جو صدا دبے گی تو حشر ہوگا

348

صبیحہ اقبال
امریکا عالمی امن کے لیے کبھی عراق پر چڑھ دوڑتاہے تو کبھی افغانستان کو تورا بورا بنا دیتا ہے‘ کبھی ایران کو آنکھیں دکھاتا ہے تو کبھی شمالی کوریا کی سرزنش کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں قیام امن کے لیے پاکستان پر مسلسل دبائو رکھتا ہے۔ لیکن اسے کشمیر میں نہ بدامنی کی صورت نظر آتی ہے اور نہ اس کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ حیرت ہے اس کے اشاروں پر رقص کناں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر استصوابِ رائے کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنانے کی کوئی امریکی کوشش دور دور تک نظر نہیں آتی۔ ایسا اس لیے ہے کہ عالمی طاقتوں کی لونڈی اقوام متحدہ اپنے آقائوں کی مسلم خون آسام فطرت سے واقف ہے اور وہ ان کی پیاس کے مطابق خونِ مسلم فراہم کرنے میں مصروفِ کار ہے ورنہ دارافور‘ مشرقی تیمور‘ سوڈان کی تقسیم کے مسائل اسی اقوام متحدہ نے تیزی سے پایۂ تکمیل کو پہنچائے ہیں اور اب یہ خون آشامی عرب امارات تک کو اپنے پنجۂ استبداد میں لیتی نظر آرہی ہے‘ الٰہی خیر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا قدرتی حلیف بھارت جس نے اقلیتوں ہی کا نہیں بلکہ اپنے ہم مذہب دلتوں کے ساتھ بھی مجرمانہ سلوک اختیار کرکے دنیا کے امن کو اجاڑ رکھا ہے‘ اسے نظر نہیں آتا اور امریکی صدر اپنے انتخابی منشور کو نبھاتا نظر آتا ہے کہ ’’اگر وہ امریکا کا صدر بنا تو انڈیا اس کا بہترین دوست ہوگا۔‘‘ حالانکہ عقل مند کہتے ہیں کہ دوست وہ اچھا جو تجھے برائی سے روکے لیکن یہاں تو برائی ہی تو اچھائی بن کر نظر آرہی ہے جب ہی تو عرب امارات‘ دبئی اور فرانس نے نریندر مودی جیسے موذی کو اعزازات سے نواز کر خونِ مسلم سے غداری کا ثبوت دیا ہی۔
ایسے میں اقوام متحدہ سے استصواب کرانے کی توقع عبث ہے کیوں کہ وہ جن عالمی طاقتوں کی باندی ہے وہ اسے فنڈز مہیا کرے کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیاں بھی پکڑا دیتے ہیں یوں وہ عالمی طاقتوں کی مرضی کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانی سے گریزاں ہی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ 1948ء کی قراردادوں کو وہ کہیں سرد خانے میں ڈال کر بھول گئی۔ 1965ء میں بھی پاکستان اور بھارت کو تاشقند کی میز پر بیٹھا کر خود کہیں گم ہوگئی تھی۔
سقوطِ ڈھاکا میں بھارت نے اپنے گھنائونے کردار کا خود اعتراف کیا ہے۔ بقیہ پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں بھی نہ صرف دل چسپی رکھتا ہے بلکہ وہ اپنے اس مقصد کے لیے عملاً اپنے تخریب کار پاکستان میں چھوڑے رکھتا ہے۔ کلبھوشن یادیو اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ اس نے وقفے وقفے سے سرحدوں پر بلاجواز چھیڑ خانی کرنے اور الزامات لگانے کا وتیرہ اپنایا ہوا ہے جس سے کثیر جانی و مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اعتراف جرم اور جرم کی کھلی شہادتوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان اپنے مضبوط مؤقف کے ساتھ دنیا کے سامنے آتا‘ اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کرکے اسلامی ممالک سے روابط مضبوط کرتا۔ بھارت کی کشمیر میں بے جا مداخلت پر اپنا مقدمہ اقوام متحدہ میں ڈٹ کر لڑتا اور استصواب رائے کی ذمہ داری پوری کرانے پر اصرار کرتا۔ لیکن ہوا یہ کہ حکومت پاکستان کوئی ٹھوس قدم اٹھانے کے بجائے محض زبانی جمع خرچ کرتی نظر آئی۔ وہ حکمران جو عوام کو مدینہ طرز کی ریاست تشکیل دینے کے وعدے پر اقتدار میں آئے ہوں‘ وہی جہاد کو مشکل بلکہ ناممکن گردان رہے ہوں‘ کیوں بھول رہے ہیں کہ ریاست اور مظلوم انسانیت کی درد رسی کے لیے مختصر عرصے میںکتنے غزوات اور کتنے سرایہ سرانجام پائے مدینہ کو تشکیل دینے والے رہنما تو خود مجاہدین کے سپریم کمانڈر ہوا کرتے تھے۔ کاش ایک مرتبہ اس رہنما کی اندازِ رہنمائی پر توجہ ہوتی تو آج کشمیر کے مظلوم عوام کو اپنے عقیدے کی بقا کے لیے طویل کرفیو نہ جھیلنا پڑتا۔ ناگ دیوتا کے پجاریوں کے ہاتھوں یوںمسلمان مائیں‘ بہنیں اور بیٹیاں ڈسی نہ جاتیں۔ کاش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے مبارک پر جانے والے حدیث سے واقفیت حاصل کرتے اور مفہوم کو سمجھتے کہ ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔‘‘ اور ’’امت مسلمہ ایک جسد واحد کے مانند ہے جیسے جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہوتی تو پورا جسم بے خوابی میں گرفتار ہوجاتا ہے۔‘‘
لاکھوں شہیدوں‘ ہزاروں بیوائوں‘ ہزاروں عصمت لٹی بہنوں‘ ہزاروں معذور و بے کس یتیموں کی کراہوں نے کاش ہماری نیندیں اُڑائی ہوتیں تو آج ہم اپنی مشکلات کا رونا نہ روتے کہ مشکلات تو حوصلوں کو دیکھ کر خود راستہ چھوڑ دیتی ہیں۔
بھارتی اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ہیں۔ ترکی‘ ملائیشیا اور جاپان نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے لیے اپنی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ چین کے بھارت کے ساتھ اپنے اختلافات ہیں جن کے سبب وہ پاکستان کی حمایت کرتا ہے۔ ادھرملک کے اندر بھی ہر فرد اپنی ہمدردیاں کشمیریوں کے ساتھ رکھتا نظر آتا ہے لیکن کوئی یہ بتائے کہ آخر ان سب زبانی کارروائیوں سے اہل کشمیر کے کتنے دکھوں کا مداوا ہوا؟ دنیا بھارت کے مظالم اور کشمیریوں کی مظلومیت ے آگاہ ضرور ہوئی ہے سلامتی کونسل کا اجلاس ہو یا دیگر ممالک کی تشویش کشمیر کے تصفیے کے لیے پیش رفت تو ہوسکتا ہے لیکن مسائل کے حل میں مکمل ثابت نہیں ہوسکتا بلکہ محض معاون و مددگار۔
وہ حکمران جنہوں نے ریاستِ مدینہ کی طرز کے خواب دکھائے ہوں‘جن کی پشت پر دنیا کی بہادر فوج ان کے حکم کی منتظر کھڑی ہو‘ جو ایٹمی قوت ہوں‘ جس کے عوام اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لیے دامے‘ درمے‘ سخنے ہر طرح تیار ہوں‘ اسے ہرگز یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسا خطۂ ارض جو اس کا پڑوسی بھی ہو‘ جس کا وہ خود بھی دعویدار ہوں‘ وہاں لاکھوں کشمیری مسلمان کمزور و بے بس پا کر دبا لیے جائیں اور وہ حکمران جہاد کے مضمرات گنواتے ہوں جب کہ وہ خود ایک موقع پر جہاد کو ’’سپریم کانسپٹ‘‘ کہہ چکے ہوں۔ یہ رویہ اختیار کرکے وہ اہلِ مغرب کو اور دشمنان اسلام کو خوش کر رہے ہیں۔ (اخبارات کی سرخیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ امریکا ان کے بیانات سے خوش ہے)
یہ درست ہے کہ پاکستان ایک پُرامن اور قانون دوست ملک ہے اور خطے کو بھی پُرامن رکھنے کی خواہش رکھتا ہے اور اس مقصد کے لیے اس نے بڑی جانی و مالی قربانیاں دی ہیں لیکن اس نازک موقع پر کشمیریوں کی مدد کسی بھی طور قانون کی خلاف ورزی نہیں بلکہ پاکستان کی اس پُرامن پالیسی کو بھارت ہماری کمزوری تصور کرنے لگا ہے۔ وقت ہے کہ جس طرح بھارت نے اپنی فوج اور تخریب کار کشمیر میں داخل کیے ہیں اسی طرح پاکستان بھی کشمیر کا ایک فریق ہونے کے ناتے اپنی افواجِ پاکستان کو کشمیر میں اتارے۔ عزم کے پیکر اسد گیلانی بار بار امت مسلمہ خاص کر پاکستان سے مدد طلب کر چکے ہیں۔ آخر ہم کس وقت اور بات کا انتظار کر رہے ہیں۔ یاد رہے جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑ دیتی ہے اللہ اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ کشمیر کی اپنے عقیدے اور ارضِ مقدس کی آزادی کے لیے تحریک کی عمر 80 سال بھی زیادہ ہے۔ اپنی مائیگی اور زیر دست ہونے کے باوجود بھی وہ آج دنیا میں سرخرو و سربلند ہے اور پاکستان جس کے پرچموں میں وہ اپنے شہیدوں کو کفنا رہے ہیں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے پر اپنی زبانیں کٹوا رہے ہیں کیا حکومت پاکستان کی اس سرد مہری سے بڑھ کر کشمیریوں کو کوئی اور نقصان پہنچ سکتا ہے؟
دور حاضر میں امت کا رشتہ کمزور ضرور ہوا ہے لیکن ٹوٹا نہیں ہے اگر حکومت آج بھی کشمیر کی حقیقی حمایت کا عزم کرے تو امت کو اپنا دایاں بازو بنا پائے گی۔ مجاہدین کی سپلائی لائن قائم کرے تو ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک انہیں ہم رکاب پائے گی۔
صرف زبانی باتوں اور خیالی ڈرونز سے کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اپنی بقا اور آزادی کے لیے جنگ عملی اقدامات مانگتی ہے اور جنگ میں کامیابی کے لیے میدانِ جہاد کا گرم ہونا لازمی ہے۔ امت اور ملک کے سچے بہی خواہ عرصے سے مسئلہ کشمیر کا ایک ہی علاج الجہاد… الجہاد کی پکار ڈال رہے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے پاس موجود آزاد کشمیر جہاد ہی کا دیا تحفہ ہے۔
تحریکِ حریت کے پیرِ جواں نے 2016 میں پاکستانی عوام کو ایک حقیقت پسندانہ پیغام دیا تھا کہ ’’عوامِ پاکستان حکومتِ پاکستان کو مسئلہ کشمیر سے ہٹنے نہ دیں۔‘‘ اس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر ڈٹ جانے کا پیغام دے کر بار بار مؤقف تبدیل کرکے اپنی مصلحت کی بنا پر نئے نئے آپشنز کی بات کرکے اپنے خالص مؤقف ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘ پر کمزوری دکھانے سے منع کیا تھا۔ اور کون نہیں جانتا کہ شہ رگ کا جسم میں کیا مقام ہوتا ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔
’’مسئلہ کشمیر کا ایک ہی علاج… الجہاد الجہاد…‘‘ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔

حصہ