یوء منون بالغیب

290

سیدہ عنبرین عالم
۔1990ء: استنبول، پری منصور، 16 سال عمر، منصور فتح کی بیٹی۔ پری کے دو بڑے بھائی بھی تھے، ایک سیکولر اپنے باپ کی طرح، اور دوسرا بھائی اسلامسٹ اپنی ماں کی طرح۔ ان کا گھر ایک جنگ کا میدان، جہاں ان کی ماں سلمیٰ اور باپ کے درمیان ہمیشہ جنگ جاری رہتی تھی۔ اسلام اور سیکولرازم کی جنگ۔ منصور صاحب ترکی کی آرمی میں اونچا عہدہ رکھتے تھے، اور سلمیٰ بیگم ایک اسلامی پارٹی کی رکن تھیں۔ بہت ہی متحرک رکن۔ گھر میں قرآن کی تدریس کا کام ڈرائنگ روم میں عین کمال اتاترک کی تصویر کے نیچے جاری رہتا تھا۔ کمال اتاترک جس نے ترکی کے اسلامی تشخص کو نوچ پھینکا تھا اور یورپ کا حصہ بننے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ دونوں بھائی تو عمر کے اس حصے سے نکل چکے تھے جس میں بچے ماں باپ کے محتاج ہوتے ہیں اور ان کی سنتے ہیں، اب رہ گئی تھی پری۔ کبھی ماں اسے لے بیٹھتی اور اللہ کے بارے میں بتاتی، قرآن کے واقعات سناتی… اور کبھی باپ اسے اپنے دوستوں کی محفلوں میں لے جاتا جہاں کمال اتاترک کو دیوتا مانا جاتا تھا، اس کی اصلاحات کی پذیرائی ہوتی اور اسلام پسندوں کو قدامت پسند، غیر ترقی یافتہ اور احمق قرار دیا جاتا۔ منصور اور سلمیٰ کے جھگڑے روز کا معمول تھے، حتیٰ کہ ملازم دونوں کا کھانا بھی الگ الگ بناتے، دونوں کے کمرے بھی الگ تھے۔ پری ماں اور باپ دونوں سے محبت کرتی تھی، دونوں کی سنتی مگر آج تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی تھی۔
منصور جو بیگم کو روز کا خرچا دینے کے لیے کئی کئی دن ترساتے تھے، پیرس سے درآمد شدہ انتہائی اعلیٰ کوالٹی کا سگار پی رہے تھے۔ ’’میری بچی! یہ دنیا عرب کی دنیا نہیں ہے جہاں قبائل ایک دوسرے سے تعلقات کا لحاظ کرتے تھے، ابوطالب کی تعظیم میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نئے عقیدے کو برداشت کرتے رہے۔ اب دنیا کا ہر ملک ایک بھیڑیا ہے، اگر آپ کمزور پڑے تو یہ بھیڑیے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر آپ کو نگل جائیں گے۔ اس لیے ہمیں آج کی دنیا کے مطابق طرزِ زندگی اپنانا ہوگا۔ آج ہم قرآن اور حدیث پر نہیں چل سکتے، کیوں کہ ہمیں اپنے فائدے کے لیے معاہدے توڑنے پڑتے ہیں اور کبھی گردنیں‘‘۔ منصور صاحب نے پری سے کہا۔
پری جب ماں کے پاس بیٹھتی تو باپ کی باتیں اس کے ذہن میں گونجتیں، اور باپ کے پاس بیٹھ کر ماں کے اقوال اس کے ذہن پر دستک دیتے۔ ’’آپ کا مطلب ہے کہ بھیڑیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے بھیڑیا بننا پڑے گا، مگر اماں کہتی ہیں کہ ہمیں پیارے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے مطابق چلنا چاہیے۔ ہم کوئی قدم غلط نہ اٹھائیں تو فتح ہمارا مقدر بنے گی، اللہ کے بھروسے پر بڑے بڑے دشمنوں کو ہرایا گیا‘‘۔ وہ بولی۔
منصور نے پری کو یوں دیکھا جیسے اس نے انتہائی احمقانہ بات کردی ہو۔ ’’ٹیکنالوجی، معیشت، تجارت یہ ہیں وہ چیزیں جن سے جنگیں جیتی جاتی ہیں۔ مسلم امہ اب تک اللہ سے رابطے بنانے میں لگی ہے۔ آج انبیاء کے قاتل یہودی دنیا کے فیصلے کرتے ہیں۔ کہاں ہے تمہارا رابطہ! وحی آنی بند ہوچکی ہے، اب کوئی اللہ سے رابطہ نہیں کرتا، نہ اللہ انسان کو ہدایت کرتا ہے۔ یاد رکھو میری جان سے عزیز بیٹی! یہ سائنس کا دور ہے، اور سائنس کہتی ہے کہ جو چیز نظر نہ آئے، جسے محسوس نہ کیا جاسکے وہ وجود نہیں رکھتی‘‘۔ انہوں نے اپنی کڑکتی آواز میں کہا۔
پری سلمیٰ بیگم کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ اس نے گلابی سلک کا اسکرٹ پہن رکھا تھا جو اس کے بابا نے اسے دلایا تھا، اور اس پر فیروزی رنگ کا اسکارف تھا جو اس کی ماں نے اسے پہنایا تھا۔ ’’بیٹا ایک بادشاہ تھا نورالدین زنگی۔ میرے اللہ نے ان سے رابطہ کیا خواب کے ذریعے اور انہیں بتایا کہ میرے نبیؐ کا جسدِ خاکی مشکل میں ہے۔ حضرت موسیٰؑ کی والدہ پیغمبر نہیں تھیں، اللہ نے ان سے بھی رابطہ کیا، حضرت مریمؑ کو بھی رسالت کی ذمہ داری سے مبرا رکھا گیا مگر میرا رب ان سے بھی رابطے میں رہا۔ اللہ اپنے محبوب بندوں سے ہمیشہ رابطہ رکھتا ہے، جب تک زمین پر ایک انسان بھی زندہ ہے، میرا اللہ رابطہ بھی کرے گا اور ہدایت بھی دے گا۔ تم کوشش ترک نہ کرنا، وہ تم سے رابطہ کرے گا‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے سمجھایا۔
’’کیا اللہ نے یہ تقدیر بنائی کہ مسلمان ذلت کا شکار رہیں اور یہودی فتح یاب ہوں ہمیشہ؟‘‘ پری نے پھر سوال کیا۔ سلمیٰ بیگم نے نرمی سے پری کے چہرے پر پیار کیا ’’میری چاند سی بیٹی! دو باتیں ہیں: ایک تقدیر، اور دوسری اعمال۔ تقدیر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرتی، تقدیر میں لکھا تھا کہ مسلمان قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوں گے تو تمام زمانے کے امام ہوں گے ورنہ ذلیل و خوار ہوں گے، یعنی دو نتائج ممکن تھے، تقدیر کے دو نتیجوں میں سے کون سا نتیجہ نکلے گا، وہ ہمارے اعمال پہ ہے۔ یہ ہے تقدیر اور اعمال کا تعلق۔ اب تحقیق، محنت اور اتحاد سے یہودیوں نے کام لیا تو وہ کامیاب ہوگئے۔ مسلمان ان سے کام لیتے تو وہ کامیاب ہوجاتے۔ صرف یہودیوں کو ہرانے کے لیے، تقدیر کے اصول تو تبدیل نہیں ہوں گے‘‘۔ انہوں نے سمجھایا۔
’’لیکن کون یہودیوں میں پیدا ہوگا اور کون مسلمانوں میں، یہ تو تقدیر کے فیصلے ہیں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟‘‘ پری نے کہا۔
’’آپ ہمارے گھر پیدا ہوئیں، یہاں کارل مارکس کی کتابیں بھی ہیں اور اقبال کی شاعری کے انگریزی ترجمے بھی، انتخاب کی یہ دو جہتیں اللہ نے آپ کو دیں، یہ تقدیر ہے۔ آپ کیا منتخب کرتی ہیں، یہ اعمال ہیں‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’یعنی انتخاب کے لیے مختلف جہتیں ہر شخص کے پاس ہوتی ہیں، وہ اپنی زندگی میں جو چاہے منتخب کرے‘‘۔ پری نے کہا۔
’’بالکل میری جان! تم سب کچھ پڑھو اور خود فیصلہ کرو، اللہ تمہاری رہنمائی کرے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا اور پری کا ہاتھ چوما۔
رات گہری ہوچکی تھی، پری اپنے بستر میں لیٹی ایک ناول پڑھ رہی تھی، اچانک اسے منصور صاحب کے چیخنے چلاّنے کی آواز آئی۔ یہ کوئی نئی بات نہیں تھی، یقینا اس پہر منصور صاحب ڈولتے ہوئے کسی پارٹی سے واپس آئے ہوں گے، سلمیٰ بیگم نے سرزنش کی ہوگی اور زبردست جھگڑا شروع ہوگیا ہوگا۔ اب سلمیٰ بیگم صبح تک قرآن کا ترکی ترجمہ پڑھتے ہوئے بیٹھی رہیں گی، روئیں گی اور اللہ سے شکایتیں کریں گی۔ ان کا یہ حال تھا کہ سارا دن کہیں بھی جاتیں، قرآن کا ترکی ترجمہ اپنے بیگ میں رکھتیں۔ کوئی بھی بات ہوتی فوراً قرآن کھولتیں، جہاں سے بھی قرآن کھلتا ایک ہی دفعہ میں ان کو اپنے مسئلے کا حل سمجھ آجاتا۔ ایک مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیلتی اور وہ مطمئن ہوجاتیں۔ ’’پتا نہیں اماں نے شادی کا فیصلہ کرتے وقت قرآن کیوں نہیں کھولا، شاید ان کے جیسا کوئی مل جاتا، سب کی زندگی سکون سے گزرتی‘‘۔ پری نے سوچا۔ وہ روز کے لڑائی جھگڑوں سے تنگ آچکی تھی۔ پری اٹھ کر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس کھڑی ہوگئی، بہت بڑا چاند اس کا منتظر تھا۔ شاید چودھویں کی رات تھی، آسمان پر جابجا بادل بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اس منظر کو گھورتی رہی۔ ’’جو رب اتنا بڑا آسمان بنا سکتا ہے، کیا وہ دلوں کو نرم کرنے پر قادر نہیں! پوری دنیا میں سب کیوں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں، لڑتے ہیں، جنگیں کرتے ہیں، پورے پورے ملک اجڑ جاتے ہیں۔ اگر میرا رب سب سے محبت کرتا ہے تو ہمیں محبت کیوں نہیں سکھائی؟‘‘ اس نے سوچا۔
…٭…
’’میرا رب نفرت نہیں سکھاتا، نفرت تو شیطان سکھاتا ہے جیسے اُس نے ہابیل اور قابیل کو آپس میں لڑوا دیا۔ دنیا میں ہمیشہ دو قوتیں ہوتی ہیں ایک اچھائی کی اور ایک برائی کی، دونوں کے درمیان جنگ ہوتی ہے۔ دنیا بنانے کا مقصد ہی یہ امتحان ہے کہ کون سا انسان اچھائی کا ساتھ دیتا ہے اور کون سا انسان برائی کا ساتھ دیتا ہے‘‘۔ سلمیٰ بیگم نے کہا۔
’’کیا بابا برائی ہیں، شیطان ہیں؟ اور آپ اچھائی ہیں، آپ تو اللہ میاں کی نمائندہ ہیں ناں؟‘‘ پری نے پوچھا۔
سلمیٰ بیگم نے گہرا سانس لیا۔ ’’بابا بھی بہت اچھے ہیں، وہ آپ سے محبت کرتے ہیں، آپ کے گھر سے محبت کرتے ہیں، وہ ترکی کی آرمی سے محبت کرتے ہیں، اپنے عہدے سے محبت کرتے ہیں، بس وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ سب اللہ کی طرف سے ہے، اور مومن وہ ہوتا ہے جو اللہ سے محبت کرے، اللہ کی دی ہوئی چیزوں سے نہیں۔ چیزیں، رشتے، عہدے یہ سب چھن جانے والی چیزیں ہیں۔ ہمیشہ ساتھ نبھانے والی ذات صرف اللہ کی ہے، وہ سب سے بڑا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔ پری غور سے سن رہی تھی۔ ’’اماں! اللہ میاں نظر کیوں نہیں آتا؟ سارا کفر، سارا شرک، سارے جرم صرف اس وجہ سے ہیں کہ وہ نظر نہیں آتا۔ اس کا وجود ایک سوالیہ نشان ہے۔‘‘ اس نے پریشان ہوکر سوال کیا۔
سلمیٰ بیگم نے تحمل سے سوال سنا، وہ جانتی تھیں کہ ترکی میں سیکولرازم کی جو ہوا چل رہی ہے ایسے بے ہودہ سوال جان بوجھ کر نوجوانوں کے دماغوں میں ڈالے جارہے ہیں، اس چلن کا تدارک نوجوانوں کو آنکھ بند کرکے ایمان لانے پر مجبور کرنے سے نہیں ہوگا بلکہ مدلل جوابات دینے ہوں گے۔ ’’میری بیٹی! ایسے سوالات صرف آج کی ترکی کی نوجوان نسل نہیں پوچھتی، یہ سوالات کروڑوں سال پہلے حضرت نوحؑ سے بھی پوچھے گئے تھے، قرآن ان سوالات کے جواب میں تاریخ کے واقعات پیش کرتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا وجود نہیں ہے، مگر تاریخِ انسانی کے آغاز سے، ہر چند سو سال بعد ایک شخص نمودار ہوتا ہے، جو خود کو اللہ کا پیغمبر کہتا ہے، اذیتیں اٹھاتا ہے، دشمنیاں برداشت کرتا ہے۔ بظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، وہ اس ایک اللہ کے نام پر پے در پے نقصانات سہتا ہے… کیوں؟ اگر اللہ نہیں ہے تو یہ کون لوگ ہیں جن کی نافرمانی پر پوری پوری قوم برباد کردی گئی؟‘‘ انہوں نے کہا۔
’’اگر اللہ ہے تو ہمیشہ یہ پیغمبر اتنے کمزور اور مجبور کیوں رہے، اللہ تو تمام جہانوں کا مالک ہے، زکریاؑ اور یحییٰ ؑ کو قتل کردیا جاتا ہے، موسیٰؑ اپنی قوم کی شرارتوں کے آگے مجبور، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیتیں دی جاتی ہیں، اگر اللہ ہے تو کیا وہ اپنے پیغمبروں کی مدد نہیں کرسکتا؟‘‘ پری نے پوچھا۔
سلمیٰ مسکرا اٹھیں، سوال تلخ ضرور تھا، مگر خبر دے رہا تھا کہ پری نے انبیا کے بارے میں کافی پڑھ رکھا ہے، ان کو اچھا لگا تھا۔ ’’ہاں اللہ مدد کرتا ہے، تبھی تو نیل کا دریا پھٹتا ہے، فتح بدر ہوتی ہے، ساری دنیا کی ٹیکنالوجی کی حامل فوج روس کو پاکستانی اور افغان مل کر ہرا دیتے ہیں۔ میری بیٹی! تاریخ نے عرب کے چرواہوں کو صرف عشقِ الٰہی کی بنا پر روم اور کسریٰ کی سپر پاورز کو ہراتے دیکھا۔ جو اللہ پر یقین رکھتا ہے، اُسے جانتا ہے، اُس سے عشق کرتا ہے وہی جیتتا ہے اور وہی جیتے گا۔‘‘ انہوں نے بڑے فخر سے جواب دیا۔
’’اچھا…‘‘ پری نے طنزیہ مسکراہٹ اپنے چہرے پر سجا لی۔ ’’تو پھر کمال اتاترک کی ری پبلک پیپلزپارٹی نے سب مسلمانوںٍ کو کیسے ہرا دیا، آپ تو مومن ہیں، آپ روز بابا سے کیوں مار کھاتی ہیں؟ کئی مومن عورتیں ہیں جن کے مرد کمال اتاترک کی پارٹی میں ہیں اور وہ اپنے گھر میں قرآن رکھنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔‘‘ اس نے کہا۔
سلمیٰ بیگم کے چہرے پر گہرا کرب بکھر گیا۔ ’’پھر کہوں گی کہ قرآن ہمیں تاریخ سے سبق لینے کا حکم دیتا ہے، ایسے ادوار بھی گزرے ہیں کہ مومنین کو آگ سے بھری ہوئی خندقوں میں پھینکا گیا، مومنین نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھوک کا مقابلہ کیا۔ ہم تو کھانا کھاتے ہیں، سب سہولتیں اٹھا رہے ہیں۔ اور روز مار اس لیے کھاتے ہیں کیوں کہ ترکی کی خواتین اپنے شوہروں کو کفر میں ڈوبتا چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ طلاق ایک آسان راستہ ہے مگر پھر ترکش مردوں کے کانوں میں جو اللہ کا نام ان کی بیویاں روز پھونکتی ہیں، وہ راستہ بھی بند ہوجائے گا۔ یہ آزمائش ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ ہماری مدد پر قادر نہیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
پری غور سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی۔ ’’آپ اس اللہ کے لیے روز مار کھاتی ہیں جسے آپ نے کبھی نہیں دیکھا؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
سلمیٰ بیگم اطمینان سے مسکرائیں۔ ’’ذرا فلسطین اور کشمیر جائو، وہاں لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں، اس رب کے لیے جسے انہوں نے نہ دیکھا ہے نہ سنا ہے، مگر میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں بتایا ہے۔ میرا نبیؐ سچا ہے۔ قرآن کی وہ سائنسی توجیحات آج 1500 سال بعد سچ ہورہی ہیں جو میرے نبیؐ نے بتائیں۔ کس نے یہ سب ان کو بتایا؟ یقینا اُس نے جس نے ساری کائنات تخلیق کی، یعنی وہ واقعی کائنات کے خالق سے رابطے میں تھے، اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کا وجود ہے جو اس کائنات کا خالق ہے اور کائنات کے ہر راز سے واقف ہے۔ تم لوگ احساس کمتری میں مبتلا ہو، مغرب کی اقوام کو اتنا برتر سمجھتے ہو کہ ان کا کفر بھی تمہیں اچھا لگتا ہے اور اپنا دماغ استعمال ہی نہیں کرتے۔‘‘ انہوں نے پری کو بتایا۔
’’اگر آپ لوگ کائنات کے خالق سے رابطے میں ہیں، کائنات کے رازوں سے واقف ہیں تو پھر کائنات پر حکومت اُن کی کیوں ہیں جو کائنات کو ایک اتفاق سمجھتے ہیں؟ جو شیطان سے محبت کرتے ہیں؟‘‘ پری نے پوچھا۔
سلمیٰ بیگم نے افسوس سے سر ہلایا۔ ’’جسے تم حکومت اور ترقی سمجھ رہی ہو، وہ سراسر بربادی ہے، ہلاکت خیز ہتھیاروں کے دم پر دنیا کو غلام بنانا تو پہلے بھی فرعونوں کا طریقہ رہا ہے، اب کون سی ترقی ہوگئی! اپنے عظیم رب کی قسم کھا کر کہتی ہوں یہ فرعون بھی اسی طرح مٹا دیے جائیں گے جیسے پہلے اللہ کے دشمن مٹا دیے گئے۔‘‘ انہوں نے جذبے سے کہا۔
’’یہ تو آپ نے صحیح کہا، فرعون، حضرت نوحؑ، حضرت موسیٰؑ وغیرہ کے قصے تو انگریزوں نے بھی تسلیم کیے ہیں، وہ بھی مانتے ہیں کہ پیغمبروں کی عدم اطاعت پر قومیں تباہ کی گئی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا وجود ہے۔‘‘ پری نے کہا۔
’’ہاں بیٹا! انگریزوں نے مان لیا تو ہی تم مانو گی، ورنہ بڑے بڑے علما کہتے رہیں، ماں کہتی رہے، سب جھوٹے ہیں۔ جو انگریز کہیں وہی سچ ہوتا ہے۔‘‘ سلمیٰ بیگم نے کہا۔ پری ہنس پڑی۔ ’’معذرت والدہ محترمہ! آپ تو ناراض ہی ہوگئیں۔ بے شک اللہ موجود ہے، وہ سب سے بڑا ہے، ہر شے پر قادر ہے، ازل سے ابد تک اسی کا راج ہے، تمام الہامی کتابیں برحق ہیں اور اللہ کے بارے میں سچ سچ بتادیتی ہیں، میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اللہ کا پیغام ہم تک برحق پہنچایا، اور ایک دن ترکی میں اسلامی انقلاب ضرور آئے گا۔‘‘

حصہ