بہادر سوار

476

ایمان نعمان
جیسے ہی اسے اطلاع ملی کہ اس کے بھائی کو دشمن نے قید کر لیا ہے وہ اچھل کر گھوڑے پر بیٹھا اور تیز دوڑاتا ہوا دشمن کے لشکر کے اندر گھس گیا اور بہت بہادری سے لڑا۔ اس جوان کو اس طرح لڑتے دیکھ کر اکثر مجاہدین یہ سمجھے کہ یہ ان کا سپر سالار خالد بن ولید ہیں۔
اتنا سنا کر دادا جان تھوڑی دیر کو رکے ہی تھے کہ اسماء، معیز اور ہاجرہ بول پڑے ’’آگے سنائے نا دادا جان‘‘۔ دادا جان مسکرائے اور بولے۔ ’’مجاہدین لشکر اس نوجوان کو خالد بن ولید سمجھ کر اس کے ساتھ بہادری سے آگے بڑھتے چلے گئے اور بالآخر دشمن پسپا ہو گئے۔ مجاہدین اور دشمن کے لشکر کی یہ غلط فہمی اس وقت تک دور نہیں ہوئی جب تک کہ انہوں نے لشکرِ سپہ سالار خالد بن ولیدؓ کو دیکھ نہ لیا۔ جب جنگ ختم ہوئی اور دشمن بھاگ کھڑے ہوئے تو اس نوجوان کو خالدبن ولیدؓ نے اپنے پاس بلایا اور چہرے سے نقاب ہٹانے کا کہا۔ پہلے تو نوجوان انکار کرتا رہا۔ لیکن اپنے سپہ سالار کے اصرار پر اپنے چہرے سے چادر ہٹا دی۔
’’آپ کو پتا ہے بچوں کہ یہ نوجوان کون تھا؟‘‘
تینوں بچے کہانی سننے میں انتے منہمک تھے کہ بولنے کے بجائے اپنی گردنیں انکار میں ہلا دیں۔ان کا تجسس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ دادا جان ان کا انہماک دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بولے۔
’’بچوں وہ نوجوان کوئی صحابی نہیں بلکہ ایک بہادر صحابیہ حضرت خولہ بنتِ الازورؓتھیں جو اپنے بھائی حضرت ضرار بن الازورؓکو دشمن سے چھڑانے کے لیے لشکر کے ایک دستے میں شامل ہو گئیں اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے لشکر میں گھس کر بے جگری سے لڑیں اور اپنے بھائی کو دشمن کے چنگل سے چھرانے میں کامیاب ہو گئیں۔
اسماء، معیز اور ہاجرہ جو بہت غور سے کہانی سن رہے تھے بولے۔ ’’دادا جان وہ صحابیہ اتنی بہادر تھیں؟‘‘
’’ہاں بچوں وہ بہت بہادر تھیں‘‘ دادا جان بولے۔
’’ہمیں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے نادادا جان؟‘‘
معیز جوش سے بولا۔
’’ہاں کیوں نہیں میرے بچوں ہمیں اپنے صحابہ کرام اور صحابیات کی سیرت سے سیکھنا چاہیے اور زندگی کے تمام مراحل کو بہادری اور عقل مندی سے حل کرنا چاہیے اور گھبراہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیے کیونکہ گھبرائے رونے یا پریشان ہونے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ اور مشکل ہو جاتے ہیں۔ کیوں ٹھیک ہے نا میرے بچوں؟‘‘
سارے بچوں نے خوشی سے سر ہلایا اور بولے ۔
’’جی ہاں ! دادا جان بالکل ٹھیک ہے‘‘۔

حصہ