محمد بن موسیٰ خوارزمی

1312

محمد بن موسیٰ خوارزمی خوارزم (جیوا) میں پیدا ہوا یہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اپنے وطن میں وہ بالکل غیر معروف تھا وہاں کوئی نہیں جانتا تھا کہ علم و ادب کا یہ آفتاب و مہتاب اور ریاضی کی بلند پایہ کتابوں کا مصنف ان کے درمیاں رہتا بستا ہے۔ وہ 820ئکے لگ بھگ ترک وطن کرکے بغداد پہنچا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے جن عظیم شخصیتوں نے دنیا میں اپنی قابلیت، اعلیٰ مہارت اور عمدہ استعداد سے بنی نوع انسان کی خدمت کی اور فائدہ پہنچایا۔ ان میں خوارزمی سرفہرست ہے۔ اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر اسے دربار شاہی میں نمایا ںمقام حاصل ہوا، وہ خلیفہ مامون الرشید کے مقربین خاص میں شامل تھا، خلیفہ اسے اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ خلیفہ کی فرمائش پر اس نے دو گرانقدر کتابیں تصنیف کیںجنہیں خلیفہ نے بہت پسند کیا اور اسے گرانقدر انعامات سے سرفراز کیا، وہ بغداد کی بیت الحکمتہ (سائنس اکادمی) میں جس میں قابل ترین علماء علمی تحقیقات اور ریسرچ میں شب و روز مصروف رہتے تھے، رکنیت کا خواہاں تھا۔ اس کے لیے اس نے ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا۔ شب و روز کی دیدہ ریزی کے بعد اس نے علم ریاضی پر ایک جامع نوعیت کا تحقیق مقالہ تحریر کیا اور اسے اکادمی کو بھیج دیا۔ اکادمی نے مقالے کے بارے میں سوالات پوچھے، اس نے زبانی سوالات VIVA میں ارکان کو پوری طرح مطمئن کیا جس کے بعد اسے اکادمی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ VIVA کا یہی طریقہ آج بھی یونیورسٹیوں میں رائج ہے۔ خوارزمی نے بیت الحکمتہ کے طرز پر اپنی ایک علیحدہ تنظیم قائم کی جس میں علم ریاضی اور الجبرا کے نامور ماہرین نے شمولیت اختیار کی۔
خوارزمی نے علم ریاضی میں زبردست کارنامے سر انجام دیئے۔ خوارزمی کی کتابیں بہت پہلے یورپ پہنچ چکی تھیں، ان کے ترجمے بھی لاطینی زبان میں ہو چکے تھے، اس کی کتاب ’’حساب‘‘ کا ترجمہ چودھویں صدی کے بعد کے زمانے میں انگریزی اور دوسری زبانوں میں شائع ہوا اس کا انگریزی ترجمہ روزن نے 1831ء میں کیا اور لندن سے پہلی بار بڑے اہتمام سے شائع کیا۔
حساب:
یہ خوارزمی کی ریاضی کی پہلی کتاب ہے جسے یورپ کے ریاضی دانوں نے پڑھ کر علم ہند سہ کی حقیقت اور اہمیت کو سمجھا۔ یہ کتاب چودھویں صدی میںیورپ پہنچی، اسے پڑھ کر وہاں کے لوگوں کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہاں ریاضی میں رومن ہندسے رائج تھے جو بالکل نامکمل، ناقص، ناقابل فہم اور غلط اصولوں پر مبنی تھے۔ وہاں کے ریاضی دانوں نے خوارزمی کی کتاب کو دیکھ کر اپنے حساب کتاب کے اصول بدل دیئے اور عربی ہندسوں کو فوراً قبول کر لیا۔ یہ ہندسے عربی فیگر کہلاتے ہیں۔
الجبر والمقابلہ:
خوارزمی کی دوسری کتاب ’’الجبرو القابلہ‘‘ ہے۔ یہ الجبرا پرا پنے فن کی بے مثل بنیادی کتاب سمجھی جاتی ہے اور یہ بالکل سچ ہے کہ خوارزمی الجبرا کا موجد ہے۔
علم جبر و المقابلہ پر مولانا شبلی کا تبصرہ
مولانا شبلی نعمانی فرماتے ہیں کہ علم جبرو المقابلہ پر اسلام میں جو پہلی کتاب لکھی گئی وہ اسی عہد کے ایک مشہور عالم محمد بن موسیٰ خوارزمی نے خلیفہ مامون الرشید کی فرمائش پر لکھی تھی۔ یہ تصنیف آج بھی موجود ہے۔ یہ اس قدر جامع نوعیت کی ہے کہ خوارزمی نے اس کتاب میں جو اصل اور قاعدے بیان کیے ہیں آج بھی اسکولوں کی اعلیٰ جماعتوں اور کالجوں میں وہی قاعدے پڑھائے جاتے ہیں۔

حصہ