۔2019ء عمرانی سیاست کی جمناسٹک

656

گزرنے والا سال 2019 امیدوں اور آرزؤں کے بر آنے کا سال تھا۔ جب تبدیلی کے نام پر ، دو نہیں ایک پاکستان کے نام پر تحریک انصاف کو کامیاب کروایا گیا۔ پانامہ لیکس کے ملزمان کے خلاف احتساب کے نام اور مہنگائی کے خلاف آٹھ روپے فی یونٹ بجلی کا بل آجانے پر سول نافرمانی کی تحریک چلانے اور سر عام بجلی کا بل جلانے والے عمران خان سے نوجوانوں اور پاکستان بیرون پاکستان سب نے ہی امیدوں کے محل تعمیر کئے تھے۔ جو 2019 میں ہی دم توڑتے چلے گئے۔ خیر سے ‘ گھبرانا نہیں ہے ‘ کے اعلانات اور حالات میں بہتری آجا نے کے خوش کن اعلانات کے ساتھ بمشکل تمام 2019 بھی گزر گیا اور اب ہم کو 2020 کی ہوشربا مہنگائی کا سامنا کرنے کے لئے ذھنی طور پر تیار کیا جارہا ہے۔
کسی سیانے نے پوچھا کہ پچھلے سال اور اب کے سال میں آپ کیا فرق دیکھتے ہیں ؟ اس نے انتہائی سادگی اور معصومیت سے جواب دیا کہ 2019 اور 20 20 میں صرف انیس بیس کا فرق ہے۔ جس طرح پچھلے سال نہیں گھبرائے تھے اس سال بھی نہیں گھبرانا ہے۔بس چپ کر کے خاموشی سے ‘پھٹے ‘ پر لیٹ جانا ہے ! اب تو عالم یہ ہے کہ جب وزیر اعظم کہتا ہے کہ پاکستانیو ! گھبرانا نہیں ہے’ تو یہ سن کر عوام کی خوف کے مارے آنکھیں باہر آجاتی ہیں۔
یوٹرنز کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ ابھی سینٹ کے حا لیہ ا جلاس میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے کہا کہ ‘ جتنے یو ٹرنز جی ٹی روڈ پر ہیں حکومت نے اس سے ڈبل یو ٹرنز لے لئے ہیں ‘
2019 مجموعی طور پر لاقانونیت ، این آر اوز ، صدارتی آرڈیننس ، مہنگائی اور یو ٹرنز سے عبارت ہے۔ پاکستان کو ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھوانے کا سال قرار دیا جاسکتا ہے اسی سال پاکستان کی شہہ رگ’ کشمیر ‘ کی جدوجہد آزادی کا خا موشی کے ساتھ سودا کیا گیا ، یہ ہی وہ بدنصیب سال ہے جب ہندوستان کے مسلمان دشمن حکمران نریندر مودی کی کامیابی کے لئے پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم صاحب نے خصوصی دعا اور نیک تمناؤں کا پیغام بھیجا ، یہی وہ بدقسمت سال قرار پایا جب جہاد کشمیر کو حکومت پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ غداری کے مترادف قرار دیا گیا۔
عمران خان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے اگر پکڑا جائے تو کہتا ہے کہ غلطی سے ہوگیا ، اب نہیں ہوگا ! آپ کو یاد ہوگا کہ قادیانی مشیر خزانہ عاطف میاں کے حوالے سے بھی تعریفوں کے پل باندھے گئے تھے مگر جب پکڑائی میں آیا تو کہا ‘غلطی سے قادیانی مشیر لگا دیا گیا۔۔ اسی طرح کی غلطی نوائے وقت اور دیگر اخبارات میں قادیانیوں کا اشتہار چلانے میں بی سرزد ہوئی۔ جس پر کہا گیا کہ ‘غلطی سے چھپ گیا’۔اسی طرح غلطی سے اسرائیلی طیارہ پاکستان آ گیا، اور غلطی سے اسرائیلیوں کو پاکستان آنے کی مشروط اجازت دے دی گئی،۔اسرائیل کے حق میں قرارداد بھی نادانی میں پیش کی گئی اور آسیہ ملعونہ کی رہائی کا سہرا بھی اسی سال رونما ہوا ،۔غلطی سے اور حکمت کے تحت پاکستان میں گھس جانے والے پکڑے جانے والے ابھی نندن کو تحائف دے کر ہندوستان چھوڑنے کا اعزاز بھی اسی سال ہمارے حصے میں آیا۔
اب آجاتے ہیں وزیر اعظم کے فلاحی مملکت پا کستان اور دو نہیں ایک پاکستان کی جانب!
ایک ہفتے قبل وزیراعظم عمران خان نیازی بڑے جوش میں کہہ رہے تھے کہ 2020ء خوش خبریوں اور اچھی خبروں کا سال ہوگا۔ اپنے اس بیان پر دو گھنٹے بھی قائم نہ رہ سکے اورپیٹرول کی قیمت میں 2 روپے 61 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے 25 پیسے اضافی کی نوید سنا دی گئی۔ اب پیٹرول 118 روپے 60 پیسے کا ملے گا یہ بات طے شدہ تھی کہ پیٹرولیم کی قیمتوں سے تقریباً نصف سی این جی کی قیمت رکھی جائے گی۔ لیکن اب سی این جی کے نرخ پیٹرول سے بھی آگے نکل گئے ہیں ، کوئی ان سے پوچھنے ولا نہیں ہے کہ یہ ‘ ساٹھ پیسے کی رقم کیا ہے؟” اس کا حساب لینے والا کوئی نہیں آج تک کسی کو پیسے کا حساب نہیں دیا گیا۔ اگر کوئی ایک لیٹر پیٹرول ڈلوائے تو اس سے 120 روپے یا 119 روپے وصول کیے جائیں گے۔ایک روپیہ 40 پیسے یا 40 پیسے کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ پیٹرول و گیس کے نرخوں میں بے ایمانی کو صرف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے روکا تھا۔ اور 87 روپے پر پہنچنے والی سی این جی کو 43 روپے پر لایا گیا تھا۔ یہ فیصلہ زبردستی نہیں ہوا تھا بلکہ گیس کی قیمت، سپلائی ڈسٹری بیوشن، ڈیلرز کمیشن، لائن لاسسز اور دیگر اخراجات کو ملا کر یہ قیمت رضامندی سے مقرر کی گئی تھی لیکن کچھ ہی عرصے میں حکمرانوں اور سی این جی ڈیلرز کی ملی بھگت نے یہ دن دکھایا کہ اب گیس کی قیمت پیٹرول سے بھی زیادہ ہے اور پیٹرول کی قیمت خود بے قابو ہے۔ ا س فلاحی ریاست کا نعرہ لگا کر حکومت میں آنے والوں نے اس ایک سال کے دوران یعنی 2019ء میں 6 مرتبہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ کیا جبکہ گیس کی قیمتوں میں 4 مرتبہ اضافہ کیا۔ سب سے زیادہ خوفناک حملے بجلی کے نرخوں میں اضافے کے ذریعے کیے گئے اور یہ حملے سات مرتبہ کیے گئے۔ کراچی کے ساتھ حکومت پاکستان کا رویہ مسلسل سوتیلا رہا ہے۔ اس مرتبہ تو حد ہوگئی ، ریگولیٹری اتھارٹی نیپرا ، حکومت اور کے الیکٹرک گٹھ جوڑ نے کراچی کے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں کراچی کے عوام کی کھال اتارنے کے لیے نیپرا نے 4 روپے 90 پیسے اضافہ کرنے کی اجازت دے کر حملہ کیا ہے۔ کے الیکٹرک کو نیپرا نے چار سال کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کی اجازت دے دی ہے جبکہ قانون کے مطابق ڈسٹری بیوشن کمپنی کو دو ماہ سے زیادہ کے فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز وصول کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ نیپرا اس بات کا ابھی نوٹس نہیں لے رہی کہ کے الیکٹرک اپنے پلانٹ تو گیس پر چلا رہی ہے مگر صارفین سے پیسے فرنس آ ئل کے چارج کر رہی ہے ، اگر میں کہوں کہ’ کوئی شرم ہوتی ہے۔ حیا ہوتی ہے !’ تو اس میں برا کیا ہے ؟
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا ) مسلسل ملی بھگت سے کے۔الیکٹرک کے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ کراچی کے ساتھ ظلم یہ ہے کہ جو 22 ارب روپے کی رقم کلا بیک کی صورت میں کے الیکٹرک نے صارفین کو واپس کرنی ہے جو کہ قانون میں لکھا ہوا ہے اس کا تو کوئی شیڈول آج تک نہیں بنایا گیا مگر فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر چار سال کی رقم ایک سال میں وصولنے کا پلان لا گو کروادیا گیا ہے۔ دوسری اہم ترین بات یہ کہ کے ای ایس سی نامی ادارے کو اس لئے فروخت کیا گیا کہ اس کو سبسڈی دینی پڑتی ہے جو وفاق کے لئے بوجھ بنتی جارہی ہے ، مگر اب جو کے۔الیکٹرک کو ساڑھے چھ سو میگا واٹ کی سبسڈی دی جارہی ہے وہ کس کھاتے میں ہے ؟؟ نیپرا اور حکومت اس بارے میں مکمل خاموش ہیں۔
اصل میں دیکھا جائے تو یہ کھلم کھلا کے الیکٹرک کے فاؤنڈر سی ای او عارف نقوی کو نوازا جارہا ہے ، یہ عارف نقوی وہی بدنام زمانہ مافیہ ہے جو لندن میں منی لانڈرنگ کی سزا سن کر بھاگا ہوا ہے اور دبئی میں دبئی کی تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ بھگت کر آیا ہے ، مگر کیا کیا جائے کہ وزیر اعظم عمران خان کا منظور نظر اور وزیر اعظم کے مشا ورتی بورڈ کا اہم رکن ہے ، اور خیر سے الیکشن مہم کے دوران تحریک انصاف کو فنڈنگ بھی کرتا رہا ہے۔
معروف معاشی تجزیہ نگار جاوید اکبر انصاری کے مطابق ملک میں عمران خان کی نہیں بلکہ باقر رضا کی حکمرانی ہے۔ اسی سال پاکستان اسٹیٹ بینک کی تاریخ میں پہلی بار اسٹیٹ بینک کو باقاعدہ طور پر آئی ایم ایف کے کھونٹے سے باندھا گیا۔ اور جو ڈیل بنی وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ بینک کو آزاد کردیا جائے اور اس کے گورنر کی مدت حکمرانی قانونی طور پر تین سال سے بڑھا کر پانچ یا سات سال کر دی جائے۔اسٹیٹ بینک کی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکومتی گرفت سے نکل کر عالمی سود اور سٹہ کے بازاروں کا آلہ کا ربن جائے۔ اسی حوالے سے گیس، پٹرول اور بجلی کے نرخ ہر سہہ ماہی میں بڑھا نے کا بھی پیشگی وعدہ کرلیا گیا ہے۔
تاجر بدحال ہوتا جارہا ہے ، بیروزگاری کا طوفان مچا ہوا ہے ، کارخانے بند ہوتے چلے جارہے ہیں ، مہنگائی سے عوام بے حال ہوچکے ہیں۔ آمدن سے زائد اثاثوں کا تونوٹس لیا جارہا ہے پر آمدن سے زائد مہنگائی کے بوجھ کا نوٹس کون لے گا؟تبدیلی سرکار سے کھانے پینے کی اشیا اور دیگر معاملات کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے حکومت کا علم یہ ہے کہ وہ ایک ٹماٹر کی مہنگائی کی ذمہ داری لینے کے لئے بھی تیار نہیں۔
آئی ایم ایف کا وائسرائے باقر رضا اپنے آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ملک کو تباہ کیے جارہاہے۔خود آئی ایم ایف نے کہاکہ ان پالیسیوں کے نفاذ کے نتیجہ میں ملکی پیدوار میں شرح نمو اس سال صرف 2فیصد رہ جائے گی۔
لاقانونیت کا بھوت بری طرح سوار ہے۔ حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی کا نہ ہونا حکومت کی رٹ اور قانون کی بالادستی کے کھوکلے نعروں کے سوا کچھ نہیں۔
حکومت نے قومی اسمبلی کو مذاق بنا کر رکھا ہو اہے۔ آرڈیننس پر آرڈیننس جاری ہورہے ہیں ، اگر آرڈیننس سے ہی ملک چلانا ہے تو پھر قومی اسمبلی پا لنے کی بھلا کیا ضرورت ہے ؟ تازہ ترین آرڈیننس پچاس کروڑ تک کی کرپشن ، نیب کے دائرے سے باہر نکالنے سے متعلق ہے ، یعنی مطلب یہ ہوا کہ اگر کسی فرد نے پچاس کروڑ کی کرپشن کی ہوگی تو ‘ نیب ‘ کو یہ اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ ان سے بازپرس کر سکے ، یہ آرڈیننس اس وقت منظور ہوا جب بی آر ٹی منصوبے میں مبینہ بد عنوانیوں کا نوٹس لیا گیا ، ظاہر ہے اس میں صوبہ سرحد کی انصافی حکومت ملوث ہے ، اور کم و بیش یہ ہی بات وزیر اعظم نے بھی کی کہ ‘ہم نے آرڈیننس لا کر اپنے دوستوں کو تحفظ فراہم کیا ہے ‘
تحریک عدم انصاف کا ایک کارنامہ ” کھا یا پیا کچھ نہیں ، گلاس توڑا ، بارہ آنے بھی ہے ” سا را سال گرفتاریاں چھاپے اور’ این آر او نہیں دونگا ‘ کا ڈھونگ رکھا کر خوب گرفتاریاں ڈالی گئیں ، ہنگامہ مچایا گیا پاناما پیپرز لیکس کے بعد سے آج تک درجنوں سیاسی رہنما گرفتار ہوئے۔اور پاکستانی اشرافیہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ سامنے آیا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اس وقت کے وزیراعظم کے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی زور پکڑتا رہا۔حکومت کی جانب سے اس سارے معاملے کو مبینہ طور پر سنجیدگی سے نہ دیکھے جانے پر سب سے پہلے اپوزیشن جماعت ‘جماعت اسلامی’ کے امیر سراج الحق نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، ان کے بعد عوامی مسلم لیگ (ن) کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی اسے معاملے پر عدالت عظمیٰ میں پٹیشن دائر کی، بعد ازاں تحریک انصاف بھی اس معاملے میں فریق گئی۔
بعد ازاں نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف 3 ریفرنسز دائر ہوئے اور احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک ایک سال قید کی سزا سنادی۔بعد ازاں جولائی 2018 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے اور ملک کا اقتدار حاصل کر لینے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے اس بیانیے کہ بدعنوان سیاست دانوں اور دیگر اشرافیہ کا کڑا احتساب کیا جائے گا، میں مزید اضافہ ہوگیا اور ساتھ ہی قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے مزید رہنماؤں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے سلسلے کا آغاز ہوا، جس میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز، سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور دیگر شامل تھے۔ مقدمات پر مقدمات بن رہے تھے ، پاناما کیس۔ ایون فیلڈ ریفرنس۔ العزیزیہ ریفرنس چوہدری شوگر ملز کیس۔نواز شریف کے داماد کپیٹن (ر) محمد صفدر پر دیگر کیسز۔ آشیانہ اقبال اسکینڈل میں شہباز شریف سے قبل فواد حسن فواد، سابق ڈی جی ایل ڈی اے احد چیمہ، بلال قدوائی، امتیاز حیدر، شاہد شفیق، اسرار سعید اور عارف بٹ کو نیب نے اسی کیس میں گرفتار کیا تھا۔حمزہ شہباز کے خلاف نیب نے رمضان شوگر ملز، آمدن سے زائد اثاثہ جات اور صاف پانی کیس میں ریفرنس دائر کیے تھے، جس میں بتایا گیا تھا کہ رمضان شوگر ملز کے لیے حمزہ شہباز نے ایک نالہ تعمیر کروایا جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 21 کروڑ 30 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رانا ثنا اللہ کی گرفتاری ،انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے یکم جولائی 2019 کو پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر اور رکن قومی اسمبلی رانا ثنا اللہ کو پنجاب کے علاقے سیکھکی کے نزدیک اسلام آباد۔لاہور موٹروے سے گرفتار کیا تھا۔ قران پر قسم کھا کر وزیر داخلہ نے گرفتاری کے حوالے سے بتایا تھا کہ رانا ثنااللہ کی گاڑی سے منشیات برآمد ہوئیں، جس پر کارروائی کرتے ہوئے انہیں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں ، مگر عدالت میں سارے ثبوت ٹھائیں ٹھائیں فش ! اسی طرح شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل کی گرفتاری،ایل این جی کیس۔ خواجہ سعد رفیق، ان کے بھائی کی گرفتاری بھی !
آخری بڑی گرفتاری احسن اقبال کی ہے۔احسن اقبال کو اربوں روپے کے نارووال اسپورٹس سٹی پروجیکٹ سے متعلق کیس میں بیان ریکارڈ کروانے کے لیے نیب نے طلب کیا تھا، نیب کے اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ نیب راولپنڈی نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس اسکینڈل میں رکن قومی اسمبلی احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا۔ مگر آخر کار ہوا کیا ؟ آنیوں جانیوں کا کیا فائدہ ہوا سوائے اس کہ کہ ظالم مافیا ان کی حماقتوں سے مظلوم بن کر وکٹری کے نشان بناتے ہوئے با ھر نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ ایک پائی بھی نیب برآمد نہ کرواسکی اور سب کو یکے بعد دیگرے رہائی مل رہی ہے۔
سراج الحق نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ پوری کی پوری حکومت ‘ حریم اور صندل شاہ ‘کے موبائل میں بند ہے !
اور حریم شاہ بڑے مزے سے وزیر اعظم سیکٹریٹ کا دروازہ اپنی ٹانگوں سے کھول رہی ہے اور اس سچویشن میں حریم شاہ کی آواز میں بیک گراونڈ گانا چل رہا ہے ” میری مٹھی میں بند ہے کیا ، ؟ پوری عمرانی کابینہ۔پوری عمرانی کابینہ !”۔

حصہ