ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں!۔

1124

تنقید اپنی جگہ مگر جو بات تعریف کے لائق ہے اس کی تعریف نہ کرنا بھی زیادتی کھلائے گی۔ اب دیکھیں ناں ہم فوجی ترمیمی بل کے حوالے سے لاکھ اختلاف کرلیں لیکن اس فیصلے میں ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتوں کی ‘اجتماعی مکمل یکسوئی ‘ یعنی دوسرے الفاظ میں پوشیدہ ‘وحدت ملی ‘ کے جذبے کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ محض پندرہ منٹ کے اندر اندر جس طرح آمنا و صدقنا اس بل کو پیش کیا گیا اور ایوان سے منظوری لی گئی ایسے مناظر دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ خیر سے تحریک انصاف کی حکومت میں یہ خوشی بھی ہمیں دیکھنے کو ملی۔ اگرچہ اس سے پہلے سینیٹ چیرمین کے الیکشن میں بھی کم و بیش اس سے ملتے جلتے مناظر دیکھنے کو ملے تھے مگر جو مزہ اور جو یکجہتی اس بار دیکھنے کو ملی اس کا کوئی جواب نہیں۔ اندازہ لگیین کہ ملک کے وزیر اعظم کو اپنے انتخاب میں جتنے ووٹ پڑے اس کے دو گنا ووٹ فوجی ترمیمی بل کی حمایت میں ڈالے گئے۔ اب اگر اس ‘اتحاد بین المنا فقین ‘ کی تعریف نہ کی جائے تو میں سمجھتا ہوں یہ صریحاً زیادتی ہوگی۔
ہم جسے فوجی بل کہہ رہے ہیں درحقیقت وہ آرمی ایکٹ ہے جس میں قانون سازی کے بارے میں ہماری عدلیہ کا حکم نامہ موجود تھا ، اس حوالے سے دیکھا جائے تو اس بل کی منظوری کا اصل محرک تو ہماری عدلیہ قرار پاتی ہے نہ کہ ہمارے سیاستدان !
اور پھر ہمارے اللہ والے وزیر اعظم جناب عمران خان کی وہ بات یاد آنے لگتی ہے کہ ”ایک دن آئے گا جب سارے چور ڈکیت اکھٹے ہو جائیں گے ” ! مگر وہ دن اتنی جلدی آجائے گا اس کا اندازہ نہیں تھا۔
اس ترمیمی بل کی اصل بات یہ ہے کہ اب ہمیشہ کے لئے فوجی سربراہوں کے لئے مدت ملازمت کا معاملہ ختم کردیا گیا اور ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع منظور کرلی گئی۔ میں سمجھتا ہوں یہ تین سال بھی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اصل خوف تو اس بات سے ہے کہ جب نوے دن کی اجازت لیکر اور وعدہ کرکے ہمارے فوجی حکمران تیرہ سال ، گیارہ سال کھینچ لیتے ہیں تو تین سال کی توسیع کا اصل دورانیہ کتنا تصور کیا جائے ؟؟ یہ سوچ کر ہی خوف آتا ہے۔
مرد مجاہد وہ ہوتا ہے جو حالات کی سنگینی کو انگیز کرنے کا فن جانتا ہو۔گزشتہ منگل کو بغیر کسی بحث کے قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا اور اسی دن عجلت میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے خصوصی اجلاس میں بھی منظور ہوگیا چنانچہ بدھ کو سینیٹ سے بھی منظور کرلیا گیا۔ قومی اسمبلی میں جمعیت علماء اسلام، جماعت اسلامی اور پختون تحفظ موومنٹ کے ارکان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا مگر بے سود ، جماعت اسلامی کے واحد ممبر قومی اسمبلی چترالی صاحب کا تو مائیک ہی بند کردیا گیا ، جس کے رد عمل میں ان کے پاس گلا اور بل کی کاپی پھاڑنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ بلآ خر اختلاف کرنے والوں کو ایوان سے واک آئوٹ کرنا پڑا۔ واک آئوٹ احتجاج کا ایک طریقہ تو ہے لیکن اس کا مطلب دوسروں کو واک اوور دینا بھی ہے۔ قدرت نے یہ دن بھی دکھایا کہ ‘ووٹ کو عزت دو ‘ اور ‘باجوہ ٹھاہ ‘ کرنے والی دونوں بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی جو پہلے بڑھ چڑھ کر مخالفت کررہی تھیں اب ایک دوسرے سے چار قدم آگے بڑھ کر حکومت کا ساتھ دیتی ہوئی نظر آئیں۔ ملک کی بہت بڑی اور سیاسی جماعتیں بڑی سمجھی جانے والی جماعتوں کی طرف ایسا معجزہ یا تو بیرونی خوف کی وجہ سے ہوتا ہے یا پھر ‘اندرونی ڈنڈے ‘ کی بدولت !۔
موقع کی منا سبت سے ہم سے ایک شعر موزوں ہوا سن لیجے

کون کہتا ہے اس بت کو نہیں ذوق سخن
میں نے دیکھا بھرے دربار کو کرتے ہوئے رقص

اور پھر یوں ہی ہوا کسی کے سامنے نہ جھکنے کا راگ الاپنے والے پلک جھپکتے اور ابرو کا اشارہ پا تے ہی بانسر یا کی دھن پر رقصاں دکھائی دئیے۔ بل جیسا پیش کیا گیا اسی طرح منظور کروالیا گیا ، کسی قسم کی ترمیم کی بھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے کچھ سفارشات پیش کی گئی تھیں لیکن وزیر دفاع پرویز خٹک کی درخواست پر فوری طور پر واپس لے لی گئیں۔اس موقع پر مجھے ہندوستان سے تعلق رکھنے والے مشہور شاعر جناب بشیر بدر کا شعر یاد آرہا ہے کہ

کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا

اب وہ مجبوریاں کیا ہیں اس کا اندازہ لگانا کو مشکل بھی نہیں۔ پانامہ لیکس کے بعد ٹرائل اور گرفتاریوں کا جو سلسلہ شروع ہوا اور نیب کا پھندا ڈا لا گیا اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ کے شہرہ آفاق فیصلوں اور تمام ملزمان کی ضمانتوں یہ سمجھنا آسان کردیا تھا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔
اور پھر سب نے دیکھا بھی کہ بقو ل ان شاء اللہ خاں (مرحوم )۔

کچے دھاگے سے چلیں آئیں گے سرکار بندھے

ترمیمی ایکٹ منظور ہوجانے کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے نوید قمر نے کہا کہ ملکی صورت حال کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا۔ ا سکا مطلب یہ ہوا کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں یہ کڑوا گھونٹ پیا گیا ، جناب نوید قمر صاحب سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا کیا دو ایک دن ہی میں ملکی صورت حال تبدیل ہوگئی تھی؟ یہ معاملہ تو مہینوں سے چل رہا تھا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر فوج کے سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے چھ ماہ میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ روزنامہ جسارت کے ادار ئیے میں اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ ‘ اطلاعات کے مطابق تینوں افواج کے سربراہوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھا کر 64 سال کر دی گئی۔ اس کے علاوہ بھی وزیر اعظم آرمی چیف کو مزید توسیع دے سکیں گے جس کو کبھی چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم جب چاہیں گے کسی کو فارغ کرسکیں گے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہوگا؟ نواز شریف کی منتخب حکومت نے یہ کام کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ حکمران طبقے کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے ملکی مفاد کو مقدم رکھا۔ بہت اچھا کیا لیکن ملکی اور قومی مفاد کا تعین تو آج تک نہیں ہوسکا اور ہر حکمران اس کی من مانی تشریح کرتا ہے۔
اور پارلیمنٹ سے فیصلہ ہونے کے باوجود حکومت نے عدالت عظمیٰ کے مذکورہ حکم پر نظر ثانی کی اپیل دائر کر رکھی ہے جو واپس نہ لینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا بل خاصا مبہم اور اب تک کیجن سیاسی جماعتوں نے ’’ ملکی مفاد‘‘ کو مقدم رکھا انہیں اس کے بدلے میں کسی رعایت کی امید تو ضرور ہوگی۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی قیادتیں نیب کے شکنجے میں ہیں چنانچہ شکنجہ نرم ہوسکتا ہے۔”
سب سے جاندار اور واضح موقف جماعت اسلامی کا دیکھنے میں آیا جسکے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ‘دبائو میں آ کر آج اکٹھے ہونے والے کل پھر دست و گریباں ہوں گے، طاقت ور اسٹیبلشمنٹ جسے چاہتی ہے اقتدار میں لاتی ہے اور جسے چاہے نکال دیتی ہے۔ دونوں بڑی جماعتیں کل تک تو عمرانی حکومت کو سلیکٹڈ کہتی رہی ہیں اب اسی کشتی میں قدم رکھ دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مجبوری کے سودے ہیں۔ ‘ سراج الحق کا کہنا ہے ‘ کہ سرکاری بل پر سابق حکمران پارٹیوں نے اصولوں کے بجائے اپنی مجبوریوں کو ووٹ دیا۔ جماعت اسلامی نے ملکی تاریخ کے اہم موقع پر درست سمت میں کھڑے ہو کر اصولوں کا ساتھ دیا۔ بل کی حمایت کرنے والی موجودہ و سابق حکمران پارٹیاں قومی ایشوز اور عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے کیوں ایک نہیں ہوتیں۔ہمارے سینیٹرمشتاق احمد خان کو ڈیفنس کمیٹی کے اجلاس میں نہ بلانا قابل افسوس اور قواعد و ضوابط کی سخت خلاف ورزی ہے۔ ‘
مشہور ترین ضرب المثل ہے کہ ‘ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ‘ مطلب ہر دور میں بااثر اور بڑے آدمی کے سب فرمانبردار ہوتے ہیں، سب اْس کا کہا مانتے ہیں اور کوئی اْسے برملا غلط نہیں کہتا۔ یہی معاملہ پاکستانیوں کا بھی ہے۔

سب ہیں ترے دربار میں سب ہی تری سرکار میں
سب جھک گئے سب ہم زباں تائید میں اقرار میں

ایک خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں لکھا گیا کہ ‘ معروف سیاست دان اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ، جو نواز شریف کے انتہائی قریب رہے ہیں، کا دعوٰی ہے کہ آرمی ایکٹ کی حمایت کا فیصلہ نواز شریف کی طرف سے نہیں آیا ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس فیصلے کر کھرا شہباز شریف سے ملتا ہے۔
بہر حال سیاسی قائدین اس کی جو بھی توجیہ پیش کریں ، کارکن پر واضح ہو چکا ہے کہ ان کی جماعت نے ٹینک کی کی حمایت کرکے سودی بازی کر لی ہے اور یہ کہ جماعتیں اپنی کارکنوں کو اس بات پر قائل کرنے میں نا کام ہوگئی ہیں کہ انہوں نے سودے بازی نہیں کی۔
لوگوں میں تاثر پھیل رہا ہے کہ زرداری صاحب، خورشید شاہ، آغا سراج درانی اور فریال تالپور صا حبہ کو جو رعایتیں ملی ہیں وہ سب ڈیل اور سودے بازی کا نتیجہ ہے۔ اب ان جماعتوں کے کارکن بھی یہ بات جا ن چکے ہیں کہ ان کا ووٹ چاہے تیر کو پڑے ، پتنگ کو پڑے ، یا پھر شیر کو پڑے جاتا ٹینک کے ہی کھاتے میں ہے !۔

حصہ