مدینہ کی اسلامی ریاست میں مسجد کی اہمیت

3916

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
قرآن وہ پہلا معاشرتی اور ثقافتی قانون ہے جس کی عین متابعت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کا پہلا عملی اور اصلاحی نظامِ معاشرت قائم فرمایا۔ قرآن کا قانون اور اس کی اساس پر معاشرے و ثقافت کا عملی نظام جو مدینہ میں پہلی بار قائم ہوا، دونوں رہتی دنیا تک کے لیے نمونہ اور مثال بن گئے۔ جس طرح معاشرہ اور ثقافت الٰہی رشد و ہدایت کے اتباع اور عمل کے بغیر نہیں بن سکتے اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ دونوں بغیر نمونے کے صحیح بنیادوں پر ڈھل سکیں اور فروغ پا سکیں۔ اسی لیے ہادی و مرسل اس بات کا پابند ہے کہ وہ جس معاشرے اور ثقافت کو وجود میں لانا چاہتا ہے اس کے ہر جزو کو عملاً پیش کرے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہد سے لحد تک کی زندگی کے تمام مراحل خواہ ان کا تعلق افراد سے ہو یا معاشرے سے، عملی نمونہ بناکر پیش کیے۔ زندگی کے بامقصد اور بامعنی ہونے کا تصور بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دنیا میں موجود نہ تھا۔ زندگی صرف لہو و لعب کا نام نہیں بلکہ حصول ِمقصد ہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کا ثبوت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے ملتا ہے۔ مراسم جہالت اور لہو و لعب سے فطری طور پر نبوت سے پہلے بھی آپؐ مجتنب رہے۔
دنیا کی تاریخ میں یہ واقعہ بھی بے نظیر ہے کہ ماحول اگر ناسازگار ہو لیکن ایک مثالی معاشرہ اور ثقافتی نظام وجود میں لانا مقصود ہو تو اس مقصد کے لیے ترکِ وطن اور ہجرت لازم ہوجاتے ہیں۔ اسلام میں ہجرت کا ہر پہلو دعوتِ حق کے اعلیٰ مقصد کے تحت ہے۔ ہجرت کے فوری بعد جو معاشرتی اور ثقافتی کارنامہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیا وہ ایک اسلامی معاشرے کا قیام ہے، جس کا ہر پہلو عدل و توازن سے آراستہ تھا، اور جس میں دنیا و دین کی قدریں یکجا کردی گئی تھیں۔ اسلام میں سب سے بنیادی ادارہ جس کو معاشرتی اور ثقافتی نظام میں اہمیت حاصل ہے وہ مسجد ہے، اس میں تمام ادارے ضم ہیں، تمام ادارے اسی مرکز کے گرد گھومتے ہیں۔ چنانچہ آپؐ نے ہجرت کے فوراً بعد مدینہ میں مسجد کی بنیاد ڈالی۔ مسجد بحیثیت ادارہ جن مقاصد کی تکمیل کے لیے وجود میں لائی گئی ان کی عام اشاعت کے لیے اذان کا طریقہ رائج کیا گیا۔ منجملہ اور مقاصد کے مسجد کا سب سے اہم وظیفہ عبادت اور اللہ کی بندگی ہے تاکہ انسانی شخصیت، ادارے، معاشرے، ثقافت قرآن کے معنوی نظام کی اساس پر مکمل ہوتے جائیں۔ عبادت کا وظیفہ مسلسل بھی ہے اور ہمہ وقتی بھی۔ اس لیے اس وظیفے کی بجاآوری کے لیے صبح سے رات تک پانچ مرتبہ امت کے مرکز یعنی مسجد میں جمع ہونے کے لیے اذان کے نشر کا طریقہ اسلام کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ نشر کا مرکزی خیال توحید ہے۔ اس کا معاشرتی مقصد یہ ہے کہ مختلف مزاج افراد میں اخوت اور محبت پیدا کی جائے، اور اس طرح ان میں وحدتِ فکر، وحدتِ خیال اور وحدتِ عمل کے ذریعے ایک تصور کو اجاگر کیا جائے۔
اسلامی مملکت میں مسجد عبادت گاہ کے علاوہ ایک ثقافتی مرکز ہوتی ہے جس میں تمام اہلِ محلہ کو دن رات میں پانچ بار ایک جگہ جمع کرکے ان کی اجتماعی اور اتحادی قوت کو بڑھایا جائے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجدوں کا جال بچھ چکا تھا۔ مدینہ کے اندر اگر نو مسجدیں تھیں تو مختلف قبائل کی جداگانہ مسجدیں علیحدہ ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی تھیں، اور اشاعتِ اسلام کے ساتھ ساتھ مزید مساجد عرب کے گوشے گوشے میں بنتی جارہی تھیں۔ مسجد کے ادارے کو نہ صرف مذہبی اہمیت عطا کی گئی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے بھی اس کا مقام متعین کیا گیا۔ اسلامی نظریے کی تعلیم اور اس کا عملی سبق سکھانے اور ان بنیادوں کو واضح کرنے کے لی جن پر اسلامی ریاست کو قائم کرنا تھا، مسجد انتہائی ضروری تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کو اپنی تمام سرگرمیوں کا مرکز قرار دیا۔ مدینہ پہنچ کر تو مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی، مگر مدینہ سے پہلے قبا کے قیام کے وقت وہاں خاندانِ عمرو بن عوف کے سردار کلثوم بن الہدام کی ایک افتادہ زمین پر جہاں کھجوریں خشک کی جاتی تھیں، اسلام کی سب سے پہلی مسجد کی بنیاد آپؐ نے رکھی۔ اسی مسجد کی تعریف سورہ نور میں قرآن نے فرمائی۔ قبا میں آپؐ کا قیام بہت مختصر رہا، لیکن اس کے باوجود مسجد تعمیر کی، جو بہت اہم اور معنی خیز بات ہے، اس سے مسجد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ آپؐ نے تمام مسلمانوں پر جماعت سے نماز ادا کرنا لازمی قرار دیا تاکہ ایک امام کے پیچھے کھڑے ہوکر امامت و اقتداء کا فرق سمجھ سکیں اور نظم و اطاعت کا درس حاصل کرسکیں۔ مدینہ کی مسجد نبوی میں آپؐ خود جلوہ افروز ہوتے اور دوسری مساجد میں آپؐ کے مقرر کردہ ایسے امام تھے جو علم و فضل اور اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد مسجد کی اہمیت اور بڑھ گئی۔ یہ ثقافتی مرکز بھی بن گئی جہاں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے عام امور کی تعلیم دی جاتی۔ مدرسہ اور درس گاہ بھی تھی، اس میں تمام اہم قومی معاملات کو بھی طے کیا جاتا تھا، سارے جنگی و دفاعی صلاح و مشورے بھی وہیں ہوتے تھے۔ مسجد مسلمانوں کا دارالشوریٰ، پارلیمنٹ ہائوس، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے وفود کی اجتماع گاہ اور مہمان خانہ بھی بن گئی۔ مقدمات، تنازعات کا فیصلہ اور تصفیہ بھی یہاں ہوتا تھا۔ مسلمانوں کی سپریم کورٹ اور عدالت بھی مسجد تھی۔ مسجد کی یہی ہمہ گیر حیثیت ہے جس نے مسلمانوں کی تربیت و تنظیم میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔
مسجد کو مرکز و محور بنانے سے جو اسلامی ریاست وجود میں آئی اس کی امتیازی خصوصیات بھی دنیا بھر میں قائم ہونے والی بڑی بڑی مملکتوں سے اعلیٰ و ارفع تھیں۔ ان کا مختصر جائزہ ضروری ہے۔
-1 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست کی سب سے پہلی خصوصیت وہ معاہدہ تھا جس کی بنیاد بیعت عقبہ کی صورت میں مکہ کی سرزمین میں 13 نبویؐ کو رکھی گئی، اور اس معاہدے کی رو سے اہلِ مدینہ نے برضا و رغبت آپؐ کو اپنا حکمران تسلیم کرلیا۔ آپؐ کی قائم کردہ ریاست لوگوں کی باہمی رضا مندی سے وجود میں آئی۔
-2 یہ ایک ایسی ریاست تھی جس میں اقتدارِ اعلیٰ کا سرچشمہ خدا کی ذات تھی۔ اصل حاکمیت اس کے سوا کسی کو حاصل نہ تھی، اور آپؐ پیغمبر خدا ہونے کی حیثیت سے قرآنی احکام و ہدایات کی روشنی میں اس ریاست کے منتظم اعلیٰ تھے۔ اللہ کے احکامات پر سب سے پہلے خود عمل کرتے، اور اپنے صالح عمل سے دوسروں کو اس طرح رغبت دلاتے۔ انا اول المومنین (سورہ اعراف 143) انا اول المسلمین (سورہ انعام 163) کا ارشاد اس بات کو واضح کرتا ہے کہ آپؐ نے خود اپنے ہی خلاف متعدد بار لوگوں کو دعوت دی کہ اگر ان کی طرف سے کوئی زیادتی ہو تو اس کا بدلہ لے لیا جائے۔
-3 مدینہ کی اسلامی ریاست نظریاتی اور دستوری ریاست تھی۔ تاسیسِ ریاست کے ساتھ ہی 1 ہجری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری دستور بھی مرتب فرمایا جس میں واضح طور پر پوری ریاست میں بسنے والے تمام عناصر کے درمیان حقوق و فرائض کی واضح تقسیم فرما دی اور یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور تھا جو دنیا کی کسی مملکت میں نافذ کیا گیا۔ اس ریاست کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ نہ تو یہ نسل و وطن پر قائم تھی، نہ رنگ و زبان پر، اور نہ محض معاشی و سیاسی اشتراک نے اس کو جنم دیا تھا۔ بلکہ وہ اسلامی نظریۂ حیات کی علَم بردار، قرآنی اصولوں کی حامل اور تمام انسانوں کو دعوت دینے والی تھی۔ سورہ حج کی آیت 41 میں ارشاد ربانی ہوا: ’’یہ مسلمان وہ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحبِ اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے اور ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہوں گے، نیکیوں کا حکم دیں گے اور برائیوں سے روکیں گے۔‘‘
-4 اسلام ایک مکمل دین ہے۔ دین و سیاست اس ریاست کا حسین امتزاج تھا۔ دین و دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق اس نے تفصیلی ہدایات نہ دی ہوں، خواہ اس کا تعلق معیشت سے ہو یا معاشرت سے، تہذیب سے ہو یا تمدن سے، سیاست سے ہو یا عدالت سے۔ اس ریاست میں تمام معاملات کو الہامی ہدایات کے مطابق انجام دیا جاتا تھا۔ ایک طرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سربراہِ ریاست تھے، تو دوسری طرف مسجد میں اشاعتِ اسلام، نمازوں کی امامت، ولایات کی تنظیم، فوجوں کی قیادت، سرحدوں کا دفاع، احکام الٰہی کی تنفیذ ہوتی تھی۔ اس ریاست میں محراب و منبر، دربار و دفتر سب معاملات مسجد میں طے پاتے تھے۔
-5 مساجد میں ہی شوریٰ کا نظام طے پا چکا تھا۔ تمام امورِ مملکت جمہور کی رائے سے اسی جگہ طے پاتے تھے مگر آخری فیصلہ وحیِ الٰہی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوتا تھا۔
-6 عبادات و معاملات کے مشترک نظام، دین و دنیا، مذہب و معاشرت، روحانیت و ثقافت کے یکجا ہونے کا پختہ تصور مسجد سے ہی ملتا ہے۔
-7 تعزیرات کے سلسلے میں سب سے اہم بات انسانی جان کی حرمت کا حکم ہے۔ حلال و حرام کے احکامات پر عمل درآمد کرانا، ان کی تنفیذ کے احکام مسجد سے جاری ہوتے تھے۔
-8 اسلام میں توحید کا نظریہ افراد، معاشرہ، ثقافت، ادارات، اعتقادات اور روحانیت کا مرکزی نقطہ ہے۔ توحید کی معنوی اور وجودی اساس پر جینا کوئی آسان بات نہیں ہے، اس لیے جہاد کو ایک معاشرتی وظیفہ اور لازمی عمل قرار دیا گیا ہے۔ اسلام اور اسلامی ثقافت کی بقا، ارتقا میں جہاد کو جو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس کا عملی ثبوت غزوات اور سرایا ہیں جن کی تمام تیاری، تمام احکامات مسجد سے جاری ہوتے تھے۔
-9 مدینہ منورہ میں صفہ واحد درس گاہ نہ تھی بلکہ یہاں کم از کم نو مسجدیں عہدِ نبویؐ میں تھیں، اور ہر مسجد اپنے آس پاس کے محلے والوں کے لیے درس گاہ کا بھی کام دیتی تھی، خاص کر بچے وہاں پڑھنے آیا کرتے تھے۔ قبا، مدینہ منورہ کے جنوب میں مسجد نبویؐ سے تقریباً ڈھائی میل پر واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً وہاں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں کی مسجد کے مدرسے کی شخصی طور پر نگرانی فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ احکام بھی صادر فرماتے تھے کہ لوگ اپنے ہمسایوں سے تعلیم حاصل کرلیا کریں۔ اس طرح مسجد حصولِ علم کا سب سے بڑا مرکز تھی۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو دیکھا وہاں دو قسم کے لوگ موجود ہیں، کچھ لوگ نوافل اور خدا کی عبادت میں مشغول تھے اور کچھ لوگ فقہ کی تعلیم و تعلم میں منہمک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دونوں ہی لوگ اچھا کام کررہے ہیں البتہ ایک کا کام اچھا ہے، جو لوگ خدا سے مانگ رہے ہیں اُن کے متعلق خدا کی مرضی ہے کہ چاہے تو دے، چاہے تو نہ دے۔ البتہ دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جو علم حاصل کررہے ہیں اور جہالت کو دور کررہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔ یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حلقے میں اپنے لیے جگہ بنائی جہاں درس ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی شخصی طور پر تعلیم دیتے تھے اور تمام بڑے بڑے صحابہؓ ان دروس میں شریک رہا کرتے تھے جہاں قرآن کی تعلیم دی جاتی تھی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی کے حلقہ ہائے درس کا اکثر معائنہ کیا کرتے تھے، اگر وہاں کوئی کجی نظر آتی تو فوراً تدارک فرماتے۔ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضا و قدر کے متعلق کچھ مباحثہ ہوتے سنا۔ آپؐ اپنے حجرے سے باہر آئے، مارے غصے کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تمتا رہا تھا۔ ترمذی کی روایت کے مطابق ’’ایسا معلوم ہورہا تھا کہ انار کا رس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخساروں اور پیشانی پر نچوڑ دیا گیا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موضوع پر بحث و مباحثے سے منع کردیا اور ارشاد فرمایا کہ ’’بہت سی گزشتہ قومیں اسی مسئلے پر الجھ کر گمراہ ہوئیں۔‘‘
-10 یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طے شدہ سیاست تھی کہ صرف وہی لوگ قوم کی سرداری اور رہنمائی کریں اور نتیجتاً مسجدوں میں امام بنیں جو قرآن مجید اور سنت کے زیادہ سے زیادہ ماہر ہوں۔
-11 ہجرت کے بعد سیاسی معاہدات، سرکاری خط کتابت، ہر فوجی مہم میں جانے والے رضا کاروں کے ناموں کی فہرستیں، مختلف مقامات مثلاً مکہ، نجد، خیبر، اوطاس وغیرہ میں خفیہ نامہ نگار جو عموماً تحریری طور سے آپؐ کو اپنے مقام کے حالات کی اطلاع دیتے تھے، ان کے جواب مسجد سے ہی لکھے جاتے تھے۔
-12 عہدِ نبویؐ میں مملکتِ اسلامیہ جو ابتداً شہر مدینہ کے کچھ حصے پر مشتمل تھی، پھیلتی چلی گئی۔ اس کا سبب ایک وسیع تعلیمی، ثقافتی، معاشرتی نظام تھا جو دس لاکھ مربع میل کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ عہدِ نبویؐ کے اختتام پر حکومتِ اسلامی باوجود اس قدر وسیع رقبے پر مشتمل ہونے کے، دینی اور مذہبی تعلیم کی ضرورتوں سے بھی اچھی طرح عہدہ برآ ہوچکی تھی۔ کچھ تو مرکز مدینہ سے بڑے بڑے مقامات پر تربیت یافتہ معلم بھیج دیے جاتے تھے، اور کچھ صوبہ دار گورنروں کے فرائضِ منصبی میں یہ امر صراحت کے ساتھ شامل کردیا جاتا تھا کہ وہ اپنے ماتحت علاقے کی تمام تعلیمی، مذہبی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی ضروریات کا مناسب انتظام کریں۔ گورنروں کو جس تعلیم کے رائج کرنے کا حکم تھا اس میں وضو، جمعہ کا غسل، نماز باجماعت، روزہ، حج اور کعبہ کے احکام شامل تھے۔
غرضیکہ اسلامی مملکت میں ہمیشہ مسجد ہی ثقافتی، معاشرتی، مذہبی، تعلیمی اور فوجی مرکز رہی، جس نے دنیا کے نقشے پر ایک فلاحی ریاست کا نقش ہمیشہ کے لیے قائم کردیا۔

حصہ