بندر کے ہاتھ

1878

محاورے کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ محاورے دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان کے “فارمولے” کہلائے جا سکتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مگر مجھے حیرت ہے کہ اردو میں جانوروں کے حوالے سے بہت زیادہ محاورے مستعمل ہیں اس کی وجہ سمجھ میں نہیں آئی ، شائد ماہرین لسانیات اس پر ہماری مدد فرمائیں ، مگر وہ کیوں مدد فرمائیں ، انہیں اپنی نبیڑنی مشکل ہے ، اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند مشہور محاورے درج ذیل ہیں قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔ کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔ اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔
اپنے منہ میاں مٹھو۔ دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا۔مگرمچھ کے آنسو۔ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا۔ گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر۔ کتّے کی دم بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلی۔اونٹ کے منہ میں زیرہ۔ بات کا چوکا آدمی، ڈال کا چوکا بندر۔ بچھو کا منتر جانتے نہیں، سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے چلے۔ بندر کیا جانے ادرک کا سواد جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ آ بیل مجھے مار، جس کا بندر وہی نچائے ، بندر کے ہاتھ میں ناریل، آ بیل مجھے مار وغیرہ وغیرہ اب آپ اندازہ لگائیں کہ ہماری زبان میں کتنی وسعت گہرائی اور پوشیدہ رموز ہیں کہ اپنی زبان سے پیار ہونے لگا ہے ۔
پہلے یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی اردو محاوروں میں جانوروں سے کیوں مدد لی گئی ہے مگر جب سے خان صاحب کی حکومت اور گڈ ( گود ) گورنس بھگت رہے ہیں اردو کے رمز و اسرار سمجھ آنے لگے ہیں ، یوں ہی تو نہیں ہے دھوم ہماری اردو کی سارے جہان میں !
بھائی جب حکومت چلانے میں جانوروں سے مدد لی جارہی ہے تو اردو زبان کو مقبول بنانے میں جانوروں کے استعمال پر آپ معترض کیوں ہورہے ہیں –
اب دیکھیں نہ کہ عوام کی دکھتی رگ پر ہمارے وزیر اعظم کی کتنی گہری نگاہ ہے ، جہاں دیکھا کہ عوام کو مہنگائی نے مارنا شروع کردیا ہے فوری بیان آگیا کہ میری تنخواہ میں میرا گزارہ بہت مشکل ہے – اور یہ کہ اگر گندم نہیں مل رہی ہے تو متبادل اجناس استعمال کریں ( جیسا کہ میں کرتا ہوں – یہ جملہ دل ہی دل میں کہا )
ہما رے ہینڈ سم وزیر اعظم کی مقبولیت میں ورلڈ کپ جیتنے کا کمال تو شامل تھا ہی مگر خان کے نو رتنوں کا بھی بہت بڑا کردار ہے ، ‘ خان آئے گی ، دو سو ارب ایم ایف کے منہ پر مارے گی ‘ فیم مراد سعید خان ، وزیر داخلہ و منشیات معاف کیجئے گا انسداد لکھنا قصداً رہ گیا تھا ، شہر یار آفریدی ، اور مشیر خاص برائے اطلاعات محترمہ فردوس عاشق ہوں صاحبہ ، اللہ کو حاضر و ناظر جان کر جواب دینے والے اداکار ، اور بیشمار دیگر وزراء کی فوج ظفر موج کا خان صاحب کی روز افزوں بڑھتی ہوئی نیک نامی میں پورا پورا عمل دخل موجود ہے ، کسی کا کم تو کسی کا بہت زیادہ ، نعیم الحق کی تو کیا ہی بات ہے ، پہلے کچھ بات کرتے ہیں چھوٹے رتن کی ، میری مراد ہے ، مراد امریش پوری سے ، اردو کے محاورے میں تھوڑی سی تحریف کے بعد چھوٹے میا ں تو چھوٹے میاں ، بڑے میاں سبحان اللہ ! ان کے والد بزرگوار کے بارے میں نجی چینل نے خبر چلادی کہ ان کو اعلی تعلیم کے حصول سے روک دیا گیا ہے ، تفصیل اس واقعے کی یہ تھی کہ والد بزرگوار بیٹے کی کم علمی کو پورا کرنے آسٹریلیا کے ائر پورٹ پر تعلیمی ویزے پر پہنچے مگر دستاویزات میں کم علمی کی وجہ سے تعلیمی سرٹیفکیٹ رکھنا بھول گئے ، آسٹریلوی امیگریشن والوں کو کیا معلوم تھا کہ یہ کتنے بڑے ہیں فوراً دھر لیا اور لگے ڈی پورٹ کرنے ، خبر چلادی گئی کہ گرفتار کرلیا ہے ! حالانکہ ہمارے مذھب میں اعلی تعلیم کے لئے چین جانے تک کا حکم موجود ہے ۔ والد کے منہ سے بعد از نسوار جو نکلا وہ بد بددعا تھی ، کہنے والے کہتے ہیں کہ آسٹرلیا کے جنگلات میں جو گھناؤنی آگ لگی ہے وہ اسی بد بددعا کی برکت سے ہے ۔ واللہ اعلم !
ایک زمانہ تھا کہ پیارے سے اداکار فردوس جمال کے ڈرامے دیکھا کرتے تھے ، مگر جب سے فردوس عاشق ہوں نے کابینہ میں قدم رنجہ فرمایا ہے سچ پوچھیں تو کسی اور کے ڈرامے میں مزہ نہیں آتا ، حا لیہ ڈرامہ جو موصوفہ کا آن ائیر ہوا اس میں آپ کسی سماجی تنظیم کو تھیلیسیمیا کے لئے خون عطیہ کر رہی ہیں ، ویڈیو میں سنا جاسکتا ہے کہ وہاں موجود لوگ، ایک دوسرے سے ویڈیو نہ بنانے کی تلقین بھی کر رہے ہیں۔ یہ وڈیو بھی دشمنوں نے سوشل میڈیا پر وائرل کردی( خواتین کا ذرا بھی خیال نہیں ) فردوس عاشق اعوان نے ایک دن بعد کہا کہ یہ ویڈیو انہوں نے وہاں موجود لوگوں کے اصرار پر بنوائی۔معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق کا بیان درست مان لیا جائے تب بھی کسی اچھے کام کی غرض سے خون عطیہ کرنے کا ڈرامہ کرنا کسی طور درست قرار نہیں دیا جاسکتا۔
اب دیکھیں وزیر منشیات کو جن کی قران پاک پر قسم کھاکر رانا ثنا اللہ کو گرفتار کروانے کی وڈیو نے تہلکہ مچایا ، اتنی ہی تیزی کے ساتھ ان کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہوا ، اخبارات کی خبر ہے کہ ان کے بھتیجے کو منشیات رکھنے کے جرم میں گرفتار کر کے اڈیالہ جیل بجھواد یا گیا ہے ۔
اللہ کو حاضر و نا ظر جا ن کر اللہ کو ہی جواب دینے والے ایک اور رتن بھی ہیں جن سے جب ایک سال کی حکومتی کارکردگی پوچھی جائے تو کہتے ہیں کہ میں صرف اللہ کو جواب دار ہوں !
لکھنے والے نے لکھا کہ عمران خان کا دفاع کرنا ایسا ہی ہے جیسے کہ وڈیو گیم ، ہر مرحلے کے بعد اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ دشوار ہوجاتا ہے ۔
بھر حال باتیں چلتی رہیں گی ۔
تبدیلی کے سراب میں آکر قوم جو کچھ بھگت رہی ہے اس کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا ، پہلے گندم کی شارٹیج کروا کر پیسے بڑھانا ، افغانستان سستے داموں بھیجنا اور دو گنا رقم دیکر پاکستان واپس منگوانا ، یہ سب خان کے سنہرے دور میں ہی ممکن ہے ۔
کالم نگار جاوید چودھری نے لکھا ہے کہ پاکستان میں گندم کی فی ٹن قیمت تین سو دس ڈالر ہے جبکہ یہی گندم عالمی مارکیٹ میں ایک سو نوے ڈالر فی ٹن ہے ، جبکہ ان ممالک میں سال کے آٹھ مہینے سخت سردی پڑتی ہے ، مگر جاوید چودھری لکھنا بھول گئے کہ پاکستان میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار بہرحال ہم نے جانوروں کے حوالے سے اردو زبان کی وسعت اور گہرائی سب آپ کے سامنے کھول کر بیان کردی ہے ، باقی حکومت کی ایک سالہ کی کارکردگی پر میں کیوں اپنی زبان گندی کروں ، حکومت کے ایک ایک رتن کو اٹھا ئیں اور اپنے پسندیدہ اردو محاورے کو اس کے نام اور کارکردگی کے خانے میں لکھتے چلے جائیں ، کچھ ہو نہ ہو یہ تو ہوگا کہ ہماری طرح آپ کے دل کا غبار بھی نکل جائے گا ۔ خیتیار جیسے رتن موجود ہیں۔

حصہ