امانت

347

آمنہ آفاق
۔’’یہ لو پچاس ہزار، گن لو پورے ہیں، اور ہاں باقی کے پچاس ہزار یہ کیس جیتنے کے بعد۔‘‘
چودھری خاور نے پانچ پانچ ہزار کے دس نوٹ ارسلان کی میز پر پھینکے اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئے۔
’’ارے سر، آپ نے کیوں تکلیف کی! میں خود آپ کے پاس آجاتا۔‘‘ نہ جانے پیسوں کی چمک تھی یا چودھری خاور کی رعب دار شخصیت کا سحر، جس نے ارسلان جیسے قابل وکیل کو بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا تھا۔
’’بس یہ بتاؤ کہ اب میرے بیٹے کی رہائی کب ہوگی؟ دیکھو میں اس کو زیادہ دن اب جیل میں نہیں رہنے دوں گا۔ کچھ بھی ہو، کیسے بھی ہو مجھے میرا بیٹا واپس چاہیے۔‘‘ چودھری خاور غرائے۔
’’ارے شاہ زمان صاحب تو جیل میں بھی شہزادوں کی طرح رہ رہے ہیں، جناب آپ فکر نہ کریں، بس کل یہ آخری پیشی ہمارے ہی حق میں ہوگی۔‘‘
ارسلان ایڈووکیٹ نے چودھری صاحب کو اپنے تئیں تو مطمئن کردیا، مگر وہ جانتے تھے کہ یہ قتل کیس ہے اور اس طرح ایک قاتل کو رہا کروانا بہت بڑا جرم ہے۔ مگر اب جب رشوت کی لت منہ کو لگ ہی چکی تو ان کا دل بھی سخت ہوگیا، اور کیا غلط ہے اور کیا صحیح، وہ یکسر بھول چکے تھے۔
’’ہیلو، کیا ہوا صالحہ! تم روکیوں رہی ہو؟‘‘ ارسلان صاحب نے گھبراتے ہوئے سوال کیا۔
’’ارسلان جلدی سے آجائیں، عمیر کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، میں اسپتال سے بات کررہی ہوں۔‘‘
ارسلان صاحب یہ جملہ سنتے ہی وہاں سے نکلتے ہوئے بولے’’تم پریشان نہ ہو، میں آرہا ہوں، ابھی کچھ نہیں ہوگا عمیر کو۔‘‘ عمیر ان کا اکلوتا چشم و چراغ تھا جو بہت دعاؤں کے بعد نوازا گیا تھا۔ یہ عمیر ہی تو تھا جس کے روشن مستقبل کے لیے وہ اتنی دوڑ دھوپ کررہے تھے، اور آج ان کا وہی عمیر زندگی اور موت کی کشمکش میں تھا۔
’’ڈاکٹر صاحب! میرا بیٹا ٹھیک تو ہوجائے گا ناں؟‘‘ انہوں نے عجلت میں نکلتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھا۔
’’دیکھیں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے، خون بہت بہ گیا ہے، آپ جلدی سے ایک لاکھ کا انتظام کریں۔‘‘ ڈاکٹر نے خالص پیشہ ورانہ انداز اپنایا ہوا تھا۔
’’پیسوں کا بندوبست ہوجائے گا آپ فکر نہ کریں، بس میرے بچے کو بچا لیں۔‘‘ وہ گھٹنے ٹیک کر اب زار و قطار رو رہے تھے۔
’’دیکھیں زندگی بچانے والا تو صرف اللہ تعالیٰ ہے، ہم اپنی پوری کوشش کریں گے، آپ بس اللہ سے دعا کریں۔‘‘ ڈاکٹر نے انہیں سمجھایا، اور وہ متفکر ہوکر اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے۔
’’کہاں سے آئیں گے اتنے سارے پیسے۔‘‘ صالحہ بیگم نے ارسلان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’تم فکر نہ کرو، بس دعا کرو۔‘‘ ارسلان نے صالحہ بیگم کو تو تسلی دے دی مگر وہ خود کتنے مضطرب تھے، وہی جانتے تھے۔
’’چودھری صاحب میں ارسلان بات کررہا ہوں، وہ دراصل میرے بیٹے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، اگر آپ مجھے وہ پچاس ہزار روپے ابھی دے دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا۔‘‘ ارسلان منمنایا۔
’’مگر وہ تو کام ہونے کے بعد ملنے تھے۔‘‘ خاور صاحب غرائے۔
’’جی، شاہ زمان صاحب کو رہا کروانا میری ذمہ داری ہے، آپ بس ابھی پیسے دے دیں، مجھے ضرورت ہے۔‘‘ ارسلان صاحب کی آواز بھیگ گئی تھی۔
’’تمہارا بیٹا جیے یا مرے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر شاہ زمان کا کیس اگر تمہاری وجہ سے کمزور پڑا تو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ ‘‘چودھری صاحب نے بے رحمی سے فون کاٹ دیا اور ارسلان بالکل ساکت کھڑے تھے کہ صالحہ بیگم کی آواز آئی ’’لوگوں کے سامنے تو آپ نے جھک کر دیکھ لیا، اب اللہ کے آگے بھی جھک جائیں، اللہ سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگیں، وہ میرا رب بے نیاز ہے معاف کردے گا۔‘‘
’’کس منہ سے جاؤں اپنے رب کے پاس؟ اس کے سارے احکامات کی نفی کرتا آیا ہوں، اور آج دنیا نے ٹھکرا دیا تو اس کے سجدے میں چلا جائوں!‘‘ وہ گڑگڑا کر رونے لگے۔
’’کیا آپ کو نہیں معلوم کہ ایک نہ ایک دن تو اس کے حضور حاضر ہونا ہی ہے، تو وہاں کیا منہ لے کر جائیں گے! اگر وہاں دھتکار دیے گئے تو پھر کیا ہوگا! کبھی سوچا ہے کہ آج تو مہلت مل گئی توبہ کی، لیکن اگر اب بھی اپنے گناہوں کی معافی نہ مانگی تو اُس دن اپنا منہ کہاں چھپائیں گے؟‘‘صالحہ بیگم جذباتی ہوگئیں۔
’’میرا بچہ زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے، میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ آپ کے گناہوں کی سزا میرے بچے کو نہیں ملنی چاہیے۔‘‘
’’نہیں! نہیں ہوگا ایسا، میرا اللہ مجھے معاف کرے گا۔ میں نے اُس کے بندوں پر ظلم کیا ہے، لیکن اب اُس کے بندوں پر رحم کروں گا، میرے مولا! مجھے معاف فرما دے۔ اپنے گناہ گار بندے کو معاف فرما دے۔ میری آزمائش ختم کردے۔ میرا بچہ ہوش میں آجائے، میں تجھ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘ ارسلان روتے روتے سجدہ ریز ہوگئے۔ آج ان کا دل ہلکا ہوگیا تھا۔
’’اللہ آپ کو آپ کے فیصلے پر قائم رکھے۔‘‘صالحہ بیگم نے دل سے دعا دی۔
’’چودھری صاحب! یہ رہے آپ کے پچاس ہزار روپے، آپ کی امانت تھی سوچا لوٹا دوں۔ اور ہاں، شاہ زمان صاحب کا کیس میں نہیں لڑوں گا، اب آپ اُن کے لیے کوئی اور وکیل کرلیں۔‘‘ ارسلان نے نڈر ہوکر چودھری صاحب کو کہا۔
’’کیا بکواس ہے یہ؟ اپنے بیٹے کا کیس میں نے تمہیں اس لیے دیا تھا کہ تم ایک کامیاب وکیل ہو، اور کامیاب وکیل کبھی پیچھے نہیں ہٹتا۔ اگر اور پیسے چاہئیں تو بتاؤ، تمہارے بیٹے کا آپریشن بھی میں کرواؤں گا، بس میرے بیٹے کو جیل سے رہا کروا دو۔‘‘ چودھری صاحب اب بھی اپنی حیثیت کے غرور میں تھے۔
’’معاف کیجیے گا چودھری صاحب، میں بھول گیا تھا کہ وکالت بھی امانت ہے، اور اس میں کسی بھی قسم کی خیانت جائز نہیں۔ آپ کے بیٹے نے جرم کیا ہے، اس کی سزا تو اُسے ملے گی، اور رہی میرے بیٹے کی بات، تو جس رب سے میں نے مدد مانگی ہے، میرا توکل ہے کہ میرا مالک میری پکار ضرور سنے گا، اور ہم تو ہیں ہی اُس رب کی امانت، جانا تو وہیں ہے، آج نہیں تو کل۔‘‘ ارسلان نے بڑے سکون سے جواب دیا اور وہاں سے چلے گئے۔
’’ہیلو ارسلان‘‘… ارسلان ابھی کمرۂ عدالت سے نکلے ہی تھے کہ صالحہ کا فون آگیا۔
’’کیا ہوا صالحہ! عمیر کیسا ہے اب؟‘‘
’’عمیر کو ہوش آگیا ہے، ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ اب وہ خطرے سے باہر ہے، آپ جلدی سے آ جایئے۔‘‘
’’لیکن وہ آپریشن…؟‘‘
’’جس رب پر آپ کا اور میرا بھروسا ہے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ضرور ہے مگر کبھی اکیلا نہیں چھوڑتا۔ اس پاک پروردگار نے ہماری ایک توبہ پر ہماری سن لی جس کی ہم برسوں سے نافرمانی کرتے آئے تھے، ہمارے بیٹے کو ہوش آگیا ہے اور اب وہ بالکل ٹھیک ہے، بس آپ جلدی آجائیں۔‘‘ صالحہ بیگم کا رواں رواں تشکر سے لبریز تھا اور ارسلان صاحب اپنے رب کی عنایتوں پر ایک بار پھر سے سر بہ سجود تھے۔

حصہ