کتب بینی کے فروغ کیلیے حکومتی سطح پر لائبریریاں قائم کی جانی چاہئیں

417

شاعر، افسانہ نگار اور ماہر تعلیم رحمٰن نشاط کی جسارت میگزین سے گفتگو

نثار احمد نثار

رحمن نشاط شاعر و افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ماہر تعلیم بھی ہیں یہ طویل عرصے سے ادبی منظر نامے کا حصہ ہیں‘ ان کے افسانوں کے چار مجموعے آئینے میں سورج‘ بے چھت آسمان‘ پانی پر لکیر‘ پانیوں میں گھلتی زمین منظر عام پر آچکے ہیں۔ انہوں نے محکمہ ایجوکیشن سندھ میں اپنی خدمات انجام دیں اور پچاس سال کی عمر میں ریٹائر ہوئے۔ ان دنوں ایک بڑے تعلیمی ادارے کے سربراہ ہیں‘ ان کی تخلیقی صلاحیتیں‘ تکنیکی مہارت‘ ذہانت‘ علمی اور ادبی بصیرت ان کی تحریروں سے نمایاں ہیں۔ راقم الحروف نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے ملاقات کی جس کا احوال قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔

جسارت میگزین: اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ آپ اپنا مختصر تعارف کرائیں‘ تو آپ کیا فرمائیں گے؟
رحمن نشاط: خدا کا شکر ہے کہ میں ایک علمی و ادبی گھرانے کا چشم و چراغ ہوں‘ علم حاصل کرنا اور پھیلانا میرا مقصدِ حیات ہے۔ میں نے انگریزی سے اردو میں تراجم کیے۔ بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا۔ اخبارات کے لیے مضامین لکھے۔ اساطیری کہانیاں لکھیں۔ شاعری کی‘ افسانہ نگاری کی اور فنِ موسیقی پر توجہ دی یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوا کہ ہمارے گھر میں ادبی ماحول تھا‘ ہم تین بھائی اور ایک بہن تھے مجھ سے چھوٹے بھائی فرید الدین کا دو سال قبل انتقال ہوگیا۔ وہ ایک زمانے میں ’’فرا‘‘ کے نام سے شاعری کرتے تھے۔ میں نے 1969ء میں سائنس گروپ سے فرسٹ ڈویژن میں میٹرک کیا۔ 1973ء میں اردو فاضل اور C.T کرتے ہی میں نے بطور معلم اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1974ء میں بی اے کیا‘ 1976ء میں ایم اے‘ 1982ء میں ایل ایل بی اور 1992ء میں بی ایڈ کیا۔ اسکول کے زمانے سے تقریری مقابلوں‘ بیت بازی اور ڈراموں میں حصہ لیتا رہا۔ میں نے اسکول کے لیے ڈرامے بھی لکھے‘ اسکول کی بزمِ ادب کا عہدیدار بھی رہا۔ اپنے اسکول اور کالج کی کرکٹ ٹیم کا دو سال تک کپتان بھی رہا اور تین سال تک بیڈمنٹن کا Un-betable چیمپئن بھی رہا ہوں۔ میں نے برصغیر کے مشہور ستار نواز استاد محمود خان سے ستار بجانا سیکھا ہے۔ میں نے 1969ء سے 1992ء تک ریڈیو پاکستان کراچی کی بزم طلباء کے پروگرام بھی کیے ہیں۔ ریڈیو کے دو مشہور پروگرام خوش حال گھرانہ اور شاہراہِ ترقی کے لیے ایک سو سے زائد اسکرپٹ لکھے۔ کئی برس تک صحافت کی۔ مختلف ادبی رسائل کا نائب مدیر رہا۔ میرے لیے یہ بات باعث طمانیت ہے کہ میں علمی و ادبی حلقوں میں جانا پہچانا جاتا ہوں۔
میں بطور افسانہ نگار زیادہ مستحکم ہوں‘ میرا پہلا افسانہ مارچ 1972ء میں ماہنامہ ’’سوداگر‘‘ کراچی کے سالنامے میں شائع ہوا تھا اس کے بعد بہت لکھا جو کہ میں نے Disown کردیا اور صرف منتخب تخلیق اپنے چاروں مجموعوں میں شامل کی۔ میری تاریخ پیدائش 6 جولائی 1950ء ہے میں تقریباً پچاس برسوں سے لکھ رہا ہوں‘ میری تحریریں پڑھ کر قارئین یا نقادانِ سخن کوئی فیصلہ کریں گے کہ میں اپنے مقاصد میں کس حد تک کامیاب ہوں۔ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے شہر کراچی میں بھی اب نئے لکھنے والے سامنے آرہے ہیں‘ ان کے ہاں موضوعات کا تنوع بھی ہے اور مغربی ادب کا مطالعہ بھی ہے وہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے افسانوںمیں شامل کر رہے ہیں خدا کا شکر ہے کہ ادب روبہ زوال نہیں ہے۔ اب شاعری میں بھی نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں اور افسانہ نگاری بھی جدید خطوط کی آئینہ دار ہے۔ میں اپنے افسانوں میں چھوٹے چھوٹے جملوں میں بات کرتا ہوں اور وہ زبان استعمال کرتا ہوںٍ کہ جو کرداروں کی زبان ہے یعنی روز مرہ کی گفتگو میں استعمال ہونے والے استعارے‘ تلمیحات اشارے اور کنائے زیادہ استعمال کرتا ہوں۔
جسارت میگزین: کتب بینی کا شعبہ کیوں کمزور ہو رہا ہے؟
رحمن نشاط: کتب بینی کو الیکٹرانک میڈیا نے کمزور کیا ہے۔ اب آپ فیس بک‘ گوگل اور دیگر ذرائع ابلاغ پر اپنی مطلوبہ معلومات باآسانی حاصل کرسکتے ہیں دوسری بات یہ کہ اب کتابیں بہت مہنگی ہوگئی ہیں‘ کاغذ اور پرنٹنگ کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لیے کتابیں اب غریبوں کی دسترس سے باہر ہیں‘ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہر شخص بہت مصروف ہے زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے حکومتی سطح پر اگر لائبریریاں قائم کی جائیں تو کتب بینی فروغ پا سکتی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کب ہوئی؟ کیا آپ ان لوگوں کے نام بتانا پسند کریں گے جن سے آپ نے اصلاح لی ہو؟
رحمن نشاط: میری شاعری کی ابتدا 1969ء میں ہوئی میرا پہلا شعر:۔

رہ گئے سن کے بازگشت اپنی
جب بھی چاہا تجھے صدا دینا

میں نے پہلا مشاعرہ 1970ء میں احمد اسحاق یادگاری مشاعرہ کراچی کے خالق دینا ہال میں آدم جی سائنس کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے پڑھا تھا۔ یہ ایک طرحی مشاعرہ تھا جس کا مصرع طرح ’’بیت گیا تمام دن اک تھکی فضا کے ساتھ‘‘ اس پروگرام کی نظامت نیلوفر علیم نے کی تھی جب کہ سراج الدین ظفرؔ مشاعرے کے صدر تھے۔ شاعری‘ مضمون نگاری اور افسانہ نگاری میں میرا کوئی استاد نہیں ہے‘ میں نے کبھی کسی سے کوئی اصلاح نہیں لی۔
جسارت میگزین: علمِ عروض کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں؟
رحمن نشاط: علمِ عروض شاعری کا ایسا علم ہے کہ جس کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں لیکن شعر کہنے کے لیے اس کا سیکھنا ضروری نہیں اس لیے کہ شاعری ودیعتِ خداوندی ہے‘ آپ کسی کو شاعر نہیں بنا سکتے‘ متشاعر بنائے جاسکتے ہیں۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ وزن‘ بحر‘ قافیہ اور ردیف کی پہچان قدرت کی دین ہے البتہ کسی کے شعر کہنے کی صلاحیتوں کو نکھارا جاسکتا ہے۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ علم عروض کے ماہر شاعر میں برجستگی‘ بے ساختہ پن‘ فطری شاعری‘ جمالیات اور فکری عنصر کم ہی ملے گا‘ چُول سے چُول سے بٹھانے کا عمل زیادہ ملے گا۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں موجودہ زمانے کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کیا کردار ادا کررہے ہیں؟
رحمن نشاط: الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ابلاغ کا کام انجام دیتے ہیں‘ زبان‘ ادب‘ تہذیب و ثقافت کی ترویج و فروغ دینے میں ان کی بڑی ذمہ داریاں ہیں لیکن افسوس کہ دونوں میڈیم اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔ اب اخبارات اور مختلف میڈیا چیلنز کا مقصد تجارتی ہے۔ زبان و ادب اور تہذیب و ثقافت ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ انہیں پیسے کمانے ہیں اس کے لیے اشتہار درکار ہیں اور اشتہار کے حصول کے لیے تاجر‘ صنعت کار اور مختلف اشیا کے مینو فیکچرز کی خوشنودی‘ مرضی‘ فرمائش اور ہدایات ناگزیر ہیں‘ آپ خود ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ اب کتنے اخبارات ادبی صفحہ شائع کرتے ہیں اور کتنے ٹی وی ادبی پروگرام نشر کرتے ہیں۔ حکومتی سطح پر قائم کتنے ادارے ہیں جو فعال ہوں اور زبان و ادب کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں؟ ان تمام اداروں کی کارکردگی پر تحفظات موجود ہیں۔ مختلف قسم کے سوالات ان حوالوں سے ہمارے سامنے ہیں۔ ستائش باہمی کی بنیاد پر کچھ لوگ میدانِ سخن میں بہت کام کر رہے ہیں اس طرح شاعری تو ہو رہی ہے لیکن زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں بے شمار مسائل حائل ہو رہے ہیں۔
جسارت میگزین: کراچی میں مشاعروں اور تنقیدی نشستوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
رحمن نشاط: ان دنوں کراچی میں ادبی سرگرمیاں بہت بہتر ہیں ایک ایک دن میں کئی کئی ادبی پروگرام ہو رہے ہیں۔ بے شمار ادبی انجمنیں اور تنظیمیں ہیں جو کہتی تو یہ ہے کہ وہ ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں لیکن وہ شاعری تک محدود ہیں افسانہ نگاری کے بارے میں کوئی ذکر نہیں ہورہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب افسانہ ہمارے ادب کا حصہ نہیں رہا افسانہ نگاروں کی پزیرائی کا کوئی کام نہیں ہورہا‘ آئے دن معمولی‘ گمنام اور غیر اہم شعرا کے ساتھ شامیں‘ تقریبات اور مشاعرے ہو رہے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اپنے لوگوں کی پروموشن کے لیے جو کام کر رہے ہیں اس کا یہ نقصان ہے کہ جینوئن قلم کاروں کی حق تلفی ہو رہی ہے۔ کراچی میں تنقیدی نشستوں کا سلسلہ نہ ہونے کے برابر ہے ایک زمانے میں یہ ادارہ بہت فعال تھا‘ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں نقاش کاظمی اس حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ انہوں نے بے شمار تنقیدی نشستیں ترتیب دی ہیں۔ تنقیدی نشستوں میں کسی بھی فن پارے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے جس سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے اور ہم پر نئے نئے مفاہم کھلتے ہیں۔
جسارت میگزین: ترقی پسند تحریک نے اردو ادب پر کیا اثرات مرتب کیے؟
رحمن نشاط: ترقی پسند تحریک ایک بڑا ادبی حوالہ ہے یہ ہندوستان کی واحد ادبی تحریک تھی جس نے شعرا و ادیبوں کو یہ تحریک دی کہ وہ گل و بلبل کے تذکروں کے بجائے اپنی شاعری میں زندگی کے مسائل و حقائق شامل کریں۔ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر افسانہ بہت لکھا گیا لیکن افسانے میں اس تحریک کے اثرات موضوعات تک محدود رہے۔ افسانے کی تیکنیک اور ہیئت کو یہ تحریک متاثر نہیں کرسکی البتہ اس تحریک نے نظم کی شاعری کو آگے بڑھایا جس کا سارا کریڈٹ انجمن پنجاب کو جاتا ہے۔
جسارت میگزین: آج کل کچھ ادبی تنظیمیں نظریۂ ضرورت کے تحت چندہ لگا کر‘ صدارت‘ مہمان خصوصی کے مسند تفویض کر رہی ہیں اس سلسلے میں آپ کی رائے درکار ہے؟
رحمن نشاط: جو بھی ادارہ نظریۂ ضرورت کے تحت چندہ لے کر صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور مہمان توقیری کے منصب فروخت کر رہے ہیں میرے نزدیک یہ ایک اچھا عمل نہیں ہے‘ اس کام سے بہت سے جینوئن قلم کاروں کی حلق تلفی ہو رہی ہے۔ مشاعروں اور ادبی تقریبات کے اخراجات کے لیے کوئی اور طریقۂ کار اختیار کیا جائیٔ یا اپنی مدد آپ کے تحت ادبی پروگرام منعقد کرائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کے علاوہ قلم کاروں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کی تخلیقات کی اشاعت کا ہے‘ بے شمار قلم کاروں کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ اپنی کتابیں شائع کرسکیں اس اہم مسئلے پر بھی ادبی تنظیموں کو سوچنا چاہیے۔ آج کل بہت سے دولت مند متشاعروں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ وہ اپنے نام سے شعری مجموعے شائع کرانے کے بعد کسی بھی بڑے ہوٹل میں اپنی کتاب کی تقریب اجرا کرا کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ بڑے شاعر بن گئے‘ ادب میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ اس موقع پر میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ طرحی مشاعروں کی روایت بحال کی جائے تاکہ مشقِ سخن میں اضافہ ہو۔گروہ بندی اور اقربا پروری نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا ہے۔ شاعری میں یہ بدعت ختم کی جائے تو عمدہ امکانات روشن ہیں۔
جسارت میگزین: آپ طویل عرصے سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں‘ کچھ موجودہ تعلیمی صورت حال کے بارے میں فرمایئے گا؟
رحمن نشاط: میں نے 10 دسمبر 1973 کو بطور J.S.T نیومیتھڈ اسکول ناظم آباد کراچی سے درس و تدریس کا آغاز کیا۔ 1992ء میں H.S.T ہو کر دہلی اسکول میں Joing دی۔ 1995ء میں ڈائریکٹریٹ آف اسکول ایجوکیشن کراچی میں پوسٹنگ ہوئی۔ جولائی 2000ء میں والنٹیری ریٹائرمنٹ لے لیا اس کے بعد سے آج تک مختلف پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بطور پرنسپل‘ ایڈمنسٹریٹر‘ ڈائریکٹر اکیڈمک اور آفیسر آف ٹیچر ٹریننگ اپنی خدمات انجام دیں۔ میں نے محکمہ تعلیم سے وابستہ تقریباً تمام افسران کو بہت قریب سے دیکھا بھی ہے اور ان کے ساتھ کام بھی کیا ہے‘ میں ان تمام کی قابلیت‘ اہلیت‘ صلاحیت اور ’’کارناموں‘‘ سے واقف ہوں۔ میرے نزدیک یہ سب کے سب نالائق اور نااہل ہیں‘ تعلیمی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ نااہل افسران ہیں جو سفارش پر بہت سے اہم تعلیمی پوسٹوں پر قابض ہیں۔ ہمارے اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر/ہیڈ مسٹریس تک عمر اور عرصۂ ملازمت کی بنیاد پر مقرر کیے جاتے ہیں‘ اہلیت ہو یا نہ ہو سنیارٹی لسٹ کے مطابق انہیں پوسٹنگ مل جاتی ہے‘ ہیڈز کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ 55/56 برس کی عمر تک پہنچنے والے ٹیچر کو ہیڈ ماسٹر بنا دیا جاتا ہے‘ وہ بے چارہ اپنی نوکری کے آخری سال جیسے تیسے گزار لیتا ہے وہ نہ کوئی تبدیلی‘ نہ کوئی اختراع‘ نہ کوئی بہتری کی کوشش کرسکتا ہے۔ ہیڈز کی تربیت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سب سے پہلے آغا خان یونیورسٹی کے ادارے آئی ای ڈی (انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈویلپمنٹ) نے یہ پروگرام شروع کیا اور 1998ء میں شیفیلڈ ہالم یونیورسٹی یو کے کے اشتراک سے ایک سالہ ہیڈ ماسٹر کورس کا اجرا کیا۔ اس کورس میں شرکت کے سبب مجھے بھی برٹش کونسل نے دس ہزار روپے کی اسکالر شپ دی اور مجھے ٹریننگ کے لیے لندن بھیجا گیا واپسی پر میں نے حکومت سندھ کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ لے کر پرائیویٹ تعلیمی ادارہ ہیپی ہوم جوائن کیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں سرسید احمد خان کے علی گڑھ یونیورسٹی جیسے تعلیمی نظام چاہیے کہ جہاں تعلیم اور تربیت کا ایک مکمل پیکج تھا‘ ہمارے یہاں کورس تو موجو دہے طلباء و طالبات کی تربیت نہیں ہو پارہی۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں پڑھائی نہیں ہو رہی۔ چیک اینڈ بیلنس کا نظام فیل ہو چکا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک اس وقت اردو افسانہ کس اسٹیج پر ہے؟
رحمن نشاط: اس وقت اردو افسانہ نظر انداز کیا جارہا ہے‘ البتہ شاعری عروج پر ہے۔ افسانے کی تیکنیک اور ہیئت میں کوئی بڑا تجربہ یا تبدیلی ہمیں نظر نہیں آرہی‘ ہمارے ہاں زیادہ تر بیانیہ افسانہ لکھا جارہا ہے‘ علامتی اور استعارتی افسانہ بھی کم ہوتا جارہا ہے یہ میرا ذاتی خیال ہے اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے کہ افسانے کا اسلوب موضوع کے تابع ہوتا ہے‘ ہمارے ذاتی مسائل‘ معاشی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور سماجی حالات اور ان کے تحت جنم لینے والے موضوعات وہ ہیں کہ جن کے لیے بیانیہ اسلوب ہی موزوں ہوتا ہے‘ یہ موضوعات اسٹریم آف کان شی ٹیشن‘ سرٹیلزم یا کولاج یا مونٹاج کی تیکنیک میں بیان نہیں ہوسکتے۔

حصہ