شرفِ ہمسائیگی

517

توقیر عائشہ
(آخری قسط)
فہد جیسے جیسے بڑا ہورہا تھا، اس کی ضروریات بھی بڑھ رہی تھیں۔ کبھی دانت نکلنے کے دن ہیں، کبھی گھٹنوں چلنا سیکھ رہا ہے، کبھی زکام، بخار ہے۔ خالدہ کی طاقت گھٹ رہی تھی، گو کہ ملازمہ بھی رکھی ہوئی تھی مگر بچے کے پیچھے بھاگنا ایک کام تھا، اور ملازمہ پر بھی نظر رکھنا ہی پڑتی تھی۔ حماد ماں کی بے آرامی دیکھ کر شرمندہ سا ہوجاتا۔ بہنوں نے دوسری شادی پر زور دینا شروع کردیا۔ حماد کو خود بھی بکھرا بکھرا بے ترتیب گھر اور بکھرا بکھرا دل بہت کچھ سمجھا رہا تھا۔ جب بہنوں نے اُس سے بات کی تو اُس کا کہنا تھا کہ ایک بچے کے باپ کو کون لڑکی دے گا! آج کا زمانہ ٹھیک ٹھاک مستقبل دیکھ کر رشتہ کرنے کا زمانہ ہے۔
خالدہ کا دل تڑپ اٹھا ’’نہیں بیٹا! اب بھی بہت لوگ ہیں، کوئی ہمدرد مل ہی جائے گی۔‘‘ یہ سن کر حمادکی مردانہ شان کو ٹھیس لگی۔ ’’میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر ترس کھا کر شادی کرے۔‘‘ بات الجھتی دیکھ کر وقتی طور پر موضوع بدل دیا گیا، مگر ظاہر ہوگیا تھا کہ حماد دوسری شادی پر آمادہ ہے۔
…٭…
اب خالدہ نے سوچا کہ خاندان میں تو سب ہی کو اس حادثے کا علم ہے۔ شاید چچی، تائی، خالہ کسی کے گھر سے انہیں مثبت جواب مل جائے۔ ایک دن اس خیال سے انہوں نے فہد کو تیار کیا اور اسے لے کر بڑی نند فرزانہ کے گھر پہنچ گئیں۔ لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ گود کا پیارا سا بچہ دیکھ کر اسے پیار کرتی ہیں اور کھیلنا چاہتی ہیں، سو اُن کی بیٹیوں ہما اور شمع نے لپک کر اسے گود میں بھر لیا اور کمرے میں لے گئیں۔ کچھ دیر تو فرزانہ بھاوج سے باتیں کرتی رہیں، پھر بیٹیوں کے کمرے میں جاکر درشتی سے کہنے لگیں ’’کبھی بچہ دیکھا نہیں ہے تم لوگوں نے! جائو اس کو مامی کو دے کر آئو۔‘‘
دونوں بیٹیاں اپنی ماں کے اس انداز پر حیران سی ہوگئیں۔ شمع نے کہا ’’امی کیا ہوگیا ہے آپ کو؟ یہ حماد بھائی کا بیٹا ہے، کوئی غیر تو نہیں۔‘‘
فرزانہ نے سختی سے کہا ’’بس جو تم سے کہا ہے وہ کرو۔‘‘
لائونج میں بیٹھی خالدہ تک آواز پہنچ رہی تھی۔ وہ اپنی نند کے اس رویّے کی گہرائی کو خوب سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے خود ہی پوتے کو بلا لیا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر گھر کی راہ لی۔ اس کے بعد وہ جس بھی عزیز کے ہاں گئیں، انہیں اسی قسم کے روّیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نے ظاہر کیا کہ بچیوںکے رشتے کی بات چل رہی ہے، اور کسی نے سمجھا دیا کہ ماں سے محروم بچے کے حقوق میں کمی بیشی ہوجائے تو اللہ کی پکڑ میں آجائیں گے، اس لیے معذرت۔
اچھا، مزے کی بات یہ تھی کہ اب بھی وہ انہی گھروں میں بہو کی تلاش میں جارہی تھیں جہاں کنواری لڑکیاں موجود تھیں، حالانکہ بتانے والوں نے تو کچھ ایسے رشتے بھی بتائے تھے جہاں دو ایک چھوٹے بچوں کی بیوہ ماں تھی یا کسی سبب علیحدگی ہوجانے کے باعث میکے واپس آجانے والی خاتون۔ اب جب وہ عزیز و اقارب سے مایوس ہوگئیں تو انہوں نے نوجوان بیوہ خواتین کی طرف توجہ کی۔ مطلقہ کا تو سن کر ہی وہ کانوں کو ہاتھ لگا لیتی تھیں اور یہ جاننے کی زحمت ہی نہ کرتی تھیں کہ وہ کیا حقیقی وجوہات تھیں جن کے سبب علیحدگی ہوگئی۔ ان کے خیال میں طلاق یافتہ ہونا عورت کے خراب ہونے کی سند ہوتی ہے۔
ایک نوجوان بیوہ خاتون تھی جس کا ایک ہی بچہ تھا، اس کے دیگر کوائف بھی مناسب لگے اور وہ خاندان بھی اس رشتے پر آمادہ تھا، مگر وہاں یہ شرط لگا آئیں کہ بچے کو اس کی دادی یا نانی کے پاس رہنا ہوگا۔ جب حماد کو اس بات کا علم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا۔
’’امی جان! بچے کا باپ اس سے جدا ہوگیا ہے تو آپ اسے ماں سے بھی محروم کردیں گی…! یہ ظلم نہ کریں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟ پرائے بچے کو پالو گے؟ پتا نہیں بڑا ہوکر کیسا نکلے، اور یتیم کے حق میں ہم سے اونچ نیچ ہوگئی تو خدا کے ہاں جو پوچھ گچھ ہوگی وہ الگ۔‘‘ خالدہ جھنجھلا کر بولیں۔ انہوں نے بڑی صفائی سے اپنی خودغرضی کو خدا کی پکڑ سے جوڑ دیا۔ حماد سے کچھ نہ کہا گیا، بس دن گزرتے جارہے تھے اور گوہرِ مقصود ملتا نہ تھا۔
…٭…
قسم قسم کے لوگوں کے رنگ اور مزاجوں سے مایوس ہونے کے بعد اب تینوں ماں بیٹیوں کی سمجھ میں آیا کہ کوئی خوفِ خدا رکھنے والی مذہبی خیالات کی حامل لڑکی تلاش کی جائے، پَر ایسا گھرانا کہاں سے لائیں؟ ایسے میں صبیحہ کو خیال آیا ’’امی جان! وہ جو آپ کی ایک دوست ہیں زبیدہ خالہ، ان کی بھی تو بیٹیاں ہیں۔‘‘
’’میرا تو کئی سال سے اُن سے رابطہ نہیں ہے، اب تو ان کی شادیاں بھی ہوچکی ہوں گی۔‘‘ خالدہ نے مایوسی سے کہا۔ اب وہ اپنے اس نظریے کو بھول گئی تھیں کہ ان کے خیال میں پردہ دار لڑکیوں کی شادیاں ہونا بہت مشکل ہے۔
’’ارے امی! چل کر دیکھتے ہیں کیا حالات ہیں؟ کیا طور طریقے ہیں؟ کیا خیال ہے؟‘‘ صبیحہ کے کہنے پر خالدہ نے اپنی سہیلی کو فون ملایا، عرصے بعد رابطہ کرنے پر زبیدہ بہت حیران ہوئیں۔ ملاقات کا وقت طے کرلیا گیا۔ صبیحہ کو ساتھ لے کر خالدہ اُن کے گھر جا پہنچیں۔ دونوں میں گلے شکوے ہوئے۔ صبیحہ درودیوار کا جائزہ لے رہی تھیں۔ سب کچھ معقول تھا اور ایک آسودہ حال گھرانے کا ہی اظہار ہورہا تھا۔ ایک دو، ڈھائی سال کا بچہ کھیلتا نظر آیا۔ خالدہ کا ماتھا ٹھنکا، فوراً پوچھ بیٹھیں ’’یہ کس کا بچہ ہے؟ ماشاء اللہ بڑا پیارا ہے۔‘‘
ایک لمحے کو زبیدہ کو ان کا پچھلا رویہ اور باتیں یاد آگئیں۔ انہوں نے بچے کے بارے میں ابھی بتانا کچھ مناسب نہ سمجھا، بس سرسری سا کہہ دیا ’’میرے عزیزوں کا ہے، بچیوں سے بڑا مانوس ہے۔‘‘ یہ سن کر ان کی جان میں جان آئی، ورنہ وہ اسے زبیدہ کا نواسہ سمجھ رہی تھیں۔ انہوں نے باتوں باتوں میں جان لیا کہ ان کے رشتوں کی بات ابھی چل رہی ہے۔ زبیدہ کو یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ حماد کی دلہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس کا بچہ دادی پال رہی ہیں۔ خالدہ نے گھر جاکر بیٹیوں سے مشورہ کیا اور اگلے ہفتے ہی باقاعدہ رشتہ لینے پہنچ گئیں۔ ان کا مدعا جان کر زبیدہ خاموش سی ہوگئیں اور پھر انہیں حقیقت بتانا پڑی: ’’رابعہ کا نکاح تو میں تین ماہ پہلے کرچکی ہوں۔‘‘
یہ سن کر خالدہ مایوس ہوگئیں، مگر پھر فوراً شکوہ کیا ’’تم نے اُس دن تو نہیں بتایا تھا… بات یہ ہے کہ حماد کے رشتے کے لیے جب بھی میں کہیں جاتی ہوں یہی کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ بات چل رہی ہے، نکاح ہونے والاہے۔ دراصل میرے بیٹے کا عیب یہ ہے کہ وہ ایک بچے کا باپ ہے…‘‘ وہ روہانسی ہوگئیں۔
زبیدہ نے کہا ’’اگر تم یہ سمجھ رہی ہو کہ حماد کے صاحبِ اولاد ہونے کی وجہ سے میں بہانہ بنا رہی ہوں تو جان لو کہ میری بیٹی رابعہ کا نکاح جس سے ہوا ہے یہ اسی کا بیٹا ہے، کچھ تمہارے جیسے ہی حالات ہیں اُن کے، اس کی ماں کا انتقال ہوچکا ہے، ہم بچے کو دوسرے تیسرے دن بلاتے ہیں تاکہ یہ رابعہ سے مانوس ہوجائے اور بعد میں آسانی سے ایڈجسٹ ہوسکے۔‘‘
اس ساری حقیقت کو جان کر وہ حیرت زدہ سی رہ گئیں اور قدرے مرعوب بھی ہوئیں، مگر ظاہر نہیں ہونے دیا۔
’’اوہ اچھا… بڑے اچھے انداز سے تم نے بچے کا خیال کیا ہے، اچھا تو تمہاری چھوٹی بیٹی کی تعلیم بھی تو مکمل ہوگئی ہوگی اب۔‘‘
خالدہ کا اشارہ سمجھ کر زبیدہ نے واضح کردیا کہ اس کا رشتہ بھی پچھلے جمعہ کو ہی طے پا چکا ہے اور ساتھ ہی جتا دیا ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ باپردہ لڑکیوں کے رشتے مشکل سے ہوتے ہیں، لیکن اللہ نے مجھے اس معاملے میں سرخرو کیا۔‘‘
اور یوں دونوں ماں بیٹی وہاں سے بے نیل و مرام واپس آگئیں۔ گھر آنے کے بعد مایوسی کے ساتھ جھنجھلاہٹ بھی ان کے انداز میں نمایاں تھی۔ نہ صرف یہ کہ زبیدہ کے بارے میں ان کے تمام تر اندازے غلط ثابت ہوئے تھے بلکہ زبیدہ انہیں ایک بلند مقام پر کھڑی نظر آئی تھیں۔ اس ملاقات کا احوال بھی تفصیل سے حماد کے گوش گزار کردیا گیا اور خالدہ یہ کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئیں کہ ’’صاحبِ اولاد ہونا تو میرے بیٹے کا جرم بن گیا، کوئی رشتہ دینے پر تیار ہی نہیں ہوتا۔ اب تو میں تھک گئی ہوں۔‘‘
البتہ حماد تادیر زبیدہ خالہ کی تربیت اور اُن کی بیٹی کے ہمدردانہ کردار پر غور کرتا رہا۔ ساتھ ہی اس سوال کا جواب بھی تلاش کرتا رہا کہ ایسے کیسز میں ہمدردی کے تمام تر جذبات لڑکی میں ہی کیوں ڈھونڈے جاتے ہیں؟ کبھی کسی مرد سے اس کی توقع کیوں نہیں کی جاتی؟
…٭…
ایک دن حماد دفتری امور سے جلد فارغ ہوگیا اور واپسی کے سفر کے لیے ایک شارٹ کٹ راستہ منتخب کیا جو گلیوں سے گزر کر مرکزی شاہراہ سے جا ملتا تھا۔ اسے ایک درخت کے نیچے چھڑی تھامے پروفیسر اکرام اللہ نظر آئے جو اس کے تعلیمی دور میں جامعہ کے ایک شفیق اور بہت سینئر استاد تھے۔ اس نے اُن کے قریب جاکر گاڑی روکی اور احترام سے انہیں گاڑی میں بٹھا لیا۔ معلوم ہوا کہ ان کی رہائش قریب ہی ہے۔ ابتدائی حال احوال معلوم کرتے ان کی رہائش آگئی۔ اترتے وقت انہوں نے پیش کش کی ’’آئو کچھ دیر بیٹھو، ایک ریٹائرڈ پروفیسر کے پاس آتا ہی کون ہے!‘‘ ان کا لہجہ ایسا تھا کہ وہ انکار نہ کرسکا۔ آرام دہ صوفے اور چند آرائشی اشیاء پر مشتمل سادہ سا ڈرائنگ روم کشادگی کا احساس دے رہا تھا۔ اتنے میں پروفیسر صاحب کے پاس ایک تین سالہ بچی ’’بابا، بابا‘‘ کہتی ہوئی آئی جسے انہوں نے بڑی محبت سے گود میں بٹھا لیا۔
’’ماشاء اللہ… پوتی ہے آپ کی؟‘‘ حماد نے خوش دلی سے پوچھا۔
جواباً پروفیسر صاحب نے کہا ’’نہیں، یہ میری نواسی ہے، بیٹا تو میرا کوئی ہے نہیں۔ تم سنائو تم بھی بال بچے دار ہوگے اب تو۔‘‘
’’جی… جی، ایک بیٹا ہے میرا چھوٹا سا…‘‘ پہلی ملاقات میں اسے اپنے ذاتی حالات بتانا اچھا نہ لگا۔
گھر میں کوئی چہل پہل اور آوازیں نہ ہونے سے حماد کو محسوس ہوا کہ شاید وہ تنہا رہتے ہیں، اور وہ پوچھنے لگا ’’آپ اکیلے رہتے ہیں یہاں؟‘‘
’’نہیں اب اکیلا نہیں ہوں، بیٹیوں کی شادیاں کردیں، پھر اہلیہ کے انتقال کے بعد اکیلا ہوگیا تھا، پر اب میری چھوٹی بیٹی میرے ساتھ ہے۔ یہ میری نواسی دو ماہ کی تھی کہ میرا داماد ایک حادثے میں انتقال کر گیا۔‘‘ پروفیسر صاحب نے تفصیلاً بتایا۔
’’اوہ! بہت افسوس ہوا۔‘‘ حماد کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ پھر اس نے قدرے جھجکتے ہوئے پوچھا ’’آپ کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں؟‘‘
پروفیسر صاحب نے جواب دیا ’’مجھے پنشن تو ملتی ہے، پھر میری بیٹی ماشاء اللہ تعلیم یافتہ ہے، اس نے اپنے آپ کو سنبھالا، اب ایک گرلز کالج میں لیکچرار شپ حاصل کرلی ہے۔ اب ہم نانا نواسی گھر میں ہوتے ہیں، شام تک کی ایک ملازمہ ہے جو بچی کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ بس گزارا اچھا ہورہا ہے۔‘‘
حماد بہت مرعوب ہوا، اس نے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا ’’اللہ آپ کو حوصلہ دے، میرے لائق کوئی خدمت ہو تو ضرور موقع دیجیے گا، مجھے اب اجازت دیجیے۔‘‘ پھر پروفیسر صاحب سے مصافحہ کرکے وہ رخصت ہوگیا۔
…٭…
پروفیسر صاحب کی اس ملاقات کے بعد سے حماد کو بار بار زبیدہ خالہ اور اُن کی بیٹی کا خیال آتا رہا۔ وہ ماں بیٹی ایک روشن مثال کی مانند اس کے ذہن پر جگمگا رہی تھیں۔ بالآخر اس نے ایک اہم فیصلہ کیا جس پر عمل درآمد کے لیے اسے سارہ کا تعاون درکار تھا۔
ایک دن حماد نے پروفیسر صاحب سے وقت لیا اور سارہ کو ساتھ لے کر اُن کے گھر پہنچ گیا۔ مہذب اور سنجیدہ سی زرین، سارہ کو بھائی کے لیے ہر لحاظ سے مناسب لگی تھی۔ پھر گھر جاکر دونوں نے ہفتے بھر کی خاموش کارروائی ماں کے سامنے رکھ دی۔ مگر وہی ہوا جس کا دونوں بہن بھائی کو اندیشہ تھا۔ تین سالہ بچی کا سن کر خالدہ سوچ میں پڑ گئیں۔ ان کو خاموش دیکھ کر حماد نے کہا ’’امی جان! آپ بچی کا سن کر پریشان ہوگئی ہیں ناں… ذرا سوچیے وہ تو یتیم بچی ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹا…‘‘ خالدہ نے کہا ’’اسی سے ڈرتی ہوں۔ تم سلطان کے بچوں کے اخراجات اٹھا تو رہے ہو۔‘‘
حماد امی کے قدموں میں بیٹھ گیا، اپنے پرانے انداز میں آہستہ سے اُن کے پائوں پکڑ لیے اور گویا ہوا ’’امی جان! یتیم کے حقوق ادا نہ کرسکنے کے خوف سے ہم اپنے آپ کو اُن ساری رحمتوں اور بشارتوں سے محروم کرلیتے ہیں جو نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم کی پرورش کے سلسلے میں عطا کی ہیں۔ میں سلطان مرحوم کے بچوں کی جو مدد کرتا ہوں وہ تو بس کچھ پیسوں کی حد تک ہے۔ اتنی عظیم الشان بشارتیں تو کسی یتیم کو زمانے کے سرد و گرم سے بچا کر اس کی اچھی تربیت کرکے اسے معاشرے کا کارآمد رکن بنانے کے لیے ہیں۔ ذرا سوچیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اُس گھر کو سب سے اچھا گھر قرار دیا ہے جہاں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ حُسنِ سلوک ہوتا ہو، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ امی جان کیا آپ نہیں چاہیں گی کہ آپ کے بیٹے کو جنت میں نبی کریمؐ کی ہمسائیگی کا شرف حاصل ہو؟‘‘ اس کی التجائیہ نگاہیں ماں کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔
خالدہ نے جو اب تک بڑے غور سے حماد کی بات سن رہی تھیں، دونوں ہاتھوں میں اس کا چہرہ تھام لیا۔ فرطِ محبت سے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگیں ’’میرے بیٹے کے خیالات کتنے اعلیٰ ہیں، میں نے تو اس پہلو سے کبھی سوچا ہی نہ تھا۔ کیوں نہیں، ان شاء اللہ ہمارا گھر معاشرے کا وہ بہترین گھر ہوگا جہاں باپ سے محروم بچی پورے حقوق اور اعتماد کے ساتھ پرورش پائے گی۔ تم پروفیسر صاحب سے ملاقات کے لیے وقت لے لو اور اُن پر واضح کردو کہ آپ سے ملاقات کے لیے میری ماں آنا چاہتی ہیں۔‘‘
…٭…
پروفیسر صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ حماد اپنی بہن اور پھر اپنی امی کو ملاقات کے لیے کیوں لایا ہے۔ ابتدائی سلام دعا کے بعد خالدہ نے حماد پر گزرنے والے حادثے سے انہیں آگاہ کیا جس سے وہ اب تک لاعلم تھے، اور پھر باقاعدہ طور پر زرین کا رشتہ مانگ لیا۔ ان کے تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ کئی سال بعد ملنے والے اپنے ایک طالب علم سے ہونے والی ملاقات یہ رخ اختیار کرے گی۔
ضروری احوال جاننے اور بیٹیوں سے مشورے کے بعد سب کچھ مناسب لگا۔ بہنوں نے زرین کو بڑی اونچ نیچ سمجھا کر اس رشتے پر آمادہ کرلیا۔
پھر ایک خوب صورت شام پروفیسر صاحب کے کشادہ ڈرائنگ روم میں ایک سادہ سی تقریب جاری تھی۔ اِدھر قاضی صاحب نے خطبۂ نکاح کی ابتدا کی اور اُدھر فرشتوں نے آسمان تک اس بابرکت تقریب پر اپنے پروں کا سایہ کردیا۔

حصہ