یہ وقتِ دُعا ہے

661

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
موضوع تو پرانا ہے مگر ہم سب لوگ اب جدید ٹیکنالوجی کی زد میں ہیں۔ اس نئی تہذیب نے ہم سب کو خصوصاً بچوں کو بڑی بُری مار ماری ہے۔ ادب، تمیز، اخلاق، شعور، سلیقہ، سگھڑاپا نام کی ہر خوبی سے لڑکوں، لڑکیوں کو بے بہرہ کردیا ہے۔ نئی نسل نے موبائل، فیس بُک، چیٹنگ سے اپنے آپ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ یہ ہر گھر کی کہانی ہے۔ اگر کوئی گھر ان خرافات سے محفوظ ہے تو بہت تعجب کی بات ہے، یقینا اس گھر پر اللہ کی خصوصی نظر عنایت ہے۔
جو بچے ماں باپ کے فرماں بردار، اللہ کے حقوق کو ادا کرنے والے اور معاشرے کو نبھانے والے ہیں، وہ قابلِ تحسین ہیں۔ ورنہ آج کل ہر ماں پریشان، باپ نادم اور بچہ خودسر، ضدی، ہٹ دھرم، بدتمیز اور اخلاق سے مبرا ہے۔ ابھی بیس پچیس سال پہلے تک باپ کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنا، یا گھر سے نکلتے وقت گھر کے بزرگوں کو سلام کرکے دُعا نہ لینا بڑی معیوب بات سمجھی جاتی تھی۔ مگر اب نئی تہذیب نے باپ بیٹے کے درمیان احترام اور محبت کے رشتے کو ختم کردیا، اب بزرگوں کو سلام کرنا یا اُن کے آگے سر جھکا کر دعا لینا دقیانوسی طریقہ ہے۔ اب ایک کمرے میں باپ بھی بیٹھا ٹی وی پر انڈین فلمیں دیکھتا ہے اور بیٹا بھی باپ کی طرف پیر کیے بے ادب لیٹا وہی فحش اور عریاں سین دیکھتا ہے جس سے باپ لطف اندوز ہورہا ہے۔ گستاخی اور ناقدری کے اس بے ہنگم دور میں نئی نسل کی تباہی اور بربادی کے ذمے دار والدین ہیں۔ ہمارا معاشرہ اسلامی اقدار کھو چکا ہے، باپ بیٹے کے درمیان ادب و احترام ختم ہوچکا ہے۔ بڑا عجیب سا احساس ہوتا ہے جب کسی تقریب میں بیٹی سے زیادہ ماں جوان بننے کی کوشش کرتی ہے۔ ادھیڑ عمر ماں اور جوان بیٹی ایک ہی عمر کی لگتی ہیں، کیوں کہ وہ یکساں میک اَپ اور لباس میں نظر آتی ہیں۔
مغرب کی نقالی سے بزرگوں کی روک ٹوک نئی نسل کو ناگوار گزرنے لگی ہے۔ پڑوسی ملک کی نقالی نے پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ بنادیا ہے جہاں بھانت بھانت کے لوگ ثقافت اور روایات کے نام پر آکر اپنے اپنے کرتب دکھاتے نظر آتے ہیں۔ میڈیا کسی بھی معاشرے کی روایات و ثقافت کا علَم بردار ہوتا ہے، ہمارا میڈیا عوام کو تفریح کے نام پر فحاشی، بے راہ روی کا سبق سکھا رہا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ہمارے ٹی وی چینل نوجوان لڑکے، لڑکیوں کو انتہائی مکروہ انداز سے خاندانی نظام توڑنے پر آمادہ کررہے ہیں۔ فحش اور بے مقصد ڈرامے، موسیقی کے بے سُرے بے تال مقابلے، لڑیں، لڑکیوں کے مخلوط اجتماعات ان کے ذہن میں صرف جنس اور جنسیت کو جنم دیتے ہیں۔ عورتوں کے برہنہ جسموں کی نمائش اور مخلوط محفلیں ان کو ہر قسم کی قید و بند سے آزاد کردیتی ہیں۔ نوعمر نسل میڈیا سے بہت جلد متاثر ہوتی ہے۔ جنسی مسائل پر بحث و مباحثہ، مخلوط تعلیم کی حمایت انہیں پُرجوش بنادیتی ہے۔ اس لیے یہ نسل بچپن کی حدود پار کیے بغیر بالغ ہوگئی ہے۔ بارہ سال کی عمر میں ماں بن جانے والی بچی کا شوہر صرف تیرہ سال کا بچہ ہے، جو نہ جانے کب بالغ ہوگئے! ہر اچھی بری بات خواہ جنسی ہو، معاشی ہو، معاشرتی ہو ان کی سمجھ میں آنے لگی ہے۔ اس لیے ان کی تربیت بہت زیادہ مشکل ہوگئی ہے، اور مائوںٍ نے یہ ذمہ داری ٹی وی اور موبائل کے حوالے کردی ہے اور خود بے فکر ہوگئی ہیں۔
آج کی مائوں میں بہت کم مائیں وہ ہیں جن کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ اکثریت اُن مائوں کی ہے جنہیں میڈیا کی روشن خیالی نے گھروں میں بچوں کی تربیت اور حفاظت کرنے کے بجائے پارلر، جم، فٹنس کلب اور دفاتر تک پہنچا دیا ہے۔ وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں چہرے کی پالش، جسم کو خوب صورت بنانے، اپنے آپ کو دیدہ زیب اور دلفریب بنانے میں صرف کررہی ہیں۔ اب بیوٹی پارلرز میں مرد عورتوں کا فیشل، میک اَپ اور مساج کرتے ہیں، اور بیوٹیشن نوعمر لڑکیاں مردوں کی یہ ساری خدمات انجا دیتی ہیں۔ گھر کے وہ تمام کام جن سے جسمانی ورزش ہوتی تھی، ماسیوں کے لیے مخصوص ہوگئے ہیں۔ بچوں کو ٹی وی اور نیٹ کے سپرد کرکے خود دفاتر میں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی اپنا قد بڑھانے کی کوشش کررہی ہیں۔ موبائل کی وبا نے لڑکے، لڑکیوں کو اتنا مصروف کردیا ہے کہ اب خاندانی رشتوں کی ان کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رہی۔ وہ چیٹنگ سے، موبائل سے ان تمام رشتوں کو پامال کررہے ہیں جو اللہ اور رسولؐ نے بنائے ہیں، وہ اخلاقی حدود کو پار کرکے ناجائز رشتے قائم کرنے میں مصروف ہیں۔ زنا کے مسلسل بڑھتے ہوئے واقعات ہماری اخلاقی پامالی کے آئینہ دار ہیں، معصوم بچیاں اس ظلم کا شکار ہورہی ہیں۔
بیس پچیس سال پہلے دن بھر کا تھکا ہارا مرد محنت مزدوری کے بعد گھر لوٹتا تھا تو بیوی کی خوب صورت مسکان اس کی دن بھر کی تھکن دور کردیتی تھی، بیوی کے ہاتھ کا پکا ہوا روکھا سوکھا کھانا بھی اسے دوسرے دن کی محنت کے لیے تیار کردیتا تھا۔ عورت کے ہاتھوں کا لمس، پیار سے گندھا ہوا آٹا اور محبت اور خلوص سے پکائی ہوئی روٹی اس کو ہوٹلوں میں جانے سے روک دیتی تھی۔ اب دن بھر کا تھکا ہارا مرد فریج سے کئی دن کا باسی کھانا نکال کر تندور سے روٹی لاکر کھانے سے بہتر یہ سمجھتا ہے کہ کسی ہوٹل میں جاکر کھانا کھا لے، پھر چاہے اس کے پیٹ کا جو بھی حشر ہو۔ اب کفایت، سلیقہ، محبت، خلوص، سگھڑاپا اجنبی سے الفاظ ہیں جو عورت نے اپنی ڈکشنری سے نکال دیے ہیں۔
وہ مکمل لباس جو عورت کے تحفظ کی ضمانت تھا، وہ اس نے مختصر کردیا ہے۔ عریانی اور فحاشی نے اسے اپنی قدر و قیمت سے بے خبر کردیا ہے۔ اپنے بچوں کو آغوش میں لے کر لوری دے کر سلانے کا تصور اب قصۂ پارینہ بن چکا ہے۔ ہر ماں جانتی ہے کہ ماں کی آغوش بچے کو سکون مہیا کرتی ہے۔ ماں کا دودھ بچے کو بے شمار امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ ماں کی لوری بچے کو کائنات میں موجود سُر سے آشنا کرتی ہے۔ وہ بچے جو مائوں کی گود میں پلتے ہیں، باشعور، ذہین، سمجھدار، محبت کرنے والے اور محبت بانٹنے والے ہوتے ہیں، بااخلاق اور باادب ہوتے ہیں۔ جن بچوں پر والدین بچپن سے توجہ دیتے ہیں، ان کی سیرت اور کردار میں کوئی جھول نہیں ہوتا۔ وہ احساسِ کمتری کے مریض نہیں ہوتے۔ جن گھروں میں بزرگوں کا احترام کیا جاتا ہے وہاں پرورش پانے والے بچے دوسروں کا احترام اور عزت کرنا جانتے ہیں۔ جو مائیں نرم خو، کشادہ دل اور رحم دل ہوتی ہیں ان کے بچوں میں وہ تمام خوبیاں ہوتی ہیں، کیوں کہ وہ مائوں سے یہ سب خوبیاں کشید کرتے ہیں۔ جن گھروں میں والدین میں ہمہ وقت لڑائی جھگڑا ہوتا ہو، ان کے بچے بڑے ہوکر دہشت گرد، ڈاکو، چور، حاسد، کینہ پرور اور دوسروں کی چیزوں کو زبردستی چھین لینے والے غاصب بنتے ہیں۔ بچہ ہمیشہ اپنے گھر کے ماحول سے خوبیاں اور خامیاں اپناتا ہے۔ جو والدین خود جھوٹ بولتے ہیں اُن کے بچے بڑے سے بڑے موقع پر جھوٹ بولنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ گھر کا ماحول اگر سازشی ہے تو بچے معاشرے میں سازش کرتے نظر آتے ہیں۔
قومیں جب اخلاق و کردار کی پستی میں مبتلا ہوکر اپنے دلوں کو زنگ آلود کرلیتی ہیں تو پھر اللہ کا عذاب بھی انہیں خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور جھنجھوڑنے میں ناکام رہتا ہے۔ پھر ان کے ہاتھ مغفرت کی طلب کے لیے اللہ کے سامنے نہیں اٹھتے۔ ان کے دل اس کی بارگاہ میں نہیں جھکتے۔ ان کے رُخ اصلاح کی طرف نہیں مڑتے، بلکہ وہ اپنی بداعمالیوں پر تاویلات اور توجیہات کے حسین غلاف چڑھا کر اپنے دل کو مطمئن کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ایسی نافرمان قوموں پر آسائشوں اور فراوانیوں کے دروازے کھول دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ رنگ رلیوں میں خوب مگن ہوجاتی ہیں اور اپنی مادی خوش حالی اور ترقی پر مغرور ہوجاتی ہیں۔ پھر اچانک ہی اللہ کا عذاب انہیں گرفت میں لے لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی ترقی اور خوش حالی اس بات کی ہرگز دلیل نہیں کہ وہ قوم اللہ کی چہیتی ہے۔ یہ دراصل ایک مہلت ہے جو اللہ کی طرف سے انہیں دی گئی ہے۔
اولاد اور مال و دولت انسان کی بہت بڑی آزمائش اور قرآن کی زبان میں ’’فتنہ‘‘ ہیں۔ آج کے دور میں اولاد کی نشوونما اور ارتقا کے لیے ماں باپ ہر جائز و ناجائز ذرائع استعمال کرتے ہیں، ان کے بہتر مستقبل کے لیے حلال و حرام کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ رشوت، سفارش، تعلقات… یہ تین ناجائز حربے ہیں جو آج کے معاشرے میں بہت عام ہیں۔
ابھی نصف صدی پہلے تک خاندانی شرافت اور اخلاقی اقدار کو اہمیت دی جاتی تھی۔ لڑکے، لڑکی کے رشتے طے کرتے وقت ان چیزوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ گھر کے بزرگ بچوں کے لیے دعا کرتے تھے، السلام علیکم کہہ کر ایک دوسرے کو سلامتی کی دعائیں دیتے تھے، اور بچے بھی ان دعائوں کے حصار میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے تھے۔ قرآن اور سنت کو اہمیت دی جاتی تھی۔ مذہبی اقدار کی پابندی اور پاسداری کی جاتی تھی۔ دن کا آغاز نماز اور قرآن کی تلاوت سے ہوتا تھا، اور جو کام اللہ کے نام سے شروع ہوتا تھا اُس میں لامحالہ برکت ہوتی تھی۔ اب گھروں میں خیر و برکت نام کی کوئی چیز نہیں، کیوں کہ بہت کم گھروں میں سحر خیزی کا نظام باقی رہ گیا ہے۔ دوپہر تک اٹھنا، اور چھٹی کے دن خصوصاً دیر تک سونا فیشن ہوگیا ہے۔ نمازِ فجر ادا کرنا قدامت پسندی ہے اور صبح سویرے فرشتوں کا رزق بانٹنا روایتی قصے کہانیاں ہیں۔ موجودہ نسل جس وبا میں مبتلا ہے وہ موبائل کی وبا ہے۔ مختلف کمپنیوں کے سستے پیکجیز نے ان کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ رات رات بھر لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ شیطان نے ان کو بے راہ روی پر مجبور کردیا ہے اور ان کی راتوں کو لذت آشنا کردیا ہے۔ زبان کو ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا فیشن اور جدیدیت کی علامت ہے جس میں اسلامی معاشرے کی نصف آبادی مبتلا ہے۔
آج ملک میں ہر قسم کی برائی اپنی جڑیں مضبوط کررہی ہے۔ اب وقتِ دعا ہے، عورت کی تقدیس و احترام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جہاں باحیا ماں ہو وہاں معاشرے میں شریف اولاد جنم لیتی ہے۔ جہاں شرافت ہو وہاں بااخلاق معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ ہمیں اب اپنی خامیوں کو تلاش کرنا ہوگا، انہیں دور کرنا ہوگا۔ اور قرآن و سنت پر عمل کیے بغیر ہم اب نہیں جی سکتے، یہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

حصہ