دوست ہو تو ایسی

476

عشرت زاہد
افف۔۔۔ یہ شیما کی بچی۔ پھر فرسٹ آ گئی۔
میں نے بھی تو اتنی محنت کی تھی۔ اتنی اچھی تیاری کی تھی۔ پھر بھی صرف پانچ نمبر کی کمی سے میں تھرڈ آئی ہوں۔ اب کیا ہوسکتا ہے ! یا اللہ اگلی بار میں فرسٹ آنا چاہتی ہوں۔ لیکن ،مجھے پتا ہے شاید یہ ممکن نہ ہوسکے۔ شیما تو ہے ہی ذہین لڑکی۔ٹیچر کوء سوال پوچھتی ہیں تو فورا” پورا جواب دے دیتی ہے۔ مجھے تو ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ جب ٹیچر کچھ سمجھاتی ہیں تو اس کو سمجھ میں فورا” آ جاتا ہے۔ تبھی تو وہ اس سے کہتی ہیں، کہ “شیما، آپ اپنی زبان میں سمجھا دیں” اس نے ٹیچر کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
“فرح، یہ کیا ہو رہا ہے؟” امی بہت دیر سے فرح کو دیکھ رہی تھیں۔ کیا سوچ رہی ہو بیٹا؟”
جی امی، کچھ نہیں وہ میں فرح کے بارے میں سوچ رہی تھی۔اتنی محنت کی تھی اس بار میں نے۔ پھر بھی وہی فرسٹ آگئی”
فرح روہانسی ہو رہی تھی۔
“ارے بھئی اس میں ایسی رونی صورت بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ ابھی تو فائنل سیمسٹر باقی ہے۔ اس میں زیادہ محنت کر لینا۔
“نہیں امی، فرح بہت ذہین ہے اور عقلمند بھی۔ساری ٹیچرز کی بات جلدی سمجھ جاتی ہے۔ اور میتھس کے سوال تو سب لڑکیاں اسی سے پوچھ رہی ہوتی ہیں۔ وہ بھی خوشی سے سب کو بتا رہی ہوتی ہے۔ بڑی ہمدرد بنی پھرتی ہے۔ ہونہہ۔۔”
“فراح، میری اچھی بیٹی، یہ کس انداز میں بات کر رہی ہوں؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم کو شیما کے اچھے نمبر آنے کی کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ بلکہ برا لگ رہا ہے۔ یہ تو بری بات ہے بیٹا۔ دوسروں کی کامیابی پر خوش ہوکر، ان کو آگے بڑھ کر مبارکباد دینا چاہیے۔ میں اب تک شیما سے ملی نہیں ہوں، مگر مجھے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ سچ مچ بہت پیاری لڑکی ہوگی۔ ذہین بھی اور خوش اخلاق بھی۔ تبھی تو وہ خود بھی محنت کرتی ہے اور دوسروں کے بھی کام آتی ہے۔ میرے خیال سے ساری ٹیچرز بھی اس سے بہت خوش ہونگی۔ ہے نا؟”
“جی امی، سب ہی اس کو بہت پیار کرتے ہیں۔”
امی نے فرح کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور کہا۔ “میری بیٹی، اگر کسی میں کوئی خوبی، کوئی اچھائی دیکھو تو اس پر خوش بھی ہونا سیکھو۔ اور ویسا ہی بننے کی یا وہ خوبی اپنانے کی کوشش کرو۔ ٹھیک ہے نا؟ ارے ہاں تم نے اپنی رپورٹ کارڈ تو مجھے دکھائی ہی نہیں۔ بتاو تو صحیح، کیسے نمبر آئے ہیں؟” امی نے رپورٹ کارڈ ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا۔ “ارے واہ میری بیٹی تو تھرڈ پوزیشن لائی ہے، ماشاللہ۔ اچھا۔۔۔۔ تو اس لئے فرح کی بات ہورہی ہے۔ اتنے اچھے نمبر تو ہیں آپ کے بیٹا؟ کوئی بات نہیں، اگر اول نہیں آئی تو۔ اب فائنل سیمسٹر میں خوب محنت کرنا۔ انشاء￿ اللہ تمہارے بہت اچھے نمبر آئیں گے۔ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ میں بھی تمہاری مدد کر دیا کرونگی۔ روزانہ جو کام سکول میں ہوگا، اسی کو ہم گھر میں دہرا لیا کریں گے۔ اور جو چیز آپ کے سمجھ میں نہ آئے وہ مجھ سے پوچھ لینا۔ چلو ، بہت باتیں ہو گئیں۔ اٹھو اور یونیفارم بدل کر مونہہ ہاتھ دھولو۔ جب تک میں کھانا لگا دیتی ہوں”۔
امی نے فرح کو اچھی طرح سمجھا دیا تھا۔ مگر فراح کے دماغ میں بس ایک ہی بات تھی کہ، پڑھائی میں تو شیما سے آگے نہیں جا سکتی۔ اس لیے کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ شیما کی توجہ پڑھائی سے کم ہوجائے۔ اس نے الٹی بات سوچنا شروع کر دی تھی۔
اب وہ اپنی اچھی اچھی کہانی کی کتابیں شیما کو پڑھنے کے لئے دیتی۔ تاکہ وہ پڑھائی کم کرسکے کے مگر شیما کہانی پڑھ کر اس کے اقوال زریں اور سبق آموز باتیں ایک کاغز پر لکھ کر کہانی واپس کر دیتی۔ کہ میں نے اس کہانی سے یہ سبق لیا ہے۔ فرح حیران ہوجاتی کہ اس نے تو بس سرسری طور پر پڑھ کر رکھ دی تھی۔ اس طرح توجہ سے پڑھنے کا خیال مجھے کیوں نہیں آیا؟
کبھی ٹی وی پر آنے والے کسی پروگرام کی خوب تعریف کرتی اور فرح کو دلچسپی دلانے کی کوشش کرتی۔ تاکہ پڑھائی سے اس کی توجہ ہٹ سکے۔ یہ سب کرنے میں اور سوچنے کی وجہ سے فرح کی اپنی توجہ پڑھائی سے ہٹ چکی تھی۔ جب ماہانہ ٹیسٹ ہوئے تو شیما ہمیشہ کی طرح اول آئی تھی اور فرح کے نمبر بہت کم آئے تھے۔ امی بھی بہت پریشان ہو گئی تھیں۔
اس دن شام میں امی اس کے کمرے میں آئی تھیں۔ “بیٹا کیا بات ہے! ہم دونوں نے مل کر اتنی اچھی تیاری کی تھی۔ پھر بھی آپ کے اتنے کم نمبر آئے ہیں۔کیا وجہ ہے؟”
” نہیں امی، ایسی کوئی خاص وجہ نہیں۔ بس میں یہی سوچتی رہی کہ، شیما کے نمبر مجھ سے کم کس طرح ہو سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں اپنے تیاری بھی ٹھیک سے نہیں کر سکی”
“بہت بری بات ہے۔ بیٹا ، آپ کو صرف اپنی پڑھائی پر اچھی طرح سے توجہ دینی چاہئے۔ اپنی تمام سہیلیوں کے لیے اچھی بات سوچنی چاہیے۔ دعا بھی کرنی چاہئے۔ اس کو خیرخواہی کہتے ہیں۔ اب صرف اور صرف توجہ اور محنت سے امتحانات کی تیاری کیجئے تاکہ فائنل میں یعنی سالانہ امتحان بہت اچھے نمبر آجائیں۔”
ایک ہفتے بعد سکول میں سپورٹس ویک میں کھیلوں کے مقابلے ہورہے تھے۔ بہت مزہ آرہا تھا۔ کبھی کوئی لڑکی جیت جاتی اور کبھی کسی کے حصے میں ہار آتی۔ اب تک شیما ایک گیم میں اور فرح بھی ایک گیم میں اول آ چکی تھی۔ آج آخری دن تھا۔ اور سو میٹر کی دوڑ کا مقابلہ ہو رہا تھا۔ اس میں دونوں نے حصہ لیا ہوا تھا۔ فرح کی بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی بھی طرح میں یہ مقابلہ جیت لوں۔ تو میری دو ٹرافی ہوجائیگی اور شیما کی ایک۔ تو پھر میں شیما سے آگے نکل جاؤں گی۔
کیونکہ یہ آخری ریس تھی۔ اس کے بعد سپورٹس ویک ختم ہونے والا تھا۔ کل ملا کر آٹھ لڑکیوں نے اس میں حصہ لیا تھا۔ مقابلہ بس شروع ہونے والا تھا سب لڑکیوں نے اپنی پوزیشن سنبھال لی تھی۔تمام ٹیچرز اور سٹوڈنٹ بہت دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ پھر جیسے ہی ریس شروع ہوئی تھوڑی دور جاکر فرح نے کنکھیوں سے دیکھا تو شیما آگے نکل رہی تھی۔ اس نے مزید تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا۔ مگر تھوڑی دور جا کر ہی اس کا پیر اچانک مڑ گیا تھا اور وہ بری طرح گر پڑی تھی۔ شاید اس کے جوتوں کی لیس کھل گء تھی۔ جس میں اسکا پیر پھنس گیا تھا۔ اس کے گھٹنے اور ماتھے پر چوٹ آئی تھی اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ پھر اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اسے سہارا دے کر اٹھا رہا ہے۔ اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں، تو دیکھا کہ وہ شیما تھی۔ فرح کو یقین نہیں آیا۔ کیونکہ اس نے خود شیما کو آگے نکلتے ہوئے دیکھا تھا۔
” تم۔۔۔۔۔ تم واپس آگئی؟ ”
“ہاں تم گر جو گئی تھیں۔ تم کو تکلیف میں چھوڑ کر میں مقابلہ کیسے جاری رکھ سکتی تھی؟ تمہیں زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟”
تب تک ساری ٹیچرز اور بچے ان کے گرد جمع ہو چکے تھے۔ فرح کو سہارا دے کر آفس تک لے جایا گیا۔ وہاں اس کے زخم صاف کرکے گھٹنوں اور ماتھے پر پٹی باندھی گئی۔ شیما اس کے ساتھ ساتھ ہی تھی۔ بالکل ایک بہن کی طرح فکر مند اور حوصلہ دینے والی، محبت کرنے والی بہن۔
فرح بہت شرمندہ ہو رہی تھی اس وقت شیما سے فرح نے کہا، “شیما تم واقعی بہت پیاری اور اچھی دوست ہو۔ بہت شکریہ تمہارا۔ اللہ تعالی تمہیں بہترین جزا دے۔ لیکن مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میری وجہ سے تمہارا مقابلہ مکمل نہیں ہو سکا۔”
” کوئی بات نہیں میری پیاری دوست۔ اللہ کرے تمہاری چوٹ جلدی ٹھیک ہو جائے۔ آمین”
اور فراح دل ہی دل میں اپنے آپ سے عہد کر رہی تھی کہ وہ آئندہ کبھی شیما یا کسی کے بارے میں برا نہیں سوچے گی اور سب کے لئے ایک اچھی ساتھی بنے گی۔

حصہ