عورت کا اصل چہرہ

619

قدسیہ مدثر
میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے، اس ستون کی پائیداری اور مضبوطی کے لیے بہت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ لیکن جب ستون کو ہی دیمک کھا جائے تو وہ بظاہر تو خوشنما نظر آتا ہے لیکن اندر سے کھوکھلا ہوا جاتا ہے۔ اور کھوکھلا ستون کبھی بھی، کسی وقت بھی گرنے کا خطرہ لیے انسان کو کشمکش کا شکار رکھتا ہے۔
اس حوالے سے میڈیا پر بہت بڑی ذمہ داری آتی ہے کہ وہ اپنے دیکھنے والوں کو کیا دکھا رہا ہے۔ آیا کہ اس کو دیکھنے والے وہ کچھ دیکھنا بھی چاہتے ہیں کہ نہیں؟ آیا کہ میڈیا معاشرے میں مثبت سوچ کو پروان چڑھا رہا ہے یا منفی سوچ کو؟ یا یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ میڈیا معاشرے کی تعمیرو ترقی میں کتنا ممدو معاون ثابت ہورہا ہے؟ لیکن میرے خیال میں یہ باتیں ہوئیں پرانی۔ اب ہمیں نئے انداز سے دیکھنا اور سوچنا ہوگا۔
ایسی کیا وجوہات ہیں کہ معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہوگیا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں، شادی شدہ عورت و مرد کا کسی دوسری لڑکی یا مرد سے افیئر چلانا، لباس، چال ڈھال نقل شدہ، تہذیبی اقدار کا فقدان، بچوں کا ماں باپ سے بدتمیزی کرنا اور خاندانوں کی توڑ پھوڑ، لالچ، خود غرضی، بدکاری کا عام ہونا… ایسی بے شمار وجوہات اور آئے دن ہمارے آگے پیچھے واقعات کا رونما ہونا کوئی حادثاتی عمل نہیں۔ اگر غور و فکر کی عینک سے پرکھا اور ٹٹولا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ایسے واقعات حادثاتی ہرگز نہیں ہوتے۔ ان کے پیچھے محرکات ہوتے ہیں جو اپنا کام بنیادوں میں اتر کر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ بظاہر تو جلد عیاں نہیں ہوتے لیکن جب عیاں ہوتے ہیں تو پوری آب و تاب کے ساتھ معاشرے کو اپنے شکنجوں میں لے چکے ہوتے ہیں۔
پچھلے کچھ عرصے سے کچھ ڈرامے، کمرشلز، ایوارڈ شوز دیکھنے کا اتفاق ہوا، یقین جانیے انہیں دیکھنے کے بعد ایک عورت ہونے کے ناتے بہت شرمندگی محسوس ہوئی کہ میں ایک عورت، نسلوں اور تہذیبوں کی معمار، میں فاطمہؓ کا کردار، میں عفت و آبرو کا شاہکار، کیا اتنی سستی بک رہی ہوں! چند روپوں کی خاطر اپنے جسم، اپنے ایمان کا سودا کررہی ہوں! میں نے تو ہمیشہ پڑھا کہ عورت چھپاکر رکھنے والا وہ گوہر نایاب ہے جسے اللہ نے عزت دی۔ اسے ماں، بیوی، بیٹی، بہن کا روپ عطا کرکے مزید معتبر بنادیا۔ ہم کس رخ پر چل رہے ہیں؟ مثبت تفریح فراہم کرنے والا میڈیا ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو کس اندھے کنویں میں دھکیل رہا ہے؟ ہمارے ٹی وی ڈراموں کا سب سے اہم موضوع شادی ہے۔ ہر ڈرامے میں یہی دکھایا جاتا ہے کہ شادی کس طرح کرنی ہے، کس طرح اپنے عاشق کو حاصل کرنا ہے، کس طرح گھر سے بھاگ کر شادی کرنی ہے۔ کہیں ڈراموں میں اداکارائیں مغربی لباس پہن کر ہندوانہ رسومات کرتے دکھائی دیتی ہیں،کہیں مورتیوں کو کمرے میں سجاکر غیر قوموں کو خوش کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کسی ڈرامے میں محبت سے کی ہوئی شادی اور فرماں بردار شوہر کے ہوتے ہوئے دولت کی لالچ میں اپنے باس کے ساتھ افیئر دکھاتے ہیں۔ کہیں ماں باپ سے لڑائی کی وجہ محبوب کی جدائی ہوتی ہے۔
اب سوچنے کا مقام یہ ہے کہ دیکھنے والے پر اس سب کا کیا اثر ہوگا؟اس نے اپنے لیے کیا سبق حاصل کیا؟ اور اگر ایسے ڈراموں کو دیکھنے والی نابالغ لڑکی ہے تو اس نے محبوب سے شادی تک کے سفر میں اپنے لیے کیا سبق حاصل کیا۔
ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہماری معصوم نسل کو شوگر کوٹڈ زہر دیا جا رہا ہے، انہیں گھر اور معاشرے کا باغی بنایا جارہا ہے۔
میں نے 1980ء اور 1990ء کی دہائی کے ڈرامے بھی دیکھے، ان میں بیٹی کی ماں کا کردار سخت اور اصولوں کا پابند دکھایا گیا۔ ان میں بیوی کی وفا شعاری بھی دیکھنے کو ملی اور شوہر کی وفاداری بھی۔ خاندانی قدروں کی خوب صورتی بھی نظر آئی اور کچھ غلط کے بعد اس کا نتیجہ بھی نکلتا ہوا پایا۔ لیکن آج کل کے ڈرامے تفریح کے نام پر شخصیت کی توڑپھوڑ کا کام کررہے ہیں۔ ایک چیز جو شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے وہ ان ڈراموں میں عورت کو حقیر، کم ظرف، لالچی، خودغرض، شہرت اور دولت کی بھوکی، بچوں اور شوہر سے لاپروا اپنی دنیا میں مگن، شاپنگ، کپڑے، جوتے اور جیولری کی رسیا دکھانا ہے۔ سچ یہ ہے کہ یہ عورت کا غیر حقیقی چہرہ ہے ۔
عورت حقیر نہیں جیسے یہ میڈیا دکھا رہا ہے۔ عورت ایک ماں کے کردار میں سائبان ہے جو وفاداری سکھاتی ہے، محبت کرنا سکھاتی ہے، وفا کرنا، بچوں کی تربیت کرنا، اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر قربانی دینا، خاندان بنانا سکھاتی ہے۔ بیوی ہو تو وفا شعاری سکھاتی ہے، بہن ہو تو عزت کی رکھوالی بننا سکھاتی ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں جو معاشرے کی اصلاح کا کام کرتے ہیں۔ اگر آپ عورت کو اس کے برعکس دکھائیں گے تو بچے اپنی ماں کو جاہل، اَن پڑھ اور فرسودہ خیالات کی حامل سمجھیں گے۔ شوہر اپنی بیوی کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھے گا۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں مزید تیزی آئے گی۔ بھائی اپنی بہن پر بے جا پابندیاں لگائے گا۔ معاشرے میں موجود مرد کے ذہن کو آپ اتنا مشکوک بنادیں گے تو رشتوں کی ڈور کس طرح مضبوط ہوگی؟ کس طرح مستحکم خاندان وجود میں آئیں گے؟ کس طرح ہم اپنی آنے والی نسلوں کی تربیت اسلام کے مطابق کر پائیں گے؟
خدارا عورت کو اتنا حقیر مت دکھائیے کہ عورت اپنے آپ کو حقیر سمجھنا شروع کردے۔

شہادتِ دین ِحق کو زادِ سفر بنانا ہے

کرن وسیم

شہادتِ دینِ حق کو زادِ سفر بنانا ہے صاف کہہ دو
ستمگروں، ظالموں اور غلام ذہنوں سے صاف کہہ دو
نظامِ باطل ہوس پرستی کا شاخسانہ ہے صاف کہہ دو
تمہارے ظلم وستم سے انسانیت لہو میں نہا چکی ہے
کہ دشمنِ حق کے سارے انداز مجرمانہ ہیں صاف کہہ دو
قلوبِ انسانیت پریشاں کہ خونِ مسلم ہوا ہے ارزاں
منافرت کے بلند شعلے ہمیں بجھانا ہیں صاف کہہ دو
سفرکٹھن ہی ہے راہِ حق کا، قدم مگر ڈگمگا نہ پائیں
کلامِ ربی وجودِ باطل کا تازیانہ ہے صاف کہہ دو
چلو کہ رستے بلا رہے ہیں، چلو کہ منزل پکارتی ہے
کہ اہلِ غفلت کے سارے انداز کوفیانہ ہیں صاف کہہ دو
کہیں بھی سرنہ اٹھانے پائیں، زوالِ امت کا جو سبب ہیں
کہ دینِ برحق کوہی اصولِ جہاں بنانا ہے صاف کہہ دو
امیدِ نو کے دیے جلا کر دعا کے ہتھیار تھامنے ہیں
شہادتِ دینِ حق کو زادِ سفر بنانا ہے صاف کہہ دو
٭

حصہ