قافلۂ حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں

554

شاہ اسماعیل شہید دِلّی میں اپنے علم وفضل، تقویٰ اور طاغوت کے مقابل ایک تلوارِ بے نیام کے طور پر مشہور تھے۔ ان کی کتاب ’’منصبِ امامت‘‘ برصغیر ہی نہیں بلکہ اُس دور کی خوابیدہ مسلم اُمہ کے دلوں میں نشاۃ ثانیہ اور خلافتِ علیٰ منہاج النبوہ کی اوّلین ترغیب تھی۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم فرزند شاہ ولی اللہ کے پوتے، 29 اپریل 1779ء کو پیدا ہوئے۔ یہ وہی سال ہے جب رنجیت سنگھ نے پنجاب میں اپنی پہلی فتح حاصل کرکے اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی تھی۔ انہوں نے سلوک کی منزلیں شہیدِ بالاکوٹ سید احمد شہید کی مریدی میں طے کیں اور علم وفضل اپنے گھرانے سے میراث میں لیا۔ اورنگ زیب عالمگیر کہ جسے علامہ اقبال نے معرکۂ کفر و دین میں اپنے ترکش کا آخری تیر کہا تھا:

درمیان کارزار و کفر و دیں
ترکشِ مارا خدنگِ آخریں

اس عظیم درویش حکمران کے بعد ہندوستان میں جو زوال شروع ہوا وہ شاہ اسماعیل شہید تک آتے آتے طوائف الملوکی میں بدل چکا تھا۔ آج بھارت میں جس ’’ہندوتوا‘‘ کا غلغلہ ہے اس کا آغاز شاہ ولی اللہ کے دور میں شیواجی اور بالاجی باجی راؤ کی مغلوں کے خلاف مہمات سے ہوا تھا۔ مغل سلطنت صرف دِلّی کے اردگرد چند مربع کلومیٹر رقبے تک محدود ہوچکی تھی اور یہ محاورہ مشہور ہوگیا تھا ’’شاہ عالم، از دلی تا پالم‘‘۔ پالم وہ جگہ ہے جہاں اس وقت دِلّی ائرپورٹ ہے۔ اسی دور میں شاہ اسماعیل شہید کے دادا شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو خط تحریر کیا تھا کہ وہ مرہٹوں کی اس بڑھتی ہوئی قوت سے مسلمانوں کو نجات دلائے۔ پانی پت کے میدان میں لڑی جانے والی تیسری لڑائی، 14 جنوری 1761ء میں ہوئی، جس نے پورے بھارت سے جمع ہونے والے ہندو لشکر کو شکستِ فاش دی اور ’’ہندو توا‘‘ کے قیام کا خواب چکنا چُور ہوکر رہ گیا۔
یہ شکست نہ صرف ہندوستان کے ہندوؤں کے دلوں میں آج ایک زخم کی صورت پیوست ہے، بلکہ متعصب گورے نے بھی اس جنگ کے بارے میں شدید نفرت سے بھری ہوئی تاریخ مرتب کی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے مشہور شاعر، ناول نگار اور صحافی رڈیارڈ کپلنگ (Rudyard kipling) نے بھی جو گوری نسل کی تعصب پر مبنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہے، ہندوؤں کی اس شکست کا نوحہ اپنی نظم ’’With Scindia to Dehli‘‘ میں تحریر کیا۔ کپلنگ نے ہندوؤں کے اس زرد پرچم کا گیت بھی اس نظم میں گایا ہے۔ یہ وہی پرچم ہے جسے آج آر ایس ایس پورے بھارت میں ترنگے کی جگہ لہرانا چاہتی ہے۔
احمد شاہ ابدالی کے بعد کا ہندوستان زوال کی علامت اور طوائف الملوکی کا ٹھکانہ بن چکا تھا۔ انگریز اپنی سلطنت کو وسعت دے رہا تھا، ہندو اپنا اقتدار منظم کررہے تھے، اور مسلم اکثریتی علاقے پنجاب، سرحد اور کشمیر پر سکھوں کی ظالمانہ حکومت قائم تھی۔
شاہ اسماعیل شہید اسی مسلمان اکثریتی علاقے کو سکھوں کی حکومت سے نجات دلانے کے لیے سید احمد شہید کے ساتھ جہاد کے لیے نکلے اور بالا کوٹ کے مقام پر شہید ہوئے۔ شاہ صاحب، وہ صاحبِ سیف و قلم تھے جن کی ان کے مخالفین بھی بے پناہ عزت کرتے تھے۔ مولانا فضل حق خیر آبادی، بعض مسائل کی تعبیر میں ان کے مخالف تھے، لیکن جیسے ہی دِلّی میں بالاکوٹ میں شاہ اسماعیل کی شہادت کی خبر پہنچی تو درس دے رہے تھے اور مولوی غلام یحییٰ ان سے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے، شاہ صاحب کی شہادت کی خبر سنتے ہی انہوں نے کتاب بند کردی، سناٹے میں آگئے اور دیر تک خاموش بیٹھے روتے رہے۔ اس کے بعد یہ تاریخی الفاظ کہے ’’اسماعیل کو ہم مولوی نہیں جانتے تھے بلکہ وہ امتِ محمدیہ کا حکیم تھا۔ کوئی شے نہ تھی جس کی ’’اِنیّت‘‘ اور ’’لِمیّت‘‘ اس کے ذہن میں نہ ہو۔ امام رازیؒ نے اگر علم حاصل کیا تو دودِ چراغ کھاکر، اور اسماعیل نے محض اپنی قابلیت اور استعدادِ خدا سے۔‘‘
شاہ اسماعیل شہید ایک دن دلی کے بازار سے گزر رہے تھے تو دیکھا کہ بہت سی پالکیاں کچھ خواتین کو لے کر ایک سمت جارہی ہیں۔ شاہ اسماعیل نے پوچھا یہ سب کیا ہے؟ تو لوگوں نے جواب دیا کہ یہ سب دلی کی طوائفیں ہیں، جو اپنی سب سے بزرگ طوائف کے ہاں ہر سال جمع ہوتی ہیں اور وہاں جشن کا اہتمام ہوتا ہے۔ آج وہ دن ہے۔ شاہ اسماعیل حیرت میں ڈوب گئے۔ فرماتے ہیں: میں نے خود سے سوال کیا کہ تیرے روز کے وعظ اور مسجد میں جمعہ کے خطبے کس کام کے اگر یہ لوگ غافل رہ گئے! حیف ہے تجھ پر، اگر تُو وہاں جاکر ان خواتین کو اللہ کا بھولا ہوا راستہ یاد نہ کروائے۔
شاہ صاحب تھوڑی دیر کے بعد اس ٹھکانے پر جا پہنچے جہاں جشن کا اہتمام تھا۔ دنیا اور اس کے رنگ چاروں طرف جگمگا رہے تھے۔ دلی میں شاہ صاحب کی عزت مسلّم اور احترام بے حد تھا۔ انہوں نے اس بزرگ طوائف سے درخواست کی کہ کیا میں آپ لوگوں کے جشن اور رقص و سرود سے پہلے ایک داستان بیان کرسکتا ہوں؟ سب نے بہ خوشی اجازت دے دی اور شاہ صاحب نے جو بلا کے خطیب تھے، قرآن پاک میں انسانوں کی غفلت اور دنیا میں گم زندگی پر مبنی سورۃ ’’التَّکَاثُر‘‘ کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ مالک و خالقِ کائنات نے انسان کی غفلت کی داستان کو اس سورۃ میں کیا خوب بیان کیا ہے۔ فرمایا ’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے، یہاں تک کہ (اسی دُھن میں) تم لبِ گور تک پہنچ جاتے ہو۔ ہرگز ایسا نہیں چاہتے۔ تمہیں عن قریب سب پتا چل جائے گا۔ ہرگز نہیں، اگر تم یقینی علم کے ساتھ (اس روش کا انجام) جانتے ہوتے (تو ایسا نہ کرتے)۔ یقین جانو تم دوزخ کو ضرور دیکھو گے۔ پھر یقین جانو کہ تم اسے بالکل یقین کے ساتھ دیکھ لو گے۔ پھر تم سے اس دن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔‘‘
طوائفوں کے اس اکٹھ میں، جو خود بھی دنیا میں غرق تھیں اور دوسروں کو بھی اس کے سامانِ عیش و عشرت میں مشغول رکھتی تھیں، جب شاہ اسماعیل شہید نے اس کیفیت کا بیان شروع کیا تو ابھی انہوں نے پہلے دو الفاظ ’’اَلھٰکْم‘‘ یعنی غفلت میں ڈوبے ہوئے اور ’’التَّکَاثُرْ‘‘ یعنی کثرت میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کا ذکر کیا تو اس دردمندی سے لوگوں کے انجام کا منظر کھینچا کہ وہ طوائفیں ہچکیوں سے رونے لگیں۔ لوگوں کا بیان ہے کہ لاتعداد طوائفیں شاہ صاحب کے سامنے تائب ہوتے ہوئے یہی پکارتی جاتیں کہ غفلت میں ہم تو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی ہیں اور ایک لمحے میں اندر گرنا چاہتی ہیں۔
قرآن پاک کی اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے صاحبانِ نعمت کو پکارا ہے۔ اور تکاثر کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے ’’مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی تگ ودو‘‘۔ اللہ کا یہ خطاب ہر دور کے انسان کے لیے ہے۔ آج اسلام آباد اور دیگر مراکزِ اقتدار کے باسی ان تمام صاحبانِ نعمت کو دیکھتا ہوں، جو صبح اپنے گھروں سے ویسے ہی سواریوں میں نکلتے ہیں جیسے دلی کی طوائفیں پالکیوں میں جشن کے لیے نکلا کرتی تھیں۔
قبروں میں پاؤں لٹکائے ہوئے اس ہجوم کو پکارنے کے لیے آج ہمارے درمیان کوئی شاہ اسماعیل شہید موجود نہیں۔ یہ لوگ بھی کیا ہیں، موت دستک دے رہی ہے اور یہ زندگی کے آخری دنوں میں سیاسی میراث اپنی اولاد کو منتقل کرنے کی خواہشوں میں ڈوبے ہیں۔ طاقت و قوت اور اختیار کی دوڑ میں مگن بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ کے ارکان… کیا یہ سب کثرت کی دوڑ میں غرق نہیں ہیں! لیکن میرا المیہ، بلکہ میرے ملک کا المیہ یہ ہے کہ میرے ملک کا عالمِ دین جو دراصل شاہ اسماعیل شہید کا وارث ہے، وہ بھی سیاست کے میدان میں دنیا کے خواب دیکھتا اور دکھاتا ہے۔ وہ علماء جو خود لبِ گور ہیں مگر دنیا کی کامیابی کی دوڑ میں ان تمام دنیا پرست لوگوں سے بھی سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔ کوئی شاہ اسماعیل شہید نہیں ہے جو پارلیمنٹ کے مشترکہ ایوان میں کارروائی رکواکر صرف ایک اعلان کرے: تمہیں یاد ہے کہ تم سب لبِ گور ہو اور کل تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ شاید دِلّی کی طوائفوں کی طرح یہاں بھی ہچکیوں سے رونے کی آوازیں بلند ہوجائیں۔

حصہ