عظیم بلوچ۔۔۔۔ عظیم سالار

222

روزینہ جاوید
انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب سب کچھ تھم سا جاتا ہے۔ ایسا بھاری وقت صرف اپنے کسی عزیز کی موت کی خبر سن کر آتا ہے اور دلوں کو نڈھال کرجاتا ہے۔
یہ 13 جنوری بعد نماز عصر کی بات ہے، میں اپنے گھر سے نکل رہی تھی جب میری چھوٹی بیٹی نے سر جھکائے مجھے بتایا ’’مما عظیم بلوچ کا رات 2 بجے ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔‘‘ میرا دل ایک دم سے بیٹھ گیا۔
’’اب کیسی طبیعت ہے ان کی؟‘‘ میں نے فوراً پوچھا۔ جواب میں اُس نے میری طرف پشت کرتے ہوئے کہا ’’انتقال ہوگیا ان کا۔‘‘
یہ چار جملے نہیں تھے، روح نکلنے سے پہلے کی ایک تکلیف تھی۔ میرا دل اس زور سے دھڑکا کہ میں نے جلدی سے گِرل کو تھاما۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا…… عظیم بلوچ شہید ہوگئے…؟
جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر عظیم بلوچ جن سے نہ کبھی میری ملاقات ہوئی نہ بات چیت۔ صرف میرے گھر میں ذکر چلتا تھا اس عظیم شخصیت کا، جو دین کی خدمت میں گزشتہ کئی سال سے سرگرم تھے اور میرے بیٹے جیسے داماد عدیل اقبال کے گہرے اور دیرینہ دوست تھے۔ اگر کوئی ان کی دوستی کو دیکھتا تو یقین ہی نہیں کر پاتا تھا کہ عدیل ان سے عمر میں بہت چھوٹا ہے۔ جماعت کے ہر پروگرام میں دونوں ساتھ ساتھ ہوا کرتے تھے اور شہادت سے کچھ دنوں قبل ہی ان دونوں کا جماعت کے سلسلے میں کوئٹہ جانے کا پروگرام بنا تھا۔ عدیل کی باتیں عظیم بلوچ سے شروع ہوتی تھیں اور عظیم بلوچ پر ختم ہوتی تھی۔
عظیم بلوچ بارہ سال کی عمر میں ہی اسلامی جمعیت طلبہ سے متعارف ہوئے تھے اور دل و جان سے دین کی خدمت میں لگ گئے تھے۔ وہ اللہ کے راستے میں اتنا مگن تھے کہ انہوں نے اپنے کیرئیر کے لیے بھی کچھ نہیں کیا، اور بدلے میں اللہ نے اپنی مخلوق کے دلوں میں اُن کی وہ عزت اور محبت ڈالی کہ شہادت کی خبر سنتے ہی سب نڈھال ہوگئے۔ انہوں نے دین کو روشن کیا، اللہ نے ان کے جنازے کو ہزاروں افراد کی شرکت سے گواہ بنادیا۔ وہ ایک صالح انسان تھے جن کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
’’بے شک جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع و فرماں بردار ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کررکھا ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب 35)۔
مندرجہ بالا خصوصیات ان مومنین کی بیان کی گئی ہیں جنہوں نے شعوری طور پر اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کے طور پر قبول کیا، اور نہ صرف قبول کیا بلکہ عملی طور پر بھی اسی کے مطابق زندگی بسر کی۔ دین خیر خواہی کا نام ہے اور دین کی اشاعت انہی لوگوں کے ہاتھوں ہوتی ہے جو کردار کے غازی ہوں، جو نرم مزاج، رحم دل اور اللہ کی رضا کی خاطر سب کچھ معاف کردینے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ورنہ اگر ایسے لوگ تند خو یا سخت مزاج ہوتے تو یہ سب ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ اور میں حیران ہوں کہ کیسے اللہ نے شہداد پور میں پیدا ہونے والے ایک بچے کے اندر یہ اوصاف پیدا کیے، اور کس طرح سے اس سے دین کی خدمات لے لیں۔ ٹک کر بیٹھنا تو عظیم بلوچ کو گوارا ہی نہیں تھا۔ اپنے لمحے لمحے کو اللہ اور اس کے دین کی سربلندی کے لیے وقف کردینا ہی ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ سندھ جماعت اسلامی کے رہنما تھے اور بادشاہ مزاج تھے۔ ویسا ہی رعب، ویسا ہی وقار، ویسا ہی انصاف، ویسی ہی ایمان داری۔ کیا چھوٹا کیا بڑا، سب ان کے گرویدہ تھے اور ان کے کام سے مطمئن۔
جب عظیم بھائی کی شہادت کی اطلاع ملی تو ایک دنیا تھی جو اس غم کو محسوس کررہی تھی۔ ٹھٹہ سے کشمور تک جمعیت اور جماعت کا ہر رکن اور کارکن خود کو یتیم محسوس کررہا تھا۔ ہر گھر میں ایک ایسی سوگواری تھی جیسے گھر کا کوئی فرد اس دنیا سے چل بسا۔ بے شک ایک تو یہ لا الٰہ کی طاقت تھی، دوسرے اللہ کی خاص رحمت کہ جن بندوں سے اللہ محبت کرتا ہے اُن کے لیے پھر وہ بڑی سعادتیں رکھتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اُس کے لیے زمین میں قبولیت رکھ دی جاتی ہے۔‘‘
’’بے شک جب اللہ عزوجل کسی بندے سے پیار کرتے ہیں تو جبریل علیہ السلام کو بلاتے ہیں کہ بے شک اللہ تعالیٰ فلاں کو پسند کرتے ہیں تُو بھی اس سے محبت کر۔ چنانچہ جبریل اس سے محبت کرنا شروع کردیتے ہیں، پھر جبریل علیہ السلام آسمان میں آواز لگاتے ہیں کہ یقینا رب تعالیٰ فلاں سے محبت کرتے ہیں تو تم بھی اس سے پیار کرو۔ چنانچہ آسمان والے اس سے محبت شروع کردیتے ہیں اور اہلِ زمین میں اُسے مقبول کردیا جاتا ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے، بندے سے محبت کرنے کے ثمرات میں سے یہ ہے کہ اسے زمین میں قبولیت مل جاتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی طرف مائل ہوجاتے ہیں اور اس سے خوش ہوتے ہیں۔ لوگ اس کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کی جہات روشن ہوجاتی ہیں اور ہدایت کے نور کے ساتھ اس کے میدان چمک اٹھتے ہیں اور اس پر محبت و اقبال کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں اور جمال و جلال اس کے لیے نشانی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ مخلوق اس کو محبت اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ’’یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جسے چاہتے ہیں عطا کرتے ہیں۔‘‘ اور ایسا ہی کچھ عظیم بلوچ کے ساتھ ہوا۔
اللہ نے زمین پر رہنے والی مخلوق کے دلوں میں ان کی اس قدر محبت ڈال دی کہ ہر دل اُن کے جانے سے بجھ سا گیا۔ اُن کی ایک نماز جنازہ کراچی میں نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی کی امامت میں ادا کی گئی، اور دوسری نمازِ جنازہ ان کے آبائی علاقے شہداد پور میں رات ساڑھے آٹھ بجے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق صاحب کی امامت میں دیگر شہید ساتھیوں کے ساتھ ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ سراج الحق صاحب نے عظیم بلوچ کی زندگی پر روشنی ڈالی، ان کے مشن کو سراہتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم ایک عظیم مجاہد سے محروم ہوگئے۔ وہ ہمارا مستقبل تھا۔ ان کے جانے سے جماعت اسلامی ’’عظیم بلوچ‘‘ سے نہیں ’’عظیم سالار‘‘ سے محروم ہوگئی۔‘‘
اپنی زندگی میں دین کی خدمت کرنے والے عظیم بلوچ نے شہادت سے ایک روز قبل اپنے فیس بک وال پر لکھا تھا ’’خدا کے راستے پر چڑھ آئے ہو تو تیز بھاگو، تیز بھاگنا مشکل ہے تو آہستہ بھاگ لو۔ تھک ہی گئے ہو تو چل لو، یہ بھی نہیں تو گھسٹ لو، مگر واپسی کا ہرگز مت سوچنا۔‘‘ کسے پتا تھا کہ وہ اس بھاگنے میں سبقت لے جائیں گے۔
۔13 اور 14جنوری کی راتیں جب ان کو یاد کرتے اور آنسو بہاتے گزریں تو 15 کی رات کو ہم سب اہلِ خانہ اس بات کا عہد کررہے تھے کہ عظیم بھائی کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور ان کے لیے صدقۂ جاریہ بنیں گے۔ یہ سب عزم کرتے اور انہیں یاد کرتے فجر ہوگئی۔ فجر پڑھ کر جب میں سونے لیٹی تو گہری نیند میں تھی جب کسی کی پکار سنائی دی:
’’عظیم بلوچ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے ہیں۔‘‘ پھر میں نے دیکھا ’’آسمان سے ہزاروں کی تعداد میں فرشتے صفیں باندھے ادب سے زمین میں اتر رہے ہیں۔ اتنے کہ زمین سے لے کر آسمان تک بس فرشتے ہی نظر آرہے ہیں اور وہ سب عظیم بلوچ اور شہید ساتھیوں کی نماز جنازہ میں شریک ہیں۔‘‘
یہ خواب اس قدر حوصلہ افزا تھا کہ اسی وقت میری آنکھ کھل گئی۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے بیٹے عدیل اور بیٹی ماہم کو یہ خواب سنائوں اور انہیں حوصلہ دوں کہ دیکھو میرے رب نے اپنے نیک بندوں کا کیا عمدہ استقبال کیا۔ صبح سب سے پہلے میں نے عدیل کو ہی فون کیا۔ وہ اس وقت بھی عظیم بلوچ کے آبائی علاقے شہداد پور کی طرف جارہا تھا۔ جب میں نے اسے یہ خواب سنایا تو جو ضبط وہ پچھلی تین راتوں سے کررہا تھا وہ ٹوٹ گیا اور وہ ہچکیوں سے رونے لگا۔ میرے پاس اسے دلاسا دینے کو کچھ نہیں تھا سوائے ان لفظوں کے کہ ’’بیٹا! حوصلہ کرو، اب تم ہی لوگوں کو دین کی سربلندی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔‘‘
اللہ پاک ہمیں بھی شہید عظیم بلوچ کی طرح دل و جان اور نیک نیتی کے ساتھ پورے خلوص اور ایمانداری سے دین کا کام کرنے والا بنائے اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا نصیب فرمائے۔
عظیم بلوچ ایک استعارہ ایک اشارہ
ہمت اور جدوجہدِ مسلسل کا کوہِ گراں
اپنی منزلِ مقصود کو پاگیااور سرخرو ٹھہرا
اپنے رب سے کیے گئے وعدے کو اس نے نبھایا اور کیا خوب نبھایا
ایک لمحے کو بھی کبھی تذبذب کا شکار نہ ہوا
نہ ہمت ہاری اور نہ دل چھوٹا کیا
جس کو ملتا گیا فتح کرتا گیا، دلوں میں جگہ بناتا گیا
آج بہت ساری آنکھوں کو نم کرتا ہوا
وہ منوں من مٹی کے نیچے جاسویا
جہاں سبھوں نے جانا ہے حساب اپنا چکانا ہے
اللہ تعالیٰ سبھی کو کامیاب و کامران کرے آمین۔!!

حصہ