آئینہ

410

عرشمہ طارق
۔’’بھابھی آجائیں، ڈراما شروع ہونے والا ہے۔‘‘ صبا نے اپنی جیٹھانی سعدیہ کو آواز لگائی۔
’’ہاں بس آرہی ہوں…‘‘ سعدیہ نے باورچی خانے سے نکلتے ہوئے جواب دیا، اور بچوں کو گلی میں کھیلنے کا کہہ کر ٹی وی لائونج میں آگئی۔
’’بڑی اچھی جگہ پر ختم ہوا تھا ڈراما، میں تو پورے ہفتے بے چینی سے اگلی قسط کا انتظار کرتی رہی۔‘‘
’’ہاں بھابھی میرا بھی کچھ یہی حال رہا۔‘‘ صبا نے بھی اس کی بات سے اتفاق کیا۔ ’’چلو بس اب سب چپ ہوجائو، ورنہ مزا نہیں آتا‘ میں نے بچوں کو بھی اسی لیے باہر بھیج دیا ہے۔‘‘ سعدیہ نے سب کو چپ کروایا اور ڈرامے کی طرف متوجہ ہوگئی۔
چاہے انڈین ڈرامے ہوں یا پاکستانی، دونوں دیورانی، جیٹھانی بہت شوق سے دیکھتی تھیں۔ ساس صاحبہ جو کہ پاندان کھولے بیٹھی تھیں، بولیں ’’چھوٹی تو چھوٹی، بڑی بہو سبحان اللہ۔‘‘
’’اماں آپ بھی آجائیں، مزا نہ آئے تو کہیے گا۔‘‘ سعدیہ نے ان کے تبصروں سے بچنے کے لیے ساس کو بھی دعوت دے ڈالی۔
’’اے ہٹو! میں نہیں دیکھتی یہ بے ہودہ ڈرامے۔ ہمارے وقتوں کے ڈرامے حقیقت سے قریب تر ہوتے تھے، سادگی ہوتی تھی اور ہیروئن سیدھے سادے لباس پہنتی تھی، اور یہ آج کل کی لڑکیاں… ان کے دوپٹے غائب، آستینیں غائب، ٹخنوں سے اونچے پاجامے… اور لڑکے، یہ بھی فیشن میں کم نہیں۔ انگریز بنے پھرتے ہیں۔ پتلونیں پھٹی ہوئی، بالوں کی پونیاں بندھی ہوئی، کبھی کبھی تو اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی! مردانگی تو نظر ہی نہیں آتی۔ اب تو اشتہارات بھی ایسے بے ہودہ ہوتے ہیں کہ شرم سے نظریں جھک جائیں… توبہ توبہ۔‘‘ ساس صاحبہ نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
’’اماں بات تو آپ نے بالکل ٹھیک کی ہے۔‘‘ دونوں بہوئوں نے ساس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’ہاں بیٹا! معاشرے میں اتنی بے حیائی پھیل گئی ہے کہ اچھے برے کی تمیز ختم ہوگئی ہے۔ یہ سب دیکھ کر ذہنی بیمار مردوں کے جذبات بھڑکتے ہیں اور وہ معصوم بچیوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ صبا اور سعدیہ کا دھیان ڈرامے کی طرف لگا ہوا تھا جو کہ اختتام پر ہی تھا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ سعدیہ کی بڑی بیٹی نے آکر اس کے کان میں کچھ کہا تو وہ فوراً اٹھ کر چلی گئی۔ اس کے پیچھے صبا بھی لپکی۔ جاکر دیکھا تو سعدیہ کا سات سالہ بیٹا اور صبا کی چھ سالہ بیٹی ایک ساتھ بیٹھے ایسے محبت بھری باتیں کررہے تھے جیسے کوئی سمجھ دار لڑکا، لڑکی ہوں۔
’’یہ کیا ہورہا ہے یہاں؟ ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘ صبا نے اپنی بیٹی کو ڈانٹا تو بچی نے جواب دیا ’’امی! کل آپ اور تائی جان جو ڈراما دیکھ رہی تھیں اُس میں یہ سین تھا۔ ہم تو ڈراما، ڈراما کھیل رہے تھے۔‘‘
’’نہیں بیٹا ایسے کھیل نہیں کھیلتے، بری بات ہوتی ہے۔‘‘ سعدیہ نے بیٹے کو سمجھایا۔
’’امی اگر بری بات ہے تو آپ لوگ ایسے ڈرامے کیوں دیکھتی ہیں؟‘‘ بچے کی بات نے دونوں کو شرمندہ کردیا۔ وہ اپنے بچوں سے نظریں چرانے لگیں۔ اسی وقت سعدیہ اور صبا کے شوہر اپنے بیٹوں کے کان پکڑ کر گھر میں داخل ہوئے اور غصے سے کہا ’’انہیں کچھ تمیز سکھائو، بچے کچھ بھی کرتے پھریں تم لوگ اپنے ڈراموں میں مگن رہو۔ محلے والے ان کی شکایت کررہے ہیں کہ یہ سب کے گھروں کی گھنٹیاں بجا بجا کر بھاگ رہے ہیں اور ان کے گھروں کے آگے شور کررہے ہیں۔ ان فضول کاموں میں وقت برباد کرنے کے بجائے اپنے بچوں کی تربیت پر دھیان دو۔ سارا دن محنت کرکے گھر آئو تو یہ سب تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کتنی شرمندگی ہوئی ہے محلے والوں کے سامنے، کچھ اندازہ ہے تم لوگوں کو! اماں آپ ہی سمجھائیں انہیں۔‘‘ یہ کہہ کر دونوں مرد حضرات غصے میں اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔
’’دیکھو بیٹا ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے۔ پڑوسیوں کے تو بہت حقوق ہوتے ہیں، ان کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔ وعدہ کرو آئندہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرو گے جس سے تمہارے والدین کو دوسروں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔‘‘
’’ہم وعدہ کرتے ہیں دادی جان…‘‘ بچوں نے ہم آواز ہوکر کہا۔ اس کے بعد ساس صاحبہ نے اپنی بہوئوں کو مخاطب کرکے کہا ’’بیٹا میں اس لیے تمہیں زیادہ نہیں ٹوکتی تھی کہ چلو کوئی بات نہیں تم لوگوں کا شوق ہے، کچھ وقت تمہیں بھی تفریح کا ملنا چاہیے، لیکن ایسی تفریح اور شوق کا نتیجہ تم نے دیکھ لیا۔ تمہارے شوہر ناراض ہوگئے، بچوں پر بھی اس کا برا اثر پڑا۔ اب تم خود فیصلہ کرو تمہیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘
’’اماں آپ ٹھیک کہتی ہیں، آج ہمیں احساس ہوگیا ہے کہ ان خرافات میں پڑنے سے نہ دنیا کا فائدہ ہے نہ دین کا۔ ہمیں اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنی چاہیے تاکہ وہ اچھے انسان بنیں۔‘‘ سعدیہ اور صبا آج کی ہونے والی باتوں سے خاصی ندامت محسوس کررہی تھیں۔
ساس نے کہا ’’چلو اچھا ہوا تم کو احساس ہوگیا، تم لوگ خود سوچو آدھا دن بچے اسکول میں گزارتے ہیں، پھر قرآن پاک پڑھنے چلے جاتے ہیں، ٹیوشن میں دو سے تین گھنٹے گزارتے ہیں، اس کے بعد باہر کھیلنے چلے جاتے ہیں یا ٹی وی، کمپیوٹر کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ تو بہت کم وقت گزارتے ہیں۔‘‘
’’ہاں اماں! اب ہم ٹی وی کے آگے بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کے بجائے اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں گے۔ کھیل ہی کھیل میں انہیں اچھی باتیں سکھائیں گے۔‘‘
’’شاباش میرے بچو! اللہ نے تمہیں موقع دیا ہے تو اس سے ضرور فائدہ اٹھائو۔ سب سے پہلے انسان کو اپنی اصلاح کرنی چاہیے، پھر دوسروں کو سمجھانا چاہیے۔ جس طرح دیے سے دیا جلتا ہے اور روشنی بڑھتی چلی جاتی ہے، ہمیں بھی یہی کام کرنا ہے۔ بچے تو جو دیکھتے ہیں وہ کرتے ہیں، ہم کو خود آئینہ بننا ہے… صاف اور شفاف آئینہ۔‘‘

حصہ