مونگ پھلی کا شکوہ

320

سید وزیر علی قاددری
کئی روز سے سردی اپنا وہ رنگ دکھا رہی تھی جو اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔اس بلا کی سردی میں میرا جی چاہا کہ موسم سرما کی ایک سستی سی سوغات سے فائدہ اٹھایا جائے چنانچہ ایک ٹھیلے والے سے ایک پاؤ مونگ پھلی خرید لی۔ سستی تو کیا ملی اچھا ہی ہوا سستی مارے یعنی کاہلی کی وجہ سے پہلے نہیں لی۔مونگ پھلی لے تو لی لیکن اس کو چھیلنے میں جو وقت صرف ہوا وہ بیان سے باہر ہے جیسے قوم واٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے سحر میں آپے سے باہر ہے۔میں مونگ پھلی چھیلتا جاتا اور موبائل فون کی طرف دیکھتا جاتا اتھوڑی دیر میں کوفت ہونی شروع ہوگئی وجہ یہ تھی کہ اتنی دیر جاگتے صاحب بہادر کو چھوا نہ ہو کبھی ایسا ہوا نہیں اور مونگ پھلی چھیلتے چھیلتے بوریت میں اضافہ ہوگیا۔اب رہا نہیں گیا اور مونگ پھلی کی تھیلی کو ایک طرف رکھ دیا۔ اور اپنی جان کو دوبارہ اپنے سے قریب کرلیا۔
یہ تو سازش ہے بے ساختہ منہ سے نکلا اور بیگم کی آواز آئی اللہ قسم میں نے کچھ نہیں کیا۔انہوں نے کیا کرنا تھا ایک دوست نے پوسٹ کی ہوئی تھی واٹس ایپ پرجس کا موضوع یا عنوان تھا’’مونگ پھلی کا شکوہ‘‘میں پڑھتا جارہا تھا اور بار بار نظر تھیلی پر پڑتی جارہی تھی ایک جملہ پڑھوں پھر مونگ پھلی کی تھیلی پر نظر جائے ایسا لگ رہا تھا کہ موبائل پر واٹس ایپ پر نہیں قریب رکھی تھیلی سے آواز آرہی ہے۔ سوچا بند کردوں پھر خیال آیا کہ حقیقت سے منہ چرانا ایسا ہی ہے جیسے خرگوش آنکھیں بند کر لے تو بلی اپنا شکار نہی چھوڑتی۔تحریر کیا تھی پورے وجود کو ہلادیا۔
مختصر یہ کہ اس کا کہنا یہ تھا کہ جب تک یہ جھنجھنا نہیں تھا کیسے ٹن ٹن کی آواز آتے ہی ننگے پیر گھر سے باہر اندھیرے میں نکل کر لپکتے تھے جب گلی میں ٹھیلے پر مونگ پھلی والا آواز لگاتا ہوا گزرتا تھا سخت سردی میں لالٹین جلائے ہلکی راکھ والی آگ پر مونگ پھلی بھونتا تھا اور تم لے کر بہن بھائی رضائی میں گھس کر ہاتھ باہر نکال کر مجھے چھیلتے تھے اور باتیں بھی کیے جاتے تھے خوب باتیں کرتے اور جبن مننا تو نیند کا پکا تھا کھاتے کھاتے ہی سو جاتا تھا اور ابا کہتے دانت صاف کیے بغیر مت سونا دانتوں میں کیڑے لگ جاتے ہیں اور گرم گرم مونگ پھلی کھا کر قسم کھالو مٹھاس میں اماں کی ڈانٹ نہ کھائی ہو اور وہ مامتا گرم پانی کرکے لوٹے میں بھرتی کہ چلو اس سے کلی کرلو اور تم پھر بھی نہ اٹھتے۔ تمہیں جو چیز اٹھنے پر مجبور کرتی وہ ابا کی دھمکی تھی کہ کل سے مونگ پھلی نہیں ملے گی اور اماں کا لاڈ کہ نہیں بچے ہیں میں ان کو کلی کرادیتی ہوں اور پھر تم ایک ایک کرکے بہن بھائی اٹھ کر کلی کرتے۔ سردی کے موسم میں یہ ہر گھر کی کہانی تھی۔
لکھی سطور کیا تھیں پورا موبائل ٹپ ٹپ آنسوئوں سے بھیگ چکا تھا اور ہوش بھی نہ رہا کہ گھر والی بھی پاس بیٹھے ایسا رو رہی تھی کہ جیسے نوحہ پڑھ رہا ہوں تب تھیلی سے آواز آئی کہ پلٹ اسی دور میں جب یہ آنسو خوشی کے ہوتے تھے اور یہ آواز تھی مونگ پھلی کی جو دل پہ جاکے لگی اور آنکھ لگ گئی۔

حصہ