ظلماتِ بحریہ

1940

پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو جس نے ’’ڈبل شاہ‘‘ کا نام نہ سنا ہو، پاکستان میں کھیلوں کے فروغ کے نام پر چلنے والی متعدد ریفل اسکیم سے بہت سوں نے دس، بیس، سو‘ پچاس‘ پانچ سو اور ہزار کے انعامی ٹکٹ خریدے ہوں گے۔ بخاری الائنس موٹرز کے نام پر شہریوں اور بیواؤں کا اربوں روپے داؤ پر لگا اور پھر پریشانی کے عالم میں بہت سے لوگوں نے کسی گمنام لڑکی کی فون کال پر سو روپے کا بیلنس جمع کروا کر ثواب دارین کے حق دار ٹھیرے ہوں گے۔
ان تمام دھوکے اور جعل سازی میں سے سب سے بڑی اور نیک نام سفید پوش جعل سازی اب بھی جاری ہے جو پاکستان اور بیرون پاکستان ’’بحریہ ٹاؤن‘‘ کے خوب صورت نام پر ’’ایشیا کے سب سے بڑے رہائشی منصوبے‘‘ کے نام سے کھیلی جارہی ہے
اس ’’نیک نام جعل سازی‘‘ کی شروعات لاہور اور راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے پراجیکٹس کے نام سے شروع ہوئی اور انتہائی خوب صورت ولاز مکمل سیکورٹی اور دیگر سہولیات کے ساتھ شہریوں کو انتہائی مہنگی قیمت پر فروخت کے گئے۔ اس وقت چوں کہ بحریہ کے نام کو مستحکم کرنا مقصود تھا لہٰذا صرف مقامی غریب کسانوں کی زمین ہتھیانے اور قبضہ کرکے زمین پر بحریہ پراجیکٹ بنانا پیش نظر تھا اور اس میں متاثرین عام شہری نہیں بلکہ مقامی کسان تھے جنہیں غنڈوں اور وڈیروں کے زور پر خاموش کروا دیا گیا۔ جس نے زبان کھولی اس کی نعش کسی نہر یا کھیت سے برآمد ہوتی۔ غریب کسانوں نے جان کے خوف سے زبان نہیں کھولی اور یوں بحریہ ٹاؤن ’’آباد‘‘ ہوتے چلے گئے ۔
میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا کہ زمینیں بزور قوت ہتھیانے والے غنڈوں اور وڈیروں کو ملک ریاض صاحب نے کیا مراعات دیں، مگر ان علاقوں میں رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگلے انتخابات میں وہی غنڈے بدمعاش ایم این اے اور ایم پی اے منتخب ہوتے چلے گئے اور ان کی تمام انتخابی مہم ’’کسی اللہ والے‘‘ نے اسپانسر کردی تھی۔
یہ خاموش فراڈ برس ہا برس جاری رہا اور اب بحریہ کے متعدد پراجیکٹ آباد ہوچکے تھے‘ ان میں ملنے والی سہولیات بھی قابل رشک تھیں، یہ تھی ’’بحریہ ٹاؤن‘ کے مارکیٹنگ حکمت عملی کہ بہت بڑا کام کرنے کے لیے بہت بڑا ویژن درکار ہوتا ہے اور وہ بہت بڑا ویژن یہ تھا کہ ’’بحریہ ٹاؤن پراجیکٹ کی ساکھ بنائی جائے۔ لیجیے جناب بحریہ پراجیکٹ کی ملک اور بیرون ملک اچھی خاصی سا کھ بن گئی۔
پائی پائی جوڑ کر اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے والے اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انتظار تھا کہ ’’غریبوں کے سلطان‘‘ اور اَن داتا ملک ریاض صاحب کب کوئی پراجیکٹ شروع کرتے ہیں۔ انتظار اس لیے کہ ملک ریاض کے پراجیکٹ ہوتے ہی اتنے اچھے ہیں کہ اس میں رہنے کو ہر کسی کا دل کرتا ہے اور مارکیٹ کے مقابلے پر کم قیمت پر کوئی اور چوائس ہو ہی نہیں سکتی تھی۔
لہٰذا اب شروع ہوا اصل گیم۔ کراچی کے دور دراز علاقے سپر ہائی وے کے ساتھ ہی بحریہ ٹاؤن کے نام سے پراجیکٹ کا اعلان ہوا، ’’صرف پانچ ہزار روپے‘‘ کا فارم بنکوں سے حاصل کرنے کے لیے لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی تھیں‘ رات رات بھر نوجوان قطار میں لگ کر بینک کی پرچی حاصل کرتے اور دوسرے دن دس ہزار سے ایک لاکھ روپے میں فروخت کر دیتے۔ ابھی صرف پرچیاں فروخت ہو رہی تھیں اور کروڑوں روپے مارکیٹ میں گھوم رہے تھے جو آہستہ آہستہ اربوں روپے بن گئے تھے، شہریوں کے جیب سے اگرچہ ابتدا میں صرف پانچ ہزار نکالے گئے، مگر قرعہ اندازی میں وہ پلاٹ سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ پرچی جس کی قیمت ایک لاکھ ہوچکی تھی اب محض کاغذ کا ٹکڑا تھی مگر اَن داتا ’’ریاض ملک‘‘ اسی پرچی سے اربوں روپے بنا چکے تھے۔
حیرت کی بات ہے کہ اس پرچی کی سٹے بازی کاکسی نے نوٹس نہیں لیا اور پرچیاں فروخت ہوتی رہیں۔ کسی بھی پراجیکٹ کو لاؤنچ کرنے سے پہلے تقریباً اٹھارہ اداروں سے این او سی حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے، مگر ’’ملک ریاض‘‘ جیسے کہنہ مشق نوسر باز کے لیے این او سی حاصل کرنا کبھی کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ایک ٹی وی شو کے دوران انہوں نے ببانگ دہل فر مایا کہ ’’ملک ریاض فائل کے نیچے پہیے لگا دیتا ہے… پھر فائل نہیں رکتی۔‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ فائل تو فائل ملک ریاض نے تو سینیٹ، عدلیہ اور پارلیمنٹ ہائوس سے لے کر وزیر اعظم ہائوس تک میں ’’جادو کے پنجے اور وہیل‘‘ لگا دیے ہیں۔ آصف زرداری کے لیے لاہور میں محل کی تعمیر اور پھر تحفے میں دینا اس کی اعلیٰ ترین مثال ہے، اور پھر ’’یہ دوستی ، ہم نہیں چھوڑیں گے، توڑیں گے دَم مگر، تیرا ساتھ نہ چھوڑیں گے‘‘ یہی معاملہ رہا۔ اب دیکھیں کہ اومنی گروپ اسکینڈل اور ریفرنس میں بھی اَن داتا مطلوب ہیں دو سو ستاون جعلی بینک اکائونٹ کھولے گئے جن کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کی گئی مگر اب تک کسی میں ہمت نہیں کہ ’’گاڈ فادر‘‘ پر ہاتھ ڈال سکے۔ گاڈ فادرکے ہاتھ بالکل صاف ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کے حوالے سے تازہ ترین بے چینی اور مشکل اُس وقت پیدا ہوئی جب ملک اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے دبے دبے الفاظ میں ملک ریاض کی مبینہ دھاندلی اور جعل سازی پر توجہ دلائی اور صرف ایک انگریزی اخبار نے اس حوالے سے اپنی اسٹوری بریک کی۔ اگرچہ متاثرین بہت عرصے سے شور مچا رہے تھے، مگر سب کو یہ ڈر تھا کہ ملک ریاض ان کی پراپرٹی منسوخ کردے گا اور لاکھوں روپے کھڑے کھڑے برباد ہو جائیں گے۔
اب آتے ہیں ملک ریاض کے فراڈ کی جانب کہ عام پاکستانی یہ سن کر ششدر رہ جائے اور دیواروں پر سر مارے کہ کس انوکھے طریقے سے ملک ریاض نے پڑھے لکھے عوام کو بے وقوف بنایا۔
اوّل یہ کہ جو زمین حاصل کی گئی وہ قانونی نہیں تھی۔ نہ ہی وہ کمرشل مقصد کے لیے تھی، مگر ان تیس برسوں میں جو بھی حکومت اقتدار میں رہی سب کے سب ہی ’’اَن داتا‘‘ کے ہاتھوں فیض یاب ہوچکے تھے لہٰذا ’’اسٹیٹ کے اندر ایک اور اسٹیٹ‘‘ وجود میں آگئی۔ جہاں کا کنگ ’’ملک ریاض‘‘ تھا۔ کسی کی جرأت نہیں تھی کہ ملک ریاض کے فراڈ بے نقاب کرے۔ پاکستان کے تمام میڈیا ہائوسز خریدے جاچکے تھے اور اب بھی بھاری رقوم میڈیا مالکان کو پہنچتی ہیں تاکہ بحریہ ٹائون اور ملک ریاض کے خلاف کسی بھی قسم کی خبر نشر نہ کیا جاسکے۔
اپنی مرضی کے جج اور پولیس افسران زمینیں حاصل کرنے کے لیے مامور کروایا گیا۔ مشہور زمانہ پولیس افسر ’’راؤ انوار‘‘ کے ذریعے کاٹھور کے غریب کسانوں کو جبری طور پر بے دخل کر کے ان سے سینکڑوں ایکڑ اراضی ملک ریاض کو دے کر اسے غیر قانونی طور پر ایڈجسٹ کروایا گیا۔
2014 میں سپریم کورٹ نے ان بے ضابطگیوں کا از خود نوٹس لیا اور ایک فیصلہ صادر کیا کہ ملک ریاض بڑے پیمانے پر غیر قانونی اراضی پر پلاٹنگ کرچکے ہیں لہٰذا اب انہیں پابند کیا جاتا ہے کہ وہ مزید کوئی زمین قبضہ نہیں کریں گے اور قبضے کی زمین کے پیسے اصل مالکان کو واپس کریں گے۔ مگر سپریم کورٹ کا یہ حکم کورٹ آرڈر سمیت فائل میں بند ہوگیا۔ عمل درآمد اب تک نہ ہوسکا۔ مگر جن الاٹیوں کے پلاٹ اس زمین پر دکھائے گئے تھے ، ان سب کی الاٹ شدہ زمینیں غیر قانونی ہو چکی تھیں۔ ایک ہی فیصلے نے سینکڑوں الا ٹیز کو آسمان سے زمین پر دے مارا ، مگر ملک ریاض نے اپنے جادو کے وہیل چلائے اور سپریم کورٹ کے احکامات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے وہی غیر قانونی جگہ پر پراجیکٹ اناؤنس کیے۔ بحریہ پیرا ڈائز، بحریہ اسپورٹس سٹی اور بحریہ ویلی پر کھربوں روپے کا لیں دین کیا‘ پرسینٹ کے نام سے فروخت کے گئے آدھے سے زیادہ پلاٹ کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ مگر رقم پوری وصول کی گئی، اس کے باوجود الاٹیز کو کسی بھی قسم کا متبادل پلاٹ نہیں دیا گیا جبکہ ملک ریاض کی جانب سے سپریم کورٹ کو متبادل پلاٹ یا اس کے مساوی رقم دینے کا وعدہ اور یقین دہانی کروائی جاچکی تھی۔ اس کے علاوہ بھی سینکڑوں پلاٹ نہ تو نقشے میں ہیں اور نہ ہی اس بارے میں کوئی وضاحت کی جارہی ہے۔
ریفنڈ کی پالیسی کے مطابق متاثرہ الاٹیوں کو رقم دینی تھی تو ان کو جو چیک دے گئے ان کے چیک بائونس ہوتے رہے اور اب تو بینک کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ریفنڈ کے چیک جمع ہی نہ کیے جائیں۔ چنانچہ سینکڑوں متاثرین دو سال سے چیک لیے گھوم رہے ہیں لیکن کوئی اُن کا پرسان حال نہیں ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ بحریہ ٹائون کی انتظامیہ نے چیک دیتے وقت ایک پرچہ تھمایا جس پر لکھا تھا کہ وہ چیک بائونس ہوجانے کی صورت میں قانونی کارروائی کے مجاز نہیں ہوں گے۔ مزید طرفہ تماشا یہ کہ اب تو الا ٹیز سے پلاٹ کی رقم مانگتے وقت اصل فائل ہی لے لی جاتی ہے کہ کہیں وہ کوئی دعویٰ نہ کر بیٹھے۔ پیسے بھی ہوا میں اُڑے اور پلاٹ کی فائل بھی دھوکے سے ہتھیا لی گئی۔
بحریہ ٹائون کی انتظامیہ کی جانب سے ہزاروں الاٹیز کو درپیش مسائل کے حل کے لیے اور انہیں پریشان کرنے کے خلاف اگر لکھا جائے تو پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ تازہ ترین نقب‘ جو حکومت اور ملک ریاض نے مل کر پاکستان کے خزانے پر لگائی ہے‘ وہ ملاحظہ فرمائیں۔
گزشتہ دنوں ملک ریاض کے جو 190 ملین پونڈ یعنی 38 ارب روپے طویل عرصے سے برطانیہ کے بینکوں میں منجمد تھے‘ برطانوی ایجنسی نے کافی تحقیقات کی لیکن جب ملک ریاض انھیں مطمئن نہ کر پائے کہ یہ منی لانڈرنگ نہیں ہیں تب ایجنسی نے یہ پیسے منجمد کر دیے تھے‘ اسی دوران پاکستان میں ملک ریاض کو سپریم کورٹ نے جرمانہ کیا اور جرمانے کی مد میں ملک ریاض نے 460 ارب روپے واپس کرنے ہیں جسے انہوں نے قسطوں میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔
ملک ریاض کے یہ پیسے یعنی 38 ارب روپے چونکہ منجمد تھے‘ جو واپس نہیں ملنے تھے‘ یوں ملک ریاض نے ڈبل گیم کھیل کر اندرون خانہ شہزاد اکبر اور عمران خان کو راضی کیا۔ کتنے میں راضی کیا یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ مطلب یہ کہ ملک ریاض کا یہ 38 ارب روپے تو ڈوبا ہوا تھا اور اس پیسے کو ہر صورت پاکستان واپس آنا تھا اور سپریم کورٹ کا جرمانہ 460 ارب الگ سے دینا تھا‘ یعنی یہ ٹوٹل رقم 498 ارب روپے بنتی ہے جو پاکستان کو ملنی تھی اور اب صرف وہی 460 ارب روپے پاکستان کو ملیں گے اس میں سے وہ38 ارب روپے بھی شامل ہیں جوکہ برطانیہ میں منجمد ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان جو احتساب احتساب کہتے نہیں تھکتے تھے اس مبینہ فراڈ پر اپنی کابینہ کو خاموش کروا دیتے ہیں کہ’’خبردار اگر کسی نے منہ کھولا۔‘‘
ایک تازہ ترین نو سو ارب روپے کا ہاتھ مارا ہے وہ ہے پلاٹوں کی منسوخی ، 35 فیصد ڈویلپمنٹ ٹیکس اور چارجز کے نام پر جو کہ پہلے ہی وصول کرلیے گئے تھے، مگر اب اضافی ڈویلپمنٹ کے نام پر مانگ لیے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ اپنے پلاٹوں کی پوزیشن لو۔ مطلب پلاٹ نقشے میں ہے ہی نہیں مگر کاغذ پر پوزیشن لے لو اور پلاٹ کی کُل قیمت کا مزید 35 فیصد ادا کرو- اگر رقم جمع نہیں کی گئی تو پلاٹ کینسل کردیا جائے گا-
ان حالات میں جو اپنی رقم ڈوبنے کے خوف میں آکر جبری پوزیشن لیتا بھی ہے تو اسے ایک فارم پر دستخط کرنا ضروری ہے، ان میں شق نمبر ، 2،12،14،17 کا مطلب ہے کہ آپ اپنی زمین کے مالکانہ حقوق بحریہ ٹاؤن کے نام کر رہے ہیں، یہ شقیں انتہائی باریک درج کی گئی ہیں۔
اس وقت بیروں ملک اور اندروں ملک سفید پوش لوگ جس کیفیت اور ذہنی اذیت سے دوچار ہیں اس کا اندازہ لگانا انتہائی دشوار ہے۔ بیرون ِ ملک پاکستانیوں سمیت اندرون ملک لوگوں نے اپنی جمع پونجی اور لگا دی ہے۔ بحریہ ٹائون کی جانب سے الاٹیز کوجبری قبضہ (forcefull possesion) کے حصول کے لیے جوتاریخ دی گئی تھی وہ غیر قانونی، غیر اخلاقی اور بلاجواز ہے جسے فی الفور واپس لیا جانا ضروری ہے۔ بحریہ ٹائون کے کئی پراجیکٹس جن میں بحریہ اسپورٹس سٹی، بحریہ پیراڈائز،Old BTK میں 32(A,B,C,D) اور 33 (A,B,C,D) اور 29 (A,B,C,D)، 23AکےVillas) ولاز (اورvalley کے پراپرٹی جعلی قرعہ اندازی کے نتیجے میں الاٹیزکو فروخت کی گئی جس کی زمین کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا اورالاٹیز کو مجبور کیا ہے کہ وہ آدھی قیمت میں بحریہ ٹائون کو پلاٹ واپس فروخت کردیں۔کئی الاٹیز نے آدھی قیمت پر بحریہ کوڈیلرز کے ذریعے فروخت بھی کردیے ہیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ ان میں الاٹیز کی بہت بڑی تعدادایسی ہے جنہوں نے عمر بھر کی جمع پونچی بحریہ ٹائون میں سرمایہ کاری کی نیت سے جمع کرائی ہوئی ہے جو کہ اب اپنے سرمائے کو ڈوبتا دیکھ کر خود سوزی جیسا انتہائی قدم اٹھانے کے قریب ہیں۔ الاٹیز کی بڑی تعداد بشمول خواتین جب بحریہ ٹائون کے دفتر میں حاضر ہوتے ہیں تو وہاں بحریہ ٹائون کا اسٹاف انہیں انتہائی بداخلاقی، بدتمیزی اور ہتک آمیز رویے کے ذریعے ہراساں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ تمام بحریہ ٹائون کی اسکیمیں اورپریسنٹ جن کی زمین کا وجود ہی نہیں ہے جس کے باعث پلاٹس اور ولاز منسوخ ہوچکے ہیں ان کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی روشنی میں متبادل پلاٹ بحریہ ٹائون کے پرانے نقشے کے مطابق Developed جگہ پر فراہم کیے جانے چاہئیں اور اس حوالے سے تاریخ کا تعین کیا جائے۔ وہ الاٹیز جنہوںنے جمع شدہ رقم کی واپسی کے لیے اپنی پراپرٹی کی فائل بحریہ ٹائون کے حوالے کردی ہے، انہیں فی الفور رقم ادا کی جائے جبکہ جن الاٹیز کے چیک بائونس ہوئے ہیں ا ن کو کیش (نقد) رقم ملنی چاہیے۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو رقم کون واپس دلوائے گا ؟
ہونا تو یہ چاہیے کہ بیرون ملک رہائش پذیر الاٹیز جنہوں نے ڈالر میں ادائیگی کرکے پراپرٹی خریدی ہے ان کورقم کی واپسی ڈالر میں ہی کی جائے۔ بحریہ ٹائون کے تمام الاٹیز کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق مالکانہ حقوق رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے دیے جائیں تاکہ بحریہ ٹائون ازخود کسی پراپرٹی کو منسوخ اور اس کی جگہ تبدیل کرنے سے قاصرہو۔ مگر جس ملک کی عدلیہ، میڈیا، پارلیمنٹ اور فوج تک میں جادو کا وہیل گھوم چکا ہو وہاں کس کی شنوائی ہوگی؟ سپریم کورٹ کو تو پوچھنا چاہیے تھا کہ ملک ریاض صاحب! فوجی ادارے ’’بحریہ‘‘ کا نام استعمال کرنے سے پہلے کس ادارے سے اجازت لی تھی؟ اور کیا فوج کو یہ اختیار تھا کہ اس کا نام بیچا جائے؟ یہاں نام تو کیا پورے کا پورا دارہ ملک ریاض کی گود میں ہے۔

حصہ