بوٹ، سوٹ اور شیروانی ۔۔۔ آخر حکومت ہے کس کی؟۔

968

کیا یہ اعداد و شمار ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ؟ ان اعداد و شمار سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پاکستانیوں پر اصل حکمرانی آخر کون کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا اس وقت سے لیکر آج تک ہم پر 22 وزرائے اعظم نے حکومت کی اور ان کا دورانیہ حکمرانی مجموعی طور پر 16218 دن سے کچھ زیادہ رہا جبکہ اس جمہوری حکمرانی کے مقابلے پر 4 فوجی حکمرانوں نے شیروانی اور سوٹ بوٹ پہن کر اسلامی جمہوری ملک پاکستان پر 12116 دن تک اپنے قبضے کو برقرار رکھتے ہوئے طول دیا۔
پاکستان کے ابتدائی ایا م میں جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح حیات تھے اس وقت سے ہی پاکستان کے جمہوری معاملات نامعلوم قوت کے زیر اثر آنا شروع ہوچکے تھے ، مگر ان حالات میں اس چپھی ہوئی چنگاری کا اندازہ لگانا اتنا آسان نہ تھا۔ ہوسکتا ہے قائد اعظم نے ان سازشی اثرات کو بھانپ لیا ہو مگر زبان پر لانا حقیقت میں بہت مشکل تھا، مگر جب قائد اعظم کے انتقال کے بعد نوابزادہ لیاقت علی خان کا بھرے عوامی جلسے میں قتل ہوجانا اور پھر اس قتل کی تحقیقات میں جس قسم کی ریاستی سستی اور کوتاہی کا مظا ہرہ کیا گیا ، اور مزید یہ کہ تفتیشی افسران کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور ان کی اموات نے ان شکوک و شبہات کو مزید تقویت پہنچائی۔
نوابزاہ لیاقت علی خان کے پر اسرار قتل کے بعد پاکستان کے خواجہ ناظم الدین دوسرے وزیر اعظم قرار پائے ۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت ایک سال اور 6 ماہ تک تو جیسے تیسے مارے باندھے برداشت کی جاتی رہی مگر پھر مقتدرہ قوتوں کو یہ بھی ہضم نہ ہوسکی چنانچہ اس وقت کے گورنر جنرل ملک غلام محمد نے 17 اپریل 1953 کو ان کی حکومت تحلیل کردی۔ اور یہی وہ دور تھا جب پاکستان مکمل طور پر مغربی آقاوں کی گود میں چلا گیا۔
جمہوری شکل برقرار رکھنے کے لئے محمد علی بوگرا کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھوایا گیا ، ان کی وجہ شہرت شہرت سفارت کاری تھی برما کنیڈا اور امریکہ میں ہائی کمشنری کر چکے تھے ، ‘ون یونٹ کا آئیڈیا انہی کے ذہن کی پیداوار تھا ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بنگالی نہیں، کوئی پنجابی نہیں، کوئی سندھی نہیں، کوئی پٹھان نہیں، کوئی بلوچی نہیں، کوئی بہاولپوری نہیں اور نہ ہی کوئی خیرپوری، علاقائی تقسیم کی عدم موجودگی پاکستان کی سالمیت کو مستحکم کرے گی‘۔ اسی بات پر صدر اسکندر مرزا سے اختلاف ہوا اور انہیں بھی برطرف ہونا پڑا-
چوہدری محمد علی نسبتا شریف آدمی تھے انہیں وزیر اعظم اس خیال سے بنایا گیا کہ وہ عوام کو جو کہ ‘مقتدرہ قوتوں ‘ کی سا زش کو جا ن چکے تھے ، ٹھنڈا رکھ سکیں گے ، چودھری محمد علی کو حزب مخالف اور دینی جماعتوں میں بھی قبول عام حاصل تھا۔ پاکستان کا پہلا آئین 29 فروری 1956 کو منظور کیا گیا انہی کی بدولت ممکن ہوا اس آئین کو 23 مارچ 1956 کو نافذالعمل کردیا گیا، جس میں پاکستان کو ‘ اسلامی جمہوریہ ‘قرار دیا گیا تھا ۔ تو چل میں آیا کہ مصداق وزراء اعظم کی بھاگ دوڑ جاری رہی ابراہیم اسماعیل چندریگر کے مستعفی ہونے کے بعد ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے فیروز خان نون کو بطور وزیراعظم آزمایا گیا ان کے حصے میں 295 دنوں کا اقتدار آیا۔وہ 1958 تک کے عہدے پر فائز رہے۔اور پھر گورنر جنرل اسکندر مرزا کے غصے کا شکار ہوکر بر طرف ہوئے۔
ا س مرتبہ بھی گورنر جنرل کے ساتھ اختلافات رونما ہوئے جن کے باعث 12 ستمبر 1956 کو چوہدری محمد علی کو کھڑے کھڑے وزیراعظم کے عہدے مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد محض 400 دنوں کے لئے حسین شہید سہروردی کو وزیر اعظم بنایا گیا اور پھر انہوں نے بھی اسکندر مرزا سے اختلافات کے بعد 1957 میں استعفیٰ دے دیا۔ اگلے 60 دن جناب ‘ ابراہیم اسماعیل چندریگر کے حصے میں آئے اور انہوں نے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔پاکستان کے پہلے آئین کو صرف 2 سال بعد ہی 1958 میں فوج کی جانب سے ملک میں پہلے مارشل کے نفاذ کے ساتھ ہی معطل کردیا گیا۔
اب اصل کھلاڑی میدان سیاست میں ‘ جنرل ایوب خان ‘ کی صورت میں داخل ہوا۔ یہ پہلا کھلا ڈاکہ تھا جو جمہوریت پر کیا ڈا لا گیا- ایوب خان نے 10 سال 5 ماہ اور 18 دن اسطرح کل ملا کر 3822 دن اقتدار کے مزے لئے اور اہم ترین معا ملات جن میں 1965 کی جنگ ، کشمیر کی جنگ ، اور مشرقی پاکستان کی سیاست کی بساط لپیٹنے اور فاطمہ جناح کو ناکوں چنے چبوانے ، اور پاکستان کے دو اہم ترین دریا ہندوستان کے حوالے کرنے ‘ جیسے اہم ترین فیصلے شامل تھے ، خوش اسلوبی سے نمٹا کر جنرل یحییٰ خان کے ہاتھوں گھر بجھوائے گئے۔
اور پھر مزید 1000 دنوں کے لئے جنرل جنرل محمد یحییٰ خان نے بانی پاکستان کے بنائے ہوئے متحدہ پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور پاکستان کو دولخت کروا کر ذوا لفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ کر ‘ فرائض منصبی ” نبھائے۔ اس دوران محض تیرہ دنوں کے لئے یعنی 7 دسمبر 1971 سے 20 دسمبر 1971 جناب نور الامین پاکستان کے آٹھویں وزیر اعظم بنائے گئے۔ ا ور اسطرح ان حالات میں جنرل الیکشن ہوئے اور ذوالفقار علی بھٹو کی کامیابی کا اعلان ہوا۔بھٹو صاحب نے 3 سال 10 ماہ اور 21 دن حکومت گھسیٹی اور ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے عتاب کا شکار ہوکر ہائی کورٹ کے فیصلے کی زد میں آکر سزائے موت کے حق دار ٹھہرے۔6 فروری 1979 کو سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی، 4 اپریل 1979 کو انہیں راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
عوام کی تالیوں کو گونج میں جنرل محمد ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 سے 17 اگست 1988 تک فوجی حکمرانی و سول حکمرانی دونوں کے مزے لئے ، وہ کبھی فوجی وردی میں ہوتے تو کبھی شیروانی شلوار کے حسین امتزاج میں کہ یہی عوام کو پسند بھی تھا۔ انہوں نے افغانستان کی جنگ میں جہاد کا نعرہ متعارف کروایا ، مذہبی و جذباتی حلقوں کو توانا کیا اور اپنے فوجی طیارے کے پھٹنے تک 11 سال ایک ماہ 12 دن مکمل کیے۔ ضیاء الحق نے اپنے دور اقتدار میں جو غیر جماعتی انتخابات کروائے اس میں محمد خان جونیجو کو وزارت عظمیٰ دلوائی ، وہ 3 سال 2 ماہ اور 5 دن تک وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کی جانشین بینظیر بھٹو اپنے پہلے دور اقتدار میں جو 2 دسمبر 1988 سے 6 اگست 1990 تک جاری رہا اسلامی ممالک میں پہلی مسلمان خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے وزارت عظمی سنبھالی۔1990میں صدر غلام اسحٰق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو مبینہ طور پر بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات کے باعث برطرف کر دیا۔
نگراں وزیراعظم کے طور پر غلام مصطفیٰ جتوئی کو سامنے لایا گیا ، بطور نگران وزیر اعظم انہوں نے تین ماہ یعنی بانوے دن کی حکومت سنبھالی۔اور عام انتخابات کرواکر تاجر نواز شریف کو اقتدار حوالے کیا یہ بزنس میں شوقین و متلون مزاج شہزادہ نواز شریف کو 1981 میں صدر ضیاء الحق کے دور حکومت میں پہلے صوبہ پنجاب کا وزیر خزانہ اور بعد ازاں 1985 میں وزیراعلیٰ منتخب کیا گیا تھا جبکہ وہ مارشل لاء کے اختتام کے بعد 1988 میں دوبارہ صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوا۔ اور سیاسی کھلاڑی بن کر نومبر 1990 کو ملک کے 12ویں وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
اس کے بعد دو مرتبہ نواز شریف ایک مرتبہ بے نظیر بھٹو کے پاس وزارت عظمی رہی۔ بیوروکریٹ صدر غلام اسحٰق خان نے 2 سال 5 ماہ اور 12 دن کے بعد نواز شریف کی انتظامیہ پر بھی بے نظیر بھٹو کی طرح بد عنوانی کے الزامات لگائے اور انہیں 18 اپریل 1993 کو برطرف کردیا- آئینی بحران سے بچنے کے لئے ایک ماہ اور ایک ہفتے کے لئے بلخ شیر مزاری بھی نگراں وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف نے برطرفی پر عدالت کا دروا زہ کھٹکٹایا اور چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے 15 جون 1993 کو نواز شریف کو برطرف کیے جانے کا صدارتی حکم کالعدم قرار دیا۔ مگر غلام اسحاق خان کسی طور پر بھی نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کے تحت اسی سال انہیں ایک مرتبہ پھر برطرف کردیا جبکہ نواز شریف نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں ایک مرتبہ پھر چیلنج کیا لیکن عسکری دباؤ میں آکر ایک معاہدے کے تحت نواز شریف کو پھر مستعفی ہونا پڑا۔
نواز شریف کے بعد امپورٹڈ وزیر اعظم جن کا پاسپورٹ اور شنا ختی کارڈ بھی پاکستانی نہیں تھا راتوں رات شناختی کارڈ بنوا کر پاکستانی شہری بنوایا گیا اور وزارت عظمیٰ حوالے کی گئی ، کس کے کہنے پر یہ ہورہا تھا کسی کو نہیں خبر نہیں تھی ؟
اکتوبر 1993 کے عام انتخابات میں بے نظیر بھٹو پھر اقتدار میں آتی ہیں اوردوسری مرتبہ ملک کی وزیراعظم بن جاتی ہیں۔ مگر دوسری مرتبہ ان کے اپنے خاص آدمی صدر فاروق لغاری ان کی حکومت پر بدامنی اور بد عنوانی، کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے الزامات کے لگا کر بینظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کے احکامات صادر کرتے ہیں۔
پھر شریف النفس منکسر المزاج ملک معراج خالد بطور نگراں وزیراعظم ایک سو چار دنوں کے لئے اقتدار میں آتے ہیں ان کا کام فروری 1997میں شفاف عام انتخابات کروانا تھا۔ان انتخابات میں بھری مینڈیٹ سے میں نواز شریف دوسری مرتبہ اقتدار میں آئے۔
اور فوج سے مخاصمت کے نتیجے میں 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے ان کی حکومت ختم کرکے ملک میں چوتھا مارشل لاء لگانے کے اعلان کیا، یوں وہ 2 سال 7 ماہ اور 25 دن کے بعد عہدے سے فارغ ہو گئے۔نواز شریف پر طیارہ سازش کیس کے ٹرائل کا آغاز کیا گیا، اس میں اغوا اور قتل کے الزامات شامل تھے لیکن عرب ممالک کے سربراہان کے دباؤ پر نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے نتیجے میں نواز شریف اپنے اہل خانہ کے ساتھ سعودی عرب چلے گئے۔
اس وقت ہماری خصوصی عدالت سے سزائے موت پانے والے جنرل پرویز مشرف نے12 اکتوبر 1999 سے 18 اگست 2008 کو چوتھے مارشل لاء کا اعلان کردیا وہ 8 سال 10 ماہ اور 6 دن تک حکمرانی فرماتے رہے، 2002 میں ہونے والے عام انتخابات میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت یافتہ پاکستان مسلم لیگ (ق) نے قومی اسمبلی کی بیشتر نشستوں پر کامیابی حاصل کی، دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کو راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے بعد خود کش حملے میں قتل کردیا گیا، جس کے بعد 2008 میں پی پی پی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور یوسف رضا گیلانی کو ملک کا وزیراعظم نامزد کیا، اسی سال ملک کی دو اہم جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مخالفانہ مہم کے آغاز کے باعث صدر پرویز مشرف کو عہدے سے مستعفی ہونا پڑا، جس کے بعد پارلیمنٹ نے آصف علی زرادری کو ملک کا صدر منتخب کیا۔
ایک سال 7 ماہ اور 3 دن کے لئے جناب ظفر اللہ خان جمالی کو23 نومبر 2002 سے 26 جون تک وزیر اعظم رہنا پڑا۔ مگر پرویز مشرف سے ان کی ان بن ہوگئی اور اختلافات کے بعد 26 جون 2004 کو مستعفی ہونہ پڑگیا۔ظفر اللہ خان جمالی کے استعفے کے بعد پارلیمنٹ نے مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین کو 30 جون 2004 کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا اور انہوں نے یہ عہدہ ایک ماہ اور 27 دن کے بعد 26 اگست 2004 کو شوکت عزیز کے سپرد کردیا۔ شوکت عزیز نے اس وقت کے آمر پرویز مشرف کی درخواست پر امریکا سے واپس پاکستان آکر وزیر خزانہ کا قلمندان سنبھالا جبکہ انہیں ظفر اللہ خان جمالی کی جانب سے جون 2004 میں مستعفی ہونے کے بعد وزیراعظم بنا دیا گیاجنھوں نے پرویز مشرف کے ساتھ مل کر خوب گل چھرے اڑائے۔ رقص و سرود کی محفلیں برپا کیں اور اوباشوں کی کابینہ بنا کر پہلی مرتبہ کھلے بندوں رقص و سرود کی محفلوں کو سرکاری اعزاز میں انجام دیا۔ 3 سال 2 ماہ اور 18 دن تک وزیر اعظم رہے۔
سندھ سے تعلق رکھنے والے ٹیکنو کریٹ محمد میاں سومرو (نگراں وزیراعظم)19 نومبر 2007 سے 24 مارچ 2008 ، 4 ماہ 5 دن کے لئے وزارت عظمی پر بیٹھے۔ پھر قرعہ فال پاکستان پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کے نام کھلا جو 25 مارچ 2008 سے 19 جون 2012 ،4 سال 2 ماہ اور 25 دن تک وزیر اعظم رہے۔اور جون 2012 میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اپریل میں دی جانے والی سزا پر نا اہل قرار دے دیا جس کے بعد وہ عہدے سے سبکدوش ہوگئے-راجہ پرویز اشرف المعروف راجہ رینٹل 22 جون 2012 سے 24 مارچ 2013 ،9 ماہ اور 2 دن تک وزارت عظمی پر براجمان رہے۔ ان کی بدعنوانیوں سے عاجز آکر احتساب عدالت نے 2014 میں رینٹل پاور پلانٹ کیس میں ان پر فرد جرم عائد کردی۔ جن کے بعدبلوچستان سے میر ہزار خان کھوسو کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا گیا ، 25 مارچ 2013 سے 5 جون 2013 ،2 ماہ 11 دن وزارت عظمیٰ پر رہے۔
اور پھر مئی 2013 کے عام انتخابات میں میں نواز شریف ،5 جون 2013 سے 28 جولائی 2017 تک وزیر اعظم کے عہدے پر تشریف لائے۔ مگر پا نامہ پیپرز اسکینڈل کا شکا ر ہوکر معتوب ہوئے۔ سپریم کورٹ نے انہیں جولائی 2017 میں نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا۔مگر مسلم لیگ (ن) کے سابق صدر نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے نااہل قرار دیئے جانے اور ان کے سبکدوش ہونے کے بعد یکم اگست 2017 کو پارلیمنٹ نے بھاری اکثریت سے شاہد خاقان عباسی کو ملک کا وزیراعظم منتخب کیا۔
اور اب جناب عمران خان سے پہلے کے انتخابا ت کے لئے چیف جسٹس (ر) ناصر الملک کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا گیا ، یکم جون 2018 سے 18 اگست 2018 تک کے لئے اور پھر ایمپائر کی انگلی ا ٹھ ہی گئی۔اور جناب عمران خان نے بطور وزیر اعظم پاکستان کی وزارت عظمی ک احلف اٹھا لیا۔
اب میرا کام تھا کہ تاریخ کے حوالے آپ کے سامنے رکھ کر آپ کو یہ دکھا سکوں کہ کون کتنے عرصے کے لئے حکمران رہا ہے ، اصل اقتدا ر کس کے ہاتھ میں ہے ؟ کون اقتدار کے اصل مزے لوٹ رہا ہے ؟ہمارے فیصلوں پر کون اثر انداز ہوتا ہے؟ اور کون کٹھ پتلی بن کر کس کی ڈرائنگ میں رنگ بھرنے کا کا م کرر ہا ہے؟۔ اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ ‘بوٹ ، سوٹ اور شیروانی۔ آخر حکومت ہے کس کی ؟

حصہ