دانش کا سوشل میڈیا

1511

یہ دانش کون ہے؟ کہاں سے آیا؟ کہاں چلا گیا؟ کون لایا؟ کیوں لایا؟ بات اب اس سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ مہنگائی، بے امنی، بے روزگاری، بجلی، گیس، پیٹرول،کرپشن،کشمیر، فلسطین جیسے ’مصنوعی‘ مسائل میں گھری قوم کے لیے دانش اور مہوش ہی موضوع بن گئے۔ دنیا کے حالات ایسے چل رہے ہیں کہ مستقبل کیا ہوگا! مشرق وسطیٰ میں جنگ کا منظرنامہ ہے، یورپ گلوبل وارمنگ سے پریشان ہے، امریکہ جنگ کے لیے پر تول رہا ہے… تو سب الگ الگ مسائل سے دوچار ہیں، لیکن پورا پاکستان اس بات کے لیے پریشان ہے کہ مہوش کا اب کیا ہوگا؟ دانش کی شادی ہانیہ سے کیوں نہ ہوئی؟ ویسے یہ تو کوئی تین ماہ سے کسی نہ کسی صورت چل ہی رہا تھا۔ ’دو ٹکے‘ سے بات شروع ہوئی اور ’دانش‘ کی موت پر الیکٹرانک میڈیا کی ’بریکنگ نیوز‘ تک گئی۔ اس بریکنگ نیوز کا اسکرین شاٹ سوشل میڈیا پر چلتا رہا۔ یہ ایسا موضوع تھا کہ دانش کے نام کا تو کوئی ٹرینڈ نہیں بنا لیکن ٹرینڈ جتنا ہی ڈسکس ہوتا رہا ( ڈرامے کے نام سے ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنا تھا)۔ میں تو کچھ دوستوں کے ساتھ اس ’تاریخی‘ قسط کی رات سفر پر تھا اور کوئی بارہ کے قریب شرکائے سفر میں شاید تین لوگ بھی ایسے نہیں تھے جنہوں نے متذکرہ ’دانش‘ کو تفصیل سے دیکھا ہو۔ مطلب اُس ڈرامے کی کوئی دو تین اقساط بھی دیکھی ہوں، لیکن اہم بات یہ ہے کہ سفری گفتگو میں ایک بڑا حصہ ’دانش‘ ہی سے متعلق گزرا۔ اس کی وجہ سوشل میڈیا ہی تھا، سب اپنے اپنے اسمارٹ فون جب جب کھولتے اور اُن کی والز پر آنے والی پوسٹوں میں تواتر سے ’دانش‘ کی موت کا چرچا ہوتا تو وہ ہنستے مسکراتے ذکر چھیڑ ہی دیتے۔ بات ہورہی ہے سال 2019ء کی سب سے مقبول ڈراما سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کی۔ ویسے پاکستانی ڈرامے ہمیشہ سے مقبول ہی رہے ہیں۔ اگر 1980ء کی دہائی میں بھی سوشل میڈیا کا اسی طرح استعمال ہوتا تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ سال میں ایک نہیں ہر ہفتے کسی نہ کسی پاکستانی ڈرامے، اس کے کردار، اس کی کہانی اِسی طرح ڈسکس ہوتی۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ نہ ہی کوئی نئی کہانی تھی، نہ ہی کوئی انوکھی کہانی تھی۔ معروف مصنف مسعودمفتی کے ناول ’کھلونے‘ سے ماخوذ ڈراما ’جنون‘ میں بھی اسی سے ملتی جلتی لالچی عورت کی کہانی پیش کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھی عورت کی لالچ پر مبنی کئی ڈرامے نشر ہوچکے ہیں۔ ویسے دانش، مہوش، رومی کے علاوہ اِن کرداروں کے خالق اور ڈرامے کے مصنف ’خلیل الرحمن قمر‘ بھی ڈسکس ہوئے، اور کون سا چینل، کون سا اخبار تھا جو خلیل الرحمن قمر کے انٹرویوز سے بھرا ہوا نہیں تھا! اور تو اور یو ٹیوب چینل والے بھی اسی صف میں کھڑے ہوئے تھے۔ انہیں بھی تو سبسکرائبر اور ویور چاہیے تھے۔ ویسے ان سب میں جی این این والوں کا انٹرویو کلپ خاصا مشہور ہوا جس میں خلیل الرحمن قمر نے اس ڈرامے کو ’فیمنسٹ‘ تحریک والوں کے منہ پر تھپڑ اور کرارا جواب قرار دیا۔ ڈرامے میں دانش کی اچانک موت کو لوگوں نے مصنف کے ایک اور مقبول ڈرامے ’پیارے افضل‘ کے ساتھ ملا دیا کہ اُس ڈرامے میں بھی ہیرو کو مرنا پڑا۔ اسی طرح سوشل میڈیا پر قوم کے غم کو دیکھتے ہوئے کچھ سنجیدہ لوگوں نے یاد دلایا کہ اور بھی بڑے بڑے غم ہیں زمانے میں۔ حالیہ عرصے میں جنسی درندگی کا شکار ہوکر قتل ہوجانے والی معصوم بچیوں کی تصاویر، یا کسی نے ساہیوال سانحے کے بچوں کی تصویرلگا کر اس شعر کے ساتھ یادداشت بحال کروائی:

میرے قتل سے ایک پتّا بھی نہیں گِرا
اور ’دانش‘ کی موت سے قوم ہِل گئی

دانش کی موت پر روتے ہوئے ناظرین کی ایسی ایسی ویڈیوز شیئر ہوئیں کہ الفاظ نہیں وضاحت کرنے کے لیے۔کچھ پوسٹیں پیش خدمت ہیں:
ڈاکٹر مریم اس ڈرامے کی مقبولیت پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’اس ڈرامے میں سوال مرد کی وفا اور عورت کی بے وفائی پر اٹھایا گیا جس نے عوام کی جذباتی اور ازدواجی زندگی کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔ مقبولیت کی دوسری وجہ مکالمے ہیں جن پر کہانی کی بنیاد کھڑی تھی: ’’محبت میں طلاق نہیں ہوتی‘‘، ’’جب عورت کے پاس دوسرے مرد کا آپشن ہو تو شوہر کے پاس بچتا کچھ بھی نہیں‘‘، اور سپر ہٹ مکالمے کے چار لفظ ’’دو ٹکے کی عورت‘‘ نے تو طوفان ہی برپا کردیا۔ اصل مسئلہ شراکت تھا جسے مصنف نے بیان کرتے ہوئے کچھ ناانصافی سے کام لیا جو بظاہر کسی کو نظر نہیں آئی۔ مہوش کا دوسرے مرد کے پاس جانا اور نکاح کے بغیر رہنا، یہ وہ پوائنٹ تھا جسے مصنف نے اتنی اہمیت نہیں دی جتنی اس کی ضرورت تھی۔ زیادہ فوکس رہا ہی وفا پر تھا، جسے جتانا صنفی سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔ مہوش کے بار بار معافی مانگنے سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ دوبارہ دانش کی زندگی میں آنا چاہتی تھی؟ اگر ایسا تھا تو کیوں اور کیسے؟ خدا، شرک اور کفر جیسے الفاظ کا بے دریغ استعمال کہانی کو اس کے اصل سے بہت دور لے گیا۔ گویا دانش قسم کے مردوں کے لیے بے وفائی ہی بڑی چیز ہے، اخلاقیات نہیں؟ بس اس ایک نقطے نے ڈرامے کو تھوڑا پٹری سے اتار دیا، ورنہ قمر صاحب ایک بہترین کہانی بیان کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، جس کا سہرا ان کی مکالمہ نگاری کے سر ہے۔‘‘
’’دانش کی موت سے پیدا ہونے والا خلاء کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔ دانش کی موت ایک بھیانک خواب ہے۔ دانش کے انتقال سے ملک میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ دانش کی موت سے کشمیر کاز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دانش کی موت نے اسے امر کردیا۔ دانش ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ تعزیتی کتاب میں تحریر کیے گئے کچھ تاثرات‘‘۔ کئی لوگ تو دوستوں کی تصویریں لگا کر یہ کیپشن ڈالتے رہے کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دانش کی کہانی اور موت کا منظر روزِ اول سے نہیں دیکھا۔‘‘ اسی طرح مشیر اطلاعات کی تصویر کے ساتھ بنائی گئی ایک میم پر یہ ٹیکسٹ چسپاں تھا کہ ’’دیکھا، سابقہ حکومتوں نے دانش کو مصنوعی طور پر زندہ رکھا ہوا تھا۔ فردوس عاشق اعوان‘‘۔ انارکلی اور سلیم بھی دیگر مواقع کی طرح پیچھے نہ رہے اور خوب میمز بنیں۔ ایک تصویر میں موٹر سائیکل پر لوگ اسلحہ کے ساتھ جارہے ہیں، اس پر یہ کیپشن چسپاں کردیا گیا کہ ’’دانش کے چاہنے والے اسلحہ لے کر خلیل الرحمن قمر کے گھر کی طرف روانہ‘‘۔ سابق امریکی صدر بارک اوباما کی ایک حیرت زدہ میم کے ساتھ یہ کیپشن لگایا گیا کہ ’’ایسے کون مارتا ہے؟‘‘ ڈرامے کے آخری بلکہ دانش کی موت کے اسپتال کے مناظر پر بھی لوگ یوں تبصرہ کرتے رہے کہ ’’دانش مر گیا، اب عوام ڈاکٹروں کو الزام نہ دینے لگ جائیں کہ ہمارے ڈاکٹر نااہل ہیں۔ حالانکہ وہ نیبولائزر کو آکسیجن کہہ کہہ کر لگوانے کی کوشش کرتے رہے‘‘۔ ڈاکٹرضمیر صاحب کا کہنا ہے ’’دانش کو نیپال کے جنگلوں میں لے جاؤ، صبح زندہ ہوکر واپس آجائے گا‘‘۔ اسی طرح سیاسی پوسٹیں بھی خوب بنائی گئیں: ’’دانش کی موت پر معزز عدالتِ عظمیٰ و عالیہ کا ازخود نوٹس۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ جوان جہان آدمی ہلکے سے ہارٹ اٹیک سے مر جائے! جبکہ نوازشریف دل کی 90 فیصد بند شریانوں، 2 ہزار پلیٹ لیٹس اور روزانہ صبح شام انجائنا اٹیک پر بھی زندہ سلامت ہوا خوری کررہاہے؟‘‘ ہمایوں سعید کی ڈرامے میں ہونے والی موت کے منظر کی تصویر کے ساتھ سب سے زیادہ یہ کیپشن شیئر ہوا ’’دانش کو وزیراعظم پاکستان کی بات یاد آگئی تھی کہ سکون صرف قبر میں ہے‘‘۔ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز دیکھ کر معروف صحافی و تجزیہ کار ناصر بیگ بھی لکھنے پر مجبور ہوگئے کہ ’’یہاں تو دانش مر گئی، لوگ کسی بے وقوف دانش کو رو رہے ہیں۔‘‘
ڈرامے کی آخری قسط کے ایشو کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے سینماؤں میں نمائش پلان کی گئی۔ خوب شور مچا کہ ڈیڑھ کروڑ روپے کی ٹکٹیں فروخت ہوگئیں۔ اس پر بھی خوب تبصرے ہوئے ’’ڈرامے کی قسط کے لیے 800 کا ٹکٹ خریدنے والو! آٹا 700 کا ہوگیا، اس پر بھی رو لو‘‘۔ نوید انور لکھتے ہیں کہ ’’صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے: میرے پاس تم ہو کی آسمان کو چھوتی مقبولیت اور آخری قسط پر عوام الناس کا ردعمل پاکستانی قوم کی حد سے بڑھی جذباتیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ جذباتیت واقعی پریشان کردینے والی ہے، لیکن اس جذباتیت کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں جو امید کے دَرکھولتے ہیں۔ یہی قوم ہے جس کے بارے میں مغربی مفکر نے کہا تھا کہ یہ قوم شدید امید اور ناامیدی کے درمیان جیتی ہے، اورایمان تو رہتا ہی امید اور ناامیدی کے درمیان ہے۔‘‘
ڈاکٹر فیاض عالم لکھتے ہیں کہ ’’ڈراما سیریز ’میرے پاس تم ہو‘ کی ریکارڈ ساز مقبولیت میں بڑے اداکار، مضبوط اسکرپٹ، عجیب موضوع، اور مجھے لگتا ہے کہ اس میں یوٹیوب اور سوشل میڈیا کا بڑا کردار ہے۔
مصنف کا اسلوب لوگوں کو پسند ہے اور اس سے پہلے بھی ان کے لکھے ہوئے ڈرامے شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شادی شدہ خواتین کا بہت ہی کم تعداد (ناقابلِ ذکر) میں آشنا کے ساتھ فرار ہوجانا بلکہ شوہر کو قتل کروا دینا بھی اَن سنی بات نہیں ہے۔ چھوٹے اخبارات میں ایسی خبریں نمایاں انداز میں شائع ہوتی ہیں۔ معاشرہ جس رخ پر جارہا ہے اس کا انجام وہی ہے جسے مغرب برسوں سے بھگت رہا ہے، لیکن الحمدللہ ہمارے یہاں خاندان کا ادارہ اب بھی بہت مضبوط ہے اور ان شاء اللہ مضبوط رہے گا۔ میڈیا اور علمائے کرام لوگوں کو بتاسکتے ہیں کہ اسلام میں طلاق دینے یا خلع حاصل کرنے کا شرعی طریقہ کیا ہے۔ طلاق عام طور پر ناراضی یا غصے کی حالت میں ہی دی جاتی ہے، لیکن قرآن، سنت، اجماعِ صحابہ اور فقہائے اسلام نے اس کی تمام تر تفصیلات کو محفوظ کیا ہوا ہے۔ طلاق یافتہ عورت شوہر کے پاس واپس نہیں جاسکتی سوائے ایک طریقے کے، جس کا عام طور پر بہت ہی کم امکان ہوتا ہے۔‘‘
ڈرامے کی مقبولیت کے پیچھے ایک ہاتھ موم بتی کلچر کا بھی ہے۔ ’می ٹو‘کا راگ الاپنے والی آزاد خیال عورتوں کے لیے لفظ ’ریلیشن شپ‘ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ انھیں بغیر نکاح کے غیر مرد کے ساتھ رہنے پر اعتراض نہیں تھا، بلکہ عورت کو ’دو ٹکے‘ میں تولنے پر شور مچایا گیا۔ ورنہ ہم ٹی وی پر جاری ڈراما ’’محبوب آپ کے قدموں میں‘‘ اس سے زیادہ زہر اگل رہا ہے جس میں ایک بھابھی اپنے دیور کو پانے کے لیے جادو ٹونے سیکھ رہی ہے۔ نہ ہی پیمرا، نہ ہی دیگر ناظرین، نہ ہی سیاسی، سماجی، مذہبی طبقات کی جانب سے آواز بلند ہوئی۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ مقبولیت کے دائرے میں ’ خلیل الرحمن‘ کا ڈراما کہیں اوپر تھا، لیکن مذکورہ ڈرامے کی آخری قسط کو بھی کوئی 5لاکھ ویوز مل چکے ہیں۔ اس تناظر میں ڈاکٹر مریم لکھتی ہیں کہ ’’ہمارے معاشرے میں جہاں نکاح ایک مقدس بندھن ہے اور دو خاندانوں کے ایک ہونے کی علامت بھی ہے، اسے کھوکھلا کرنے کے لیے میڈیا کی رواں پالیسی بہت کمال ہے۔ ڈیٹ پر جانا، غیر مردوں سے تعلقات استوار رکھنا اور طلاق طلاق کھیلنا، کم و بیش ہر ڈرامے میں موجود ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جینے پر مجبور ہیں جہاں ہمارے سامنے حلال اور حرام دونوں چیزیں رکھ کر حلال چیز کو کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا ہے۔‘‘
بہرحال یہ تو زیادہ ہوگیا۔ اب کیا کریں، ذکر ہی اتنا ہوا تھا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر حوریں چھائی رہیں۔ جی ہاں، وہ حوریں جو ہمارے محترم وزیراعظم صاحب کو ایک خاص انجیکشن لگنے کے بعد دکھائی دیں۔ اس پر تو عوام نے خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ ملک کا وزیراعظم بات کررہا ہو تو اس کو معمولی نہیں لیا جاسکتا۔ بھارتی میڈیا نے بھی خوب چسکے لیے۔ سوشل میڈیا پر ایسی ایسی تخلیقی پوسٹیں بنائی گئیں کہ کیاں لکھیں۔ ’’عوام ایسے انجیکشن سے اجتناب کریں جس کے لگنے کے بعد حور نظر آتی ہو۔ ادارہ انسداد منشیات‘‘۔ گو کہ اس دوران حکومتی حلقوں کی جانب سے حکومتی اقدامات پر مبنی ہیش ٹیگ ٹرینڈ بنتے رہے، لیکن حور ایشو دب نہیںسکا۔ ’’عمران خان نے ایک ٹیکے سے غامدی صاحب کا تصورِ حور اُڑا کر رکھ دیا۔ ایسا ہے میرا کپتان‘‘۔ اسی طرح حکومتی مؤقف کو یوں بیان کیا گیا ’’آج کے بعد پاکستان جنت لگے گا۔ جی ہاں حور مارکہ انجیکشن۔ جن کو حکومت کے کام نظر نہیں آرہے، ان کو حوروں والے ٹیکے لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پھردوس عاشق‘‘۔ اِسی طرح وزیراعظم کی تقریر کے بعد کی منظرکشی یوں کی گئی ’’یہ حوریں دکھانے والا انجیکشن کہاں ملتا اور لگتا ہے؟ میڈیکل اسٹورز پر تو رش لگا ہے وزیراعظم کی تقریر کے بعد سے۔‘‘
اس کے علاوہ چین میں تیزی سے پھیلتا اور کوئی 15ممالک تک پھیل جانے والا ’کرونا وائرس‘ بھی خوب موضوع بحث رہا۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کی ویڈیوز خاصی وائرل رہیں جو وہاں سے نکلنے کے لیے بے تاب اور کسی قسم کی مدد نہ ملنے پر پریشان ہوکر سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے تھے۔ پشتون رہنما منظور پشتین کی گرفتاری بھی خاصا موضوع بنی، اور جہاں ایک جانب حکومت و پاک فوج پر الزامات ڈالنے کی کوشش کی گئی، وہیں جواباً حکومت اور پاک فوج کے دفاع میں بھی بھرپور جواب دیا گیا۔

٭ آخری منظر پر ایک ناظر لکھتے ہیں کہ ’’ہارٹ اٹیک کی اِس سے اچھی ایکٹنگ تو نوازشریف کرلیتا۔‘‘
٭ مرحوم نے پسماندگان میں ایک انتہائی ’’چلتر‘‘ بیٹا، ایک عدد بدکردار سابقہ بیوی اور ایک آدھے دماغ کی محبوبہ کم منگیتر چھوڑی ہے۔
٭ وکلا ہڑتال: دانش کی غیر منطقی وفات پر پاکستان بھر کے وکلا احتجاجاً عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے۔
٭ دانش کی موت کا فیصلہ ہماری حکومت میں ہوچکا تھا، اس کا واضح ثبوت ہماری حکومت کا ’دانش اسکول‘ بنانا تھا۔ چین دا ارسطو
٭ جنہوں نے ڈیڑھ کروڑ کے ٹکٹ لے کر بڑی اسکرین پر ڈراما دیکھا وہ تو چالیسویں تک سوگ منائیں گے۔
٭ یہ تو دیکھیں کہ، بہت سال بعد قوم ایک پیج پر تھی اور سب ایک ہی ڈراما دیکھ رہے تھے، یہ بھی ایک تبدیلی ہے۔
٭ ملک ریاض کا دانش کے لواحقین کو بحریہ ٹاؤن میں پلاٹ دینے کا اعلان۔ عمران خان کی رومی کے آئندہ کے تعلیمی اخراجات سرکاری فنڈ سے ادا کرنے کی ہدایت۔ عثمان بزدار کا مہوش کے گھر آٹے کے تھیلے بھجوانے کا اعلان۔
٭ دانش کی نماز جنازہ جناح گراؤنڈ عزیز آباد میں ادا کی جائے گی، کل تاجر برادری اپنا کاروبار بند رکھے گی۔ تدفین شہدا قبرستان میں ہوگی، ذرائع ’میرے پاس تم ہو‘۔
٭ دل کے مریض کو اگر نیبولائزر لگائیں گے تو اس کو تو مرنا ہے ہی۔
٭ دانش کی موت۔ سندھ حکومت نے اسپتال کے ایم ایس کو معطل کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا۔ میئر کراچی اسپتال پہنچ گئے۔ مہوش سے دلی ہمدردی کا اظہار۔ کے ایم سی میں نوکری کی پیشکش۔
٭ اگر دانش کا سوگ ختم ہوگیا ہو تو میرے لیے بھی رو لو۔ پچاس کا لوڈ غلط نمبر پہ چلا گیا ہے۔

حصہ