ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کا 38 واں سالانہ ظہرانہ اور مشاعرہ

609

نثار احمد نثار
گزشتہ اتوار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کی رہائش گاہ پر 38 واں سالانہ یک جہتی ظہرانہ‘ مذاکرہ اور مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ ہم اسے ’’بڑے پائے کا مشاعرہ‘‘ بھی کہتے ہیں کیوں کہ اس پروگرام میں 37 برسوں سے بڑے پائے کی ڈش مہمانوں کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے امسال سال بھی یہ اہتمام تھا اس کے ساتھ ساتھ گاجر کا حلوہ‘ کینو اور سبزی کی ڈش بھی دستر خوان کی زینت تھی۔ ان کے یہاں جو پائے پکائے جاتے ہیں وہ بہت عمدہ ہوتے ہیں جو بھی اس دعوت سے مستفیض ہوتا ہے وہ سارا سال اس دعوت کا انتظار کرتا ہے لیکن معین قریش ہر مرتبہ مہمانوں اور شعرا کی فہرست میں ردوبدل کرتے رہے ہیں اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ راقم الحروف نثار احمد نثار نے 12 جنوری 2020 کے سالانہ یک جہتی پروگرام میں شرکت کی جس کی مجلس صدارت میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر‘ سردار یاسین ملک‘ عبدالحسیب خان شامل تھے جب کہ مہتاب اکبر راشدی مہمان خصوصی تھیں۔ مشاعرے کی صدارت انور شعور نے کی۔ سلیم فوز نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حسن زیب نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی اور بشیر احمد بھٹی نے اپنی تحریر کردہ نعت رسولؐ ترنم سے پیش کی۔ بھٹی صاحب اس پروگرام میں شرکت کے لیے ہر سال کینیڈا سے تشریف لاتے ہیں اور پروگرام کے بنائو سنگھار میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم بھی ان کے حُسن انتظام سے بہت متاثر ہوئے۔ بہرحال پروگرام پانچ مرحلوں پر مشتمل تھا جس کے پہلے دور میں انور شعور‘ پروفیسر سحر انصاری‘ رفیع الدین راز‘ راشد نور‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ سلیم فوز‘ نسیم نازش‘ ریحانہ روحی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ عنبرین حسیب عنبر‘ شاعر علی شاعر‘ روبینہ تحسین بینا‘ سید فیصل سعود‘ ڈاکٹر محمد اعظم‘ مہر گل عدیل‘ قادر بخش سومرو اور سلیم قریشی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے میں سامعین نے ہر عمدہ شعر پر بھرپور داد دی یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس تقریب میں کراچی کی بہت سی اہم شخصیات موجود تھیں کہ زندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی ہو رہی تھی پروگرام اعلان شدہ وقت پر شروع کیا گیا جو کہ قابل تحسین ہے۔ تقریب کے دوسرے مرحلے میں عالمی اردو تنظیم کینیڈا کے پلیٹ فام سے تنظیم ہذا کے صدر بشیر احمد بھٹی نے معروف محقق‘ نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر غازی علیم الدین کی خدمت میں پچاس ہزار روپے کے علاوہ توصیفی سند بھی پیش کی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل یہ اعزازات انور شعور‘ دائود عثمانی اور پروفیسر یونس علوی کو بھی دیے جا چکے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے اپنے حالیہ دورۂ مراکش کے تجربات اہل محفل سے شیئر کیا۔ انہوں نے کہا سالانہ یک جہتی ظہرانہ پروگرام 1982ء میں شروع کیا تھا اور ہر سلسلہ تواتر کی ساتھ جاری ہے۔ تقریب کے تمام انتظامات طے شدہ ہوتے ہیں اگر کوئی تبدیلی ہوتی ہے تو وہ شعرائے کرام کے انتخاب میں کرتا ہوں۔ حسب روایت انہوں نے ان مہمانوں کا تعارف کرایا جو کہ اس تقریب میں پہلی بار شریک ہوئے ہیں یہ سارے مہمان اپنی اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں تاہم حیدر علی راجپوت ہالہ سندھ سے آئے تھے جو کہ سیکنڈری اسکول کے ہیڈ ماسٹر اور معین قریشی کے شاگرد ہیں۔ یہ استاذی اور شاگردی کا سلسلہ اس وقت قائم ہوا تھا جب معین قریشی نے اردو مراسلت کورس کی کلاسز لی تھیں اور گورنمنٹ کے بہت سے اداروں کے ملازمین کو اردو میں سرکاری خط و کتابت کے طور طریقے سکھائے تھے۔ پروگرام کے تیسرے دور میں مذاکرے کا آغاز ہوا‘ جس کا موضوع تھا ’’قومی یک جہتی‘‘ اس موضوع پر عبدالحسیب خان نے اپنے دو قطعات سنا کر خوب داد وصول کی ان قطعات میں انہوں نے پاکستانیوں کو قومی یک جہتی کا درس دیتے ہوئے کہا کہ ’’اتحاد بین المسلمین‘‘ اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ سردار یاسین ملک نے کہا کہ عدالتی فیصلے کے باوجود بھی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ نہیں مل رہا۔ اردو کے نفاذ میں جو بھی رکاوٹیں ہیں انہیں دور کرنے کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا پڑے گا ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں سے اردو میں بات چیت کریں تاہم معاشی ضروریات اور نظریات کے تحت انگریزی سیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ وہ گزشتہ پندرہ سال سے ڈاکٹر معین قریشی کی دعوتِ شیراز میں آرہے ہیں یہاں بے شمار علم دوست شخصیات سے ملاقات ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے اشعار بھی سننے کو ملتے ہیں کا سارا سہرا ڈاکٹر معین قریشی کو جاتا ہے کہ یہ مختلف ممالک اور مختلف شہروں کے نمائندہ افراد سے اپنی محفل سجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم لوگ مختلف قسم کے طبقات میں تقسیم در تقسیم ہونے کی وجہ سے بہت سے مسائل کا شکار ہیں‘ ہمارے دشمن ہمارا نام و نشان مٹانے کے درپے ہیں‘ ہمیں اپنے روّیوں کو بدلنا ہوگا اور یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کو قدرت نے بے شمار قدرتی وسائل عطا کیے ہیں ہم انہیں صحیح خطوط پر استعمال کرکے ترقی کر سکتے ہیں۔ پروگرام کے اختتام سے قبل حیدر علی راجپوت نے تمام شرکا کو اجرک پیش کی اور قریشی انٹر پرائز کی جانب سے بھی گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی تمام شرکا محفل کو تحفے تحائف پیش کیے گئے۔ تقریب کے مہمان اعزازی گورنمنٹ ڈاگری کالج میرپور آزاد کشمیر کے ریٹائرڈ پروفیسر غازی علیم الدین نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان دنوں ڈاکٹر معین قریشی کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں ان کے اہل خانہ نے میری بہت خدمت کی ہے‘ میں ان کی مہمان نوازی کا مقروض ہوں‘ مجھے اس محفل میں آکر بہت خوش ہو رہی ہے میں یہاں سے محبتیں سمیٹ کر لے جارہا ہوں‘ مجھے جس ایورڈ سے نوازا گیا ہے میں اس پر عالمی اردو تنظیم کا ممنون و مشکور ہوں۔ بشیر احمد بھٹی نے کہا کہ وہ ادب کی خدمت گزار ہیں‘ ڈاکٹر معین قریشی کی شفقت و محبت مجھے ہر سال اس دعوت میں شرکت کی تحریک دیتی ہے۔ میں کینیڈا میں رہتا ہوں لیکن میرا دل پاکستانیوں کے ساتھ ساتھ دھڑکتا ہے‘ میں ڈاکٹر معین قریشی کو شان دار پروگرام کے انعقاد پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ہوں کہ میں ان کے ساتھ ہوں یہ ایک قابل انسان ہیں میں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت‘ شہرت اور صحت عطا فرمائے۔

ادبی تنظیم دراک کی 109 ویں تنقیدی نشست اور مشاعرہ

گزشتہ ہفتے ادبی تنظیم دراک کی 109 ویں تنقیدی نشست اور مشاعرہ میٹرو پولیس گرلز کالج فیڈرل بی ایریا کراچی میں منعقد ہوئی جس کی صدارت سینئر افسانہ نگار نورالہدیٰ سید نے کی۔ عباس رضوی مہمان خصوصی اور راقم الحروف نثار احمد مہمان اعزازی تھے۔ سلمان صدیقی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تین مرحلوں پر مشتمل اس پروگرام کے پہلے حصے میں رحمن نشاط کا تحریر کردہ افسانہ ’’پہلا انعام‘‘ تخلیق کار کے نام کا اعلان کیے بغیر ناظم تقریب نے سنایا اور حاضرین محفل میں کاپیاں تقسیم کیں۔ افسانے پر گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے حجاب عباسی نے کہا کہ میرا خیال تھا کہ اس افسانے میں تیسری جنس کا ذکر ہوگا مگر ایسا نہ ہوا یہ عجیب طرز کا افسانہ ہے‘ چودھری کا حکم تھا کہ گائوں میں بیٹی پیدا نہ ہو‘ اگر پیدا ہو جائے تو والدین اس کو مار دیں اور چودھری سے ایک لاکھ روپے انعام حاصل کرلیں۔ کشور عدیل جعفری نے کہا کہ افسانہ اچھا ہے مگر ہونا یہ چاہیے تھا کہ چودھری اپنے گھر میں بیٹی پیدا ہونے پر اپنا حکم واپس لے لیتا۔ احمد سعید فیض آبادی نے کہا کہ یہ جدید افسانہ ہے چودھری اور اس کا ملازم کرمو جیسے کردار معاشرے میں موجود ہیں‘ ہم ابھی تک ایسے کرداروں کے حصار سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ شمس الغنی کے خیال میں اس افسانے میں اختصار سے کام لیا گیا ہے‘ یہ ایک Short Story ہے۔ افسانے کا موضوع بہت پرانا ہے اس افسانے کا انجام پہلے ہی سمجھ میں آگیا تھا۔ صفدر علی انشاء نے رائے دی کہ افسانہ بہت اچھا نہیں ہے۔ چودھرائن نے ایک بیٹی کو جنم دے کر چودھری کے حکم و قانون کی خلاف ورزی کی جس پر چودھری نے کرمو کو حکم دیا کہ چودھرائن کو ایک لاکھ روپے دیا جائے گا جب کہ چودھرائن کی نظر میں ا یک لاکھ کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ افسانے میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔ خالد میر نے کہا کہ تخلیق اولاد کی طرح ہوتی ہے لہٰذا یہ افسانہ تخلیق کار کا پسندیدہ ہے جب کہ یہ ایک عام سا افسانہ ہے جس میں دو ثقافتوں کو اجاگر کیا گیا ہے لیکن بات نہیں بنی افسانے کا کلائمکس بھی غیر متوقع ہے۔ زاہد حسین نے کہا کہ افسانے کا موضوع بظاہر وہی ہے جو کہ اس کی سطح پر تیر رہا ہے مگر آخری سطریں افسانے کے موضوع کا تعین کر رہی ہیں۔ اس افسانے میں جو منظر ترتیب دیا گیا ہے وہ بعیداز قیاس ہے۔ اکہرا افسانہ ہے بیان میں حسن نہیں ہے۔ احمد سلیم صدیقی کی رائے تھی کہ اس افسانے میں بہت پرانا زمانہ اور نیا زمانہ دکھایا گیا ہے جس کے تضاد سے افسانے کا حُسن مجروح ہوا ہے۔ مہمانِ اعزازی راقم الحروف نے کہا کہ اس افسانے میں جس معاشرتی مسئلے کا ذکر ہے وہ وڈیرہ شاہی یا زمیندارانہ نظام اس وقت بھی ہمارے ملک کے بیشتر گائوں‘ دیہات کا مزاج یہی ہے کہ چودھری جو فیصلہ کرتا ہے وہ سب کو منظور ہوتا ہے۔ مہمان خصوصی عباس رضوی نے رائے دی کہ اس افسانے کی بُنت کمزور ہے یہ ایک غیر متاثر کن بیانیہ ہے اب گائوںٍ والوں کے لیے ایک لاکھ روپے کی رقم گننا کوئی بڑی بات نہیں رہی دوسری بات یہ ہے کہ افسانے میں تیسری جنس کا ذکر آنا ہی نہیں چاہیے تھا کہ اس سے افسانے کا موضوع مجروح ہوا مگر افسانے کا انجام اچھا ہے۔ صدر محفل نورالہدیٰ سید نے کہا کہ افسانہ اچھا ہے ایسے افسانے لکھے جانے چاہئیں مگر موضوع کا تنوع کا ضرور خیال رکھا جائے۔ افسانے کا اسکوپ چھوٹا ہے Unity of Place موجود ہے۔ اختتام ایک جملے کی خوب صورتی ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے حصے میں کشور عدیل کی غزل بغیر شاعر کا نام بتائے اختر سعیدی نے پڑھی۔ اس پر گفتگو کرتے ہوئے احمد سعید فیض آبادی نے کہا کہ آج کل جو غزل لکھی جارہی ہے یہ غزل اس دور کا منظر پیش نہیں کر رہی۔ صفدر علی انشا نے کہا کہ اچھی غزل ہے‘ پختگی ہے اور کوئی عیب نظر نہیںآرہا۔ شمس الغنی کے خیال میں قافیہ مشکل ہے جس کو نبھانے کے چکر میں مضمون کمزور ہو گیا۔ شہزاد سلطانی نے کہا کہ بہت اچھی غزل ہے۔ خالد میر نے کہا کہ تراکیب اچھی ہیں لیکن چونکا دینے والا کوئی شعر نہیں ہے۔ اختر رضا کا خیال تھا کہ یہ ایک روایتی غزل ہے تاہم بیانیہ مضبوط ہے۔ زاہد حسین نے اس غزل کے مطلع اور آخری شعر کو نعت کا شعر قرر دیا۔ ردیف ’’عکس‘‘ میں بڑی جان تھی لیکن اسے پتھریلی ردیف کے طور پر برتا گیا۔ قوافی کے عمدہ پہلوئوں کو خوبی سے تراشا نہیں گیا اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ رحمن نشاط نے کہا کہ اس کے بعض شعروں میں شاعر نے اپنا حال بیان کیا ہے۔ غزل خوب صورت ہے۔ حجاب عباسی نے غزل کو عمدہ قرار دیا۔ راقم الحروف نے کہا کہ یہ ایک موڈ کی غزل ہے۔ عباس رضوی نے غزل کے آخر ی شعر کے مصرع ثانی کو خارج از بحر قرار دیا۔ اس میں عجر بیان اور غرابت بیان دونوں ہیں‘ غزل کی کرافٹنگ کا شکار ہے کوئی شعر بھی والہانہ پن کا حامل نہیں ہے قافیے کو ردیف سے نتھی کرنے کی کوشش میں الفاظ کے معنی مجروح ہوگئے ہیں‘ یہ کمزور غزل ہے۔ صاحب صدر نے کہا کہ یہ ایک درمیانی درجے کی غزل ہے اس میں بہتری کی گنجائش ہے۔ اس دور کے بعد شعری نشست ہوئی جس میں عباس رضوی‘ راقم الحروف نثار احمد‘ احمد سعید فیض آبادی‘ زاہد حسین‘ شمس الغنی‘ سلمان صدیقی‘ خالد میر‘ صفدر علی انشا‘ حجاب عباسی‘ کشور عدیل جعفری‘ درپن مراد آبادی‘ اختر رضا‘ خالد احمد سید اور شائق شہاب نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔ سلیمان صدیقی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ اب تنقیدی نشستوں کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے تاہم دراک نے اس روایت کو زندہ رکھا ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم نئے لکھنے والوں کو سامنے لائیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب افسانے کے مقابلے میں شاعری بہت تیز رفتار ہے لیکن ابھی افسانے لکھا جارہا ہے ہمیں اردو ادب کے فروغ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہے اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔

بزمِ نگار ادب پاکستان کاطرحی مشاعرہ

۔10 جنوری بروز جمعہ بزم نگار ادب پاکستان کا تیسرا طرحی مشاعرہ محسن اعظم ملیح آبادی کی صدارت میں شائق شہاب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس میں رونق حیات اور آصف رضا رضوی مہمانان خصوصی تھے۔ فیروز ناطق خسرو اور فیاض علی فیاض مہمانان اعزازی تھے‘ طاہرہ سلیم سوز اور حامد علی سید مہمانان توقیری تھے۔ واحد رازی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور نعت رسولؐ بھی پیش کیا جب کہ وسیم احسن نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ شعرائے کرام کو پروگرام سے دس دن قبل داغ دہلوی کی غزل کا مصرع ’’ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں‘‘ دیا گیا جس پر 48 شعرا نے طبع آزمائی کی جس میں سے محسن اعظم ملیح آبادی‘ رونق حیات‘ آصف رضا رضوی‘ فیروز ناطق خسرو‘ فیاض علی فیاض‘ حامد علی سید‘ طاہرہ سلیم سوز‘ عبدالمجید محور‘ جمیل ادیب سید‘ نظر فاطمی‘ سعد الدین سعد‘ نورالدین نور‘ فخر اللہ شاد‘ وقار زیدی‘ نعیم انصاری‘ افضل ہزاروی‘ ضیا زیدی‘ شجاع الزماں خاں‘فرخ جعفری‘ شارق رشید‘ یاسر سعید صدیقی‘ واحد رازی‘ چاند علی‘ وسیم احسن‘ شائق شہاب‘ خضر حیات‘ کاشف علی ہاشمی‘ عارف شیخ‘ حنیف عابد‘ عمران علی اور سخاوت نے طرحی کلام پیش کیا جب کہ اختر سعیدی‘ اختر امام انجم (انڈیا)‘ انجم عثمان‘ ریحانہ احسان‘ نسیم شیخ‘ زیب النساء زیبی‘ ایم کلیم (دبئی) باوجوہ شریک نہ ہوسکے لیکن اپنا طرحی کلام فیس بک شیئر کیا۔ گویا انہوں نے غائبانہ شرکت کی۔ بزم نگار ادب پاکستان کے روح رواں سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ آج کے سرد ترین موسم میں 42 شعرا کی شرکت سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آج کا مشاعرہ کامیاب ہے۔ ہماری تنظیم کے منشور میں یہ بات شامل ہے کہ ہم بلا تفریق رنگ و نسل اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے سرگرم عمل رہیں میں اپنے ساتھیوں کی معاونت و مشاورت سے پروگرام ترتیب دیتا ہوں ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہر طبقۂ فکر کے شعرا کودعوتِ کلام دی جائے ہم نے بعنوان یادرفتگاں کئی شاندار پروگرام منعقد کیے اور نعتیہ مشاعروں کے علاوہ ہم ہر سال محفل مسالمہ کا اہتمام بھی کرتے ہیں امید ہے کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ رونق حیات نے کہا کہ مصرع طرح پر شعر کہنے کی روایت اب رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے۔ طرحی مشاعروں کی بحالی میں ہم نگارِ ادب پاکستان کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ یہ تنظیم سخاوت علی نادر کی سربراہی میں قابل ستائش ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ لوگ شعرا کو تعریفی اسناد اور شیلڈز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کتابوں کی تقریب اجرا بھی ترتیب دیتے ہیں‘ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کے ہاتھ مضبوط کریں۔ محسن اعظم ملیح آبادی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج ہر شاعر نے اچھا کلام پیش کیا یہ ایک یادگار مشاعرہ ہے جس کا کریڈٹ نگارِ ادب پاکستان کو جاتا ہے کہ جنہوں نے نہایت عمدہ پروگرام ترتیب دیا میں انہیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سخاوت علی نادر ایک اچھے منتظم اور اچھے شاعر ہیں۔ اس موقع پر نگارِ ادب پاکستان کی جانب سے معروف شاعر‘ صحافی حنیف عابد اور معروف شاعر وقار زیدی کو نگارِ ادب ایوارڈ سے نوازا گیا ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ ہر مشاعرے میں دو شعرا کو نگار ادبی ایوارڈ پیش کیا جائے گا۔

حصہ