اسلام کو پھر معرکہ روح و بدن پیش

1211

قدسیہ ملک
ایک عمومی رجحان اب یہ بن چکا ہے کہ پاکستان میں اب اچھا لکھنا کوئی بڑی بات نہیں۔ این جی اوز اور مشنری گروپوں کے ہم خیال ڈرامے لکھنا ہی دراصل کارکردگی گردانا جانے لگا ہے۔کیونکہ اس میں آپ کو ایک اسکرپٹ کے بآسانی لاکھوں روپے مل جاتے ہیں۔
شعیب منصور کی ایک فلم ’’خدا کے لیے‘‘ سے ہم سب واقف ہیں۔ محب وطن پاکستانی پاکستان کی روایت، ثقافت اور بچوں پر زیادہ لکھتے ہیں۔ جب کہ شعیب منصور نے اپنی ابتدا میں ایسا ہی لکھا۔ لیکن اب وہ زیادہ تر این جی اوز کے کہنے پر لکھتے ہیں۔
اس کا واضح ثبوت فلم ’’خدا کے لیے‘‘ ہے، اس میں جس طرح فیملی پلاننگ اور موسیقی کو عین جائز قرار دینے کے ایجنڈے پر انہوں نے کام کیا، لگتا ایسا ہے کہ پاکستان میں رہنے والے ایک عام آدمی کو ان دو مسائل کے سوا تیسرا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ انہوں نے جس خوبصورتی سے زیادہ بچے پیدا کرنا غربت میں اضافے، اور زیادہ بچوں کی پیدائش میں خواجہ سرائوں کی پیدائش کو آپس میں جوڑا تھا، واقعی وہ قابل ستائش تھا۔ ہوسکتا ہے اس فلم کی تحریر کے لیے انہیں بہت بھاری رقم کی پیشکش کی گئی ہو، جس سے وہ انکار نہ کرسکے ہوں۔
اب آتے ہیں پاکستانی ڈراموں کی جانب۔ ایک زمانے میں ڈراما ’’انکار‘‘ پاکستان اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے نشر کیا گیا تھا۔ اس ڈرامے میں اور بھی بہت سی این جی اوز کی خدمات اور سرمایہ شامل تھا۔ یہ ڈراما بہت مشہور ہوا تھا۔ اس میں جس طرح مسائل کی نشاندہی کی گئی تھی، وہ قابل ستائش تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں مرد و زن کا تفریح کے نام پر سماجی انداز، میل ملاپ، شراب و ہیروئن کی مخلوط محفلیں، عورتوں کو اس زمانے میں انتہائی بے حجابانہ و چست لباس پہنے دکھایا گیا تھا، ساتھ ہی ساتھ اس میں کالجوٖں اور یونیورسٹیوں کی لڑکیوں کی لڑکوں سے دوستیاں، آزادانہ فحاشی اور شادی سے پہلے بننے والی مائوں کا کردار بھی بڑی ہی مہارت کے ساتھ کھلے اور چھپے انداز میں دکھایا گیا تھا۔ لیکن اُس وقت یہ سب ایک مخصوص طبقے کو نشانہ بناتے ہوئے ایک نافرمان اولاد کی ہیروئن اور چرس کے نشے میں مبتلا ہونے کے بعد کی زندگی کی کہانی تھی۔ سرکاری چینل ہونے کے باعث بہت کچھ ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا تھا۔
لیکن ان سب میں بھی دیکھا جائے تو’’انکار‘‘ میں ہونے والی تمام سماجی سرگرمیاں پاکستانی معاشرے کی عکاس نہیں تھیں۔ لیکن وہی بات کہ میڈیا رائے عامہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ رائے عامہ کو اپنی جانب موڑتا اور رائے عامہ میں بعض اوقات ایک استاد کا کردار ادا کرتا ہے۔ لوگ میڈیا کی رائے مقدم سمجھتے ہیں۔ اس کے فوری بعد ہی تواتر سے سرکاری و نیم سرکاری درسگاہوں میں نشے کی لت میں مبتلا طلبہ و طالبات کی خبریں برقی اور ورقی میڈیا میں گردش کرنے لگیں۔ لیکن لوگ چونکہ ایسے ڈرامے دیکھ دیکھ کر ان کرداروں کے عادی ہوچکے تھے، اس لیے کوئی خاص ردعمل سامنے نہیں آیا۔
کراچی کے بازاروں میں عورتوں کی جینز، ٹی شرٹس اور چست و باریک پاجامے بآسانی دستیاب ہونے لگے، حالانکہ پہلے یہ سب چھوٹی بچیوں کے لیے محدود ہوا کرتے تھے۔ اُس وقت بھی کیبل چینلز تھے، لیکن اس طرح کی بھرمار نہ تھی۔ لوگ پی ٹی وی کے پروگرام بھی دیکھا کرتے تھے۔
رفتہ رفتہ سرکاری ٹی وی کا زور مکمل طور پر ٹوٹ گیا۔ چینلز کی بھرمار کے باعث ہر طرح کے پروگرام نشر کیے جانے لگے۔
لیکن بدقسمتی سے قومی وقار، ملکی سالمیت، علاقائی ہم آہنگی، عصبیت سے پاک، اسلام کے اصولوں کے مطابق نشریات ان تمام چینلز میں سے کہیں جگہ نہ پاسکیں۔ کیونکہ ایسے پروگراموں کے لیے مالی تعاون کرنے پر کوئی تیار نہیں ہوتا۔
انہی چینلوں پر ایک ڈراما ’’اڈاری‘‘ بھی تھا جو این جی او کشف فائونڈیشن کا اسپانسرڈ تھا، جس میں ڈومیسٹک وائلنس تھا۔ اُس وقت سے لے کر اب تک زینب جیسے واقعات تواتر سے پاکستانی معاشرے میں وقوع پذیر ہورہے ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں۔کوئی قانون نہیں کہ ایسی معصوم بچیوں و بچوں کی حفاظت کا ریاست کی سطح پر اہتمام کیا جائے۔
جیو کے ایک پروگرام میں جس کی میزبانی سہیل وڑائچ کررہے تھے، خلیل الرحمان جو ڈراما رائٹر ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ وہ ایک کہانی لکھنے کے پچاس لاکھ یا اس سے زیادہ وصول کرلیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ میرے لکھے ہوئے جملوں کو کوئی ڈائریکٹر آج تک تبدیل نہیں کرسکا، جس نے کوشش کی اُس کے ساتھ پھر میں نے کام ہی نہیں کیا۔ اس کے بعد ڈراما رائٹر خلیل الرحمان کا شاہانہ طرز رہائش دکھایا جانے لگا۔
حقیقت میری اور آپ کی نظروں سے ابھی بھی اوجھل ہے۔ حقیقت کیا ہے، آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
جدید دور میں این جی اوز نے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرلی ہے۔ تمام ممالک میں ان کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے۔ سول سوسائٹی کو بہت زیادہ ان کے ذریعے منظم اور باہم مربوط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ این جی اوز کا تصور بجائے خود برا نہیں ہوتا۔ ان کے بنیادی اہداف نیک ہی ہوتے ہیں۔ دنیابھرمیں بڑھتی ہوئی آبادی اور وسائل کی کمی کے باعث صحت، تعلیم، غربت اور سماجی شعور کے متعلق مسائل گمبھیر شکل اختیار کرچکے ہیں۔ حکومتوں کے لیے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ یہ مسائل سرکاری سطح پرحل کرسکیں۔ اس رجحان کے تحت این جی اوز کا قیام کسی نیک مشن سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن یہ نیک مشن اُس وقت معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جب ان کے بظاہر نیک اہداف کے پیچھے پیچھے ان کے خفیہ مقاصد بھی معاشرے میں نفوذ کرجاتے ہیں۔
یہ این جی اوز ترقی یافتہ ممالک کے فنڈز اور ڈونر خفیہ ایجنسیوں کی امداد سے دنیا بھرمیں چلتی ہیں۔ امداد کے ساتھ ساتھ این جی اوز اپنے مشنری، مذہبی، اقتصادی، جغرافیائی اور دیگر خفیہ مقاصد کو بھی معاشروں میں پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔
اس لیے ان مخصوص اہداف اور مقاصد کا شکار زیادہ تر تیسری دنیا کے مسلم ممالک ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں یہ مشنریز این جی اوز اپنے مذموم وخفیہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے پوری دنیا سے فنڈ اکٹھا کرتی ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی اہم این جی اوز میں USAID,DFIDاور JAICA شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بے تحاشا غیرسرکاری تنظیمیں ہیں۔ ان میں سے بعض تنظیمیں پاکستان میں بھی ریاست کے اصولوں کے خلاف کام کررہی ہیں۔
نائن الیون کے بعد سے پرویزمشرف دور میں ان این جی اوز کی تعداد میں اضافہ شروع ہوا۔
پاکستان میں بے تحاشا این جی اوز کام کررہی ہیں، جن کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔
پاکستان میں نظریاتی اور مذہبی افراد کے تعاون سے بعض این جی اوز بہترین خدمات بھی سرانجام دے رہی ہیں۔ لیکن فنڈز کی کمی کے باعث ایسی این جی اوز حکومتی طبقے اور میڈیا کی بے رخی کا شکارہیں۔ اس کے برعکس غیر ملکی اور عیسائی مشنری این جی اوز گروپوں کو جہاں حکومتی سرپرستی حاصل ہے، وہیں وہ میڈیا میں بھی اپنے اعتقادات و نظریات کے لحاظ سے آگے آگے ہیں۔ کیونکہ ایسی این جی اوز میں حکومت کو صرف اپنا مفاد صاف نظر آتا ہے، جبکہ مفادِ عامہ کے نام پر بھی یہ این جی اوز کھلم کھلا فحاشی و عریانی پھیلانے میں سرگرم عمل ہیں۔ تیسری دنیا کے رائٹرز کو منہ مانگی قیمت دے کر خرید لینا، رائے عامہ اپنی مرضی سے ہموارکرنا، ملکی و قومی مفاد کی دھجیاں اڑانا ان کے خفیہ بنیادی اہداف ہوتے ہیں۔
اب آتے ہیں آج کل مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے والے ڈرامے ’’میرے پاس تم ہو‘‘ کی جانب، جو اے آر وائی ڈیجیٹل سے پیش کیا جارہاہے۔ جس میں بڑی مہارت، حاضر دماغی اور زبان کے الٹ پھیر سے پاکستانی معاشرت، تہذیب و تمدن، رہن سہن، معیشت، کلچر اورکئی جگہوں پر زبان کے ساتھ جس خوبصورتی سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے عام آدمی اس سے حاصل شدہ ہولناک نتائج کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ کہیں کہیں تو ان تمام جزئیات کی دھجیاں تک اڑا دی گئی ہیں۔ لیکن یہ کام اتنی مہارت اور حاضر دماغی سے کیا گیا ہے کہ عوام الناس اس کے روح فرسا مضمرات سے مکمل طور پر ناآشنا اور نابلد ہیں۔
جس طرح ہمارا پاکستانی میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا تفریحِ طبع کے نام پر مسلسل اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے والے مواد کی تشہیر کررہا ہے، بالکل اسی نظریے اور خیال کو لے کر یہ ڈراما اپنی شہرت کے مدارج طے کررہا ہے۔
اس میں پاکستانی معاشرے میں عام آدمی کی مکمل کردار کشی کی گئی ہے۔ اس ڈرامے میں شروع سے آخر تک کہیں پاکستانی معاشرے کے عام فرد کی درست سمت نشاندہی نہیں کی گئی۔ انتہائی حساس موضوعات کو بہت غلط انداز میں پیش کرکے رائے عامہ ہموار کی گئی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے گویا یہ ڈراما پاکستانی عوام کو ہاتھ پکڑ کر دینی و اسلامی معاشرت سے ہٹاکر اپنی سمت چلنے کی دعوت دے رہا ہو۔
سب سے پہلے مخلوط محفلیں، جو پہلے کہیں شاذونادر ہی سننے میں آیا کرتی تھیں، اب عمومی رجحان بن چکی ہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں مخلوط محفلوں کے ساتھ مغربی معاشرے کی طرز پر مرد و خواتین کا ساتھ رقص کرنا، بیوی کا اپنے شوہر کی آمدنی سے بڑھ کر فرمائشیں کرنا، پھر فرمائشیں پوری نہ ہونے کی صورت میں شوہر کی طرح نوکری کرنا، اپنے شوہر سے جھوٹ بولنا، شوہر کے ہوتے ہوئے مغربی معاشرے کی طرز پر دوسرے مرد کے ساتھ تعلقات استوار کرنا، شوہر اور بچے کو چھوڑ کر صرف محدود وسائل اور دولت نہ ہونے کے باعث دوسرے مردوں کے ساتھ ناجائز زندگی گزارنا، شوہر سے طلاق لے کر بغیر عدت کے دوسرے مرد کے ساتھ حرام کاریاں کرنا، پھر اس مرد کی جانب سے چھوڑ دیئے جانے پر دوبارہ شوہر کے ساتھ بغیر حلالہ کیے زندگی گزارنے کی خواہش ظاہر کرنا، مرد و عورت دونوں کا بدکرداری کو عین جائز دکھانا، ’’اگر مرد کے لیے معافی ہے تو عورت کے لیے کیوں نہیں‘‘، یا ’’نکاح میں طلاق ہوتی ہے محبت میں نہیں‘‘ جیسے جملوں کی تکرار کے باعث عورت کی عزت اور محصنات کی توہین کرنا… یہ سب اس ڈرامے کے چند اہم نکات ہیں۔
تنازعات سے بھرے اس ڈرامے میں اگرچہ کچھ اچھے جملے اور اچھے اصول بھی بتائے گئے ہیں، لیکن ان چند اچھے اقدامات کی وجہ سے ڈرامے کی بہت ساری غیر شرعی، غیر اسلامی و غیر قانونی روایات کو صحیح نہیں کہا جاسکتا۔
بدکرداری کا لیبل دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ گھروں میں عورت کی درست اسلامی تربیت ہوگی تو وہ اسلامی طرز پر نسلوں کی تربیت کرسکے گی۔ اسلام ہی ان تمام مضمرات کی بیخ کنی کے لیے کافی ہے۔ دینِ اسلام سے مکمل آگہی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
میڈیا کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، کون صرف کٹھ پتلی بناکھیل رہا ہے، اب یہ سب بالکل واضح ہے۔
ترکی ڈرامے ’’ارطغرل‘‘ کے نام سے تو آپ سب واقف ہی ہوں گے۔ اب تک دنیا کے 78ممالک میں یہ سیریز دیکھی جا رہی ہے، جس میں مستقل اضافہ ہورہا ہے۔ تاریخ کے ان عظیم کرداروں کو محمد بزداغ عبدالرحمان نے بطور مصنف اور اسکرین رائٹر بڑی مہارت اور شان سے زندہ کیا ہے۔
ہمارے پاس بہترین لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سرپرستی میں پاکستان کی نظریاتی و اسلامی سالمیت کو پیش نظر رکھ کر ڈرامے بنائے جائیں۔ غیر ملکی این جی اوز کو ایک قانون کا پابند کیا جائے، تاکہ اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہوسکے۔ پاکستانی مسلمان قوم بہت محنتی ہے۔ ہم نے سیکڑوں سال برصغیر پر حکومت کی ہے۔ محمد بن قاسم کی سندھ کی فتح سے آخری مغل بادشاہ تک تمام طبقات، رنگ ونسل، مذہب، ذات برادری اور زبان کے افراد کو ساتھ لے کر ایک عالمگیر حکومت قائم کی ہے۔ ایسے عنوانات پر بہت بہترین ڈرامے بنائے جاسکتے ہیں۔

حصہ