہیں ہم آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑیں گے، وہ پہلی گولی اور پہلے فوجی کے قدموں کی چاپ کے منتظر ہیں۔ ہم اُن کی پشت پر ہی رہے اور وہ سینوں پر گولیاں کھاتے رہے۔ بابری مسجد کے قاتلوں نے پوری ریاست جموں و کشمیر کو جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ سوا کروڑ کشمیری محاصرے میں ہیں، جو دنیا کا طویل ترین محاصرہ ہے۔
5 اگست2019ء سے آج تک کشمیر کا ہر گلی کوچہ کربلا بن چکا ہے۔ مودی اپنے انتخابی منشور کے وعدے بتدریج پورے کررہا ہے۔ خواہ وہ بابری مسجد کی جگہ مندر بنانے کا وعدہ ہو یا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ بنانا، یا اکھنڈ بھارت کے خوابِ مذموم کی تعبیر کی طرف پیش قدمی۔ وہ دریائوں کے رخ موڑ رہے ہیں پاکستان کو بنجر صحرا میں تبدیل کرنے کے لیے، ہم اقتدار کی رسّاکشی میں مصروف ہیں۔ یہاں سیاسی اکھاڑے لگے ہیں۔ ایک، دوسرے کو چاروں شانے چت کرکے سینہ پھلائے کھڑا ہے۔
ہم ڈونلڈ ٹرمپ کو ثالث بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جب کہ امریکہ، اسرائیل کے ساتھ مل کر ’’گریٹر ہندوستان‘‘ کے خواب کو تعبیر دینے میں مصروف ہے۔ امریکی صدر مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اصل مقابلہ اسلام کے ساتھ ہے۔
ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ کشمیر پاکستان کی شہہ رگ ہے، دوسری طرف کشمیر میں بدترین کرفیو نافذ ہے۔ ہماری شہہ رگ دشمن کے پنجوں کی زد میں ہے لیکن ہمارے الیکٹرانک میڈیا نے جس طرح نان ایشوز کی سیاست اپنا رکھی ہے اس کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میڈیا ایک ایسی قوم کا ترجمان ہے جس کا ایک حصہ تکمیلِ پاکستان کی جنگ لڑرہا ہے۔ وہ سنگینوں کے سائے تلے کہتے ہیں کہ ’’پاکستان ہمارا ہے‘‘۔ اُن کے نہ صرف جلسوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں بلکہ اُن کے شہداء کی قبروں پر بھی پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔ انھوں نے ’’آزادی‘‘ کے خواب سے اپنی شبِ تاریک کو سحر کیا ہوا ہے اور یقین رکھتے ہیں کہ ’’پاکستان کے 22 کروڑ عوام کی موجودگی میں کشمیر پر کوئی سودا نہیں ہوسکتا‘‘، لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ ’’کشمیری تو محصور ہیں لیکن پاکستان کے عوام تو محصور نہیں ہیں؟‘‘ یہ سوال اُس وقت سے اور شدت اختیار کرگیا ہے جب 31 اکتوبر کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے حصے بخرے کردیے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنے نقشے میں شامل کرلیا، لیکن دنیا کے کسی حصے سے کوئی دل خراش آواز بلند نہ ہوئی۔ وہ جو پرندوں اور آبی حیات کے دن مناتے ہیں، اور ملالہ پر تشدد ہوتا ہے تو پاکستان کے چہرے پر سیاہی مَلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اُن کو شاید خبر ہی نہیں کہ کشمیر کی عورتوں پر گھروں میں گھس کر تشدد کیا جاتا ہے۔ دس ہزار عورتوں کی مقبوضہ وادی میں آبروریزی کی جا چکی ہے۔ وہاں چادر اور چار دیواری نام کی کوئی چیز نہیں۔ کریک ڈائون کے نام پر انڈین آرمی جس گھر کی چاہے عزت پامال کردے۔ والدین کے سامنے بیٹیوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایسی دلخراش ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں، جنھیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ ظلم اور درندگی کی یہ کہانیاں اس روئے زمین پر رقم کی جارہی ہیں، جنھیں دیکھ کر انسانیت تو انسانیت، حیوانیت بھی لرز اٹھے۔
1947ء میں ہمارے اسلاف نے جہاد کے ذریعے عظیم قربانیاں دے کر یہ مملکتِ خداداد حاصل کی تھی۔ قیام پاکستان ایک طویل جدوجہد کی داستان ہے، نہ کہ نادیدہ قوتوں کا کرشمہ۔ کشمیر کے مسئلے کے حل کی ایک ہی صورت رہ گئی ہے کہ کشمیر کی آزادی کے لیے حکومت جہاد کا اعلان کرے۔ کشمیریوں کو جدوجہدِ آزادی کا حق اقوام متحدہ کا چارٹر فراہم کرتا ہے، یہ دوسری بات ہے کہ اقوام متحدہ اس ظلم و ستم کو دیکھتے ہوئے بھی وائٹ ہائوس کی لونڈی کا کردار ادا کررہی ہے۔
حکمرانوں کی مجبوریاں ہوتی ہوں گی، عوام مجبور نہیں ہیں۔ ہم اپنی صفوں میں جہادی روح بیدارکریں۔ کئی ماہ سے کرفیو میں محصور اپنے جسم کے اس حصے کا درد محسوس کریں جو کراہتے ہوئے بھی کہتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ پھر ہم کیسا جسدِ واحد ہیں! آٹے کی قلت نے ہمیں مقبوضہ کشمیر کا دکھ کیوں نہیں یاد دلایا، جہاں کئی ماہ سے کرفیو ہے۔ وہ کس طرح زندہ ہیں؟ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ وہ کیوں زندہ ہیں؟ اس ’’کیوں‘‘ کا ایک ہی جواب ہے کہ وہ آزادی کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے زندہ ہیں۔ وہ تقسیمِ کشمیر کے ہر فارمولے کو پیروں تلے روندتے ہیں۔
ہم مشرقی پاکستان کو کھوکر کوئی سبق لیتے اور اپنی آئندہ نسلوں کو وہ سازشی تھیوریاں بتاتے تو پاکستان کا مستقبل محفوظ ہاتھوں میں ہوتا۔ ہم مقبوضہ وادی کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھتے تو تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا کب کا مکمل ہوچکا ہوتا۔

ہمارے کرنے کے کام

1۔ بحیثیت استاد یہ بڑی ذمہ داری ہے کہ اس موضوع کو زندہ رکھا جائے۔ ان کے اوپر ہونے والے مظالم سے انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کو آگاہ کیا جائے۔ ان کے درد کو زبان دینا وقت کا جہاد ہے۔
2۔ ہر زندہ قوم اپنے مشن کی تکمیل کے لیے اپنی نئی نسل کو تیار کرتی ہے۔ اس وقت شدت سے ضرورت ہے کہ اسکول کی سطح سے ذہن سازی کی جائے۔ طلبہ و طالبات کے ذہنوں میں دوقومی نظریے کی اہمیت اجاگر کی جائے۔
3۔ تاریخ اور جغرافیہ کے اساتذہ کو خطے کی موجودہ صورتِ حال پر تسلسل سے بات رکھنی چاہیے۔
4۔ خود اساتذہ کے لیے بھی بین الاقوامی اُمور سے متعلق آگہی کے لیے لیکچر وغیرہ کا اہتمام کیا جائے۔
5۔ پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں سے طلبہ و طالبات کو آگاہ کیا جائے۔
6۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی تکمیلِ پاکستان کا نامکمل ایجنڈا ہے۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں میں سیمینار و مذاکرے رکھے جائیں۔
7۔ ایک مضبوط و مستحکم پاکستان ہی کشمیری عوام کے دکھوں کا مداوا کرسکتا ہے۔ استحکامِ پاکستان کے لیے اپنے دائرۂ کار میں ہمارے فرائض کیا ہیں؟ ان موضوعات پر اسمبلی میں بات کی جاسکتی ہے۔
8۔ اسکولوں میں ایسے مواقع پر فنڈنگ وغیرہ کرکے بھی جذبات کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔
9۔ مختلف پروگراموں میں ٹیبلو اور مباحثوں کے ذریعے اس موضوع کو زندہ رکھا جاسکتا ہے۔
10۔ کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم، نیز وہاں بچوں کی پڑھائی کا مسلسل کرفیو کی وجہ سے جو ہرج ہورہا ہے اس پر بچوں کو آگہی دی جائے کہ کم از کم ہم ان کے درد کو محسوس کرکے اپنے جسدِ واحد ہونے کا ثبوت تو پیش کرسکتے ہیں۔

حصہ