بے ہنگم غیرقانونی تعمیرات سے شہر کو سنگین خطرات لاحق ہیں، محمود ٹبہ

495

سید طاہر اکبر

ہم اپنے قارئین کا تعارف معاشرے کے ایسے افراد سے کراتے ہیں جنہوں نے اپنے شعبوں میں نہ صرف نمایاں کردار ادا کیا ہو بلکہ ملک کا نام بھی روشن کیا ہو۔ آج جس شخصیت کا تعارف پیش خدمت ہے انہوں نے بھی نہ صرف پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں نام پیدا کیا بلکہ برآمدات کے ذریعے زرِمبادلہ کمانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ آج کل تعمیرات کی صنعت سے وابستہ ہیں ٹبہ فیملی سے تعلق رکھتے ہیں اور’’ تعمیرات‘‘ کے نام سے ہی ان کا ادارہ ہے۔

محمود ٹبہ صاحب آپ یہ بتائیے کہ آپ کا بچپن کیسا رہا، گھر کے حالات اور اپنی ابتدائی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیے؟
سب سے پہلے تو میں جسارت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا۔ بالکل ہم پاکستان کے بیٹے ہیں اور پاکستان ہمارا ملک اور وژن ہے، ہماری تمام تر صلاحیتیں ہمارے ملک کے لئے ہیں، ہمارے لوگوں کے لئے ہیں۔
جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے گریجویشن کے بعد ماسٹرز کیا مارکیٹنگ میں ڈگری لی اور ساتھ ساتھ دیگر کورسز بھی کئے۔ گھر کا ماحول الحمد للہ ایک دینی مذہبی گھرانے سے تعلق ہے جہاں پر اسلامی اقدار کی پاسداری ضروری سمجھی جاتی ہے اور نماز، روزہ کے ساتھ ساتھ وقت کی پابندی کا لحاظ رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ میرے والدین نے ہمیشہ اس بات پر خصوصی توجہ دی۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو ٹیکسٹائل انڈسٹری سے جڑے گئے۔ میرے نزدیک ٹیکسٹائل پاکستان کی ایسی صنعت ہے جس سے پاکستان کا بچہ بچہ کسی نہ کسی طور جڑا ہوا ہے۔ میں نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز ٹیکسٹائل بزنس سے کیا۔ مینوفیکچرنگ کی طرف گیا، امپورٹ ایکسپورٹ کی اور الحمد للہ کافی کامیاب رہا۔ ٹیکسٹائل کے ساتھ ساتھ کنسٹرکشن انڈسٹری رئیل اسٹیٹ کی جانب رجحان ہوا اور باقاعدہ اس کی سمجھا اور پھر اس میں قدم رکھا۔ پچھلے پندرہ ، اٹھارہ سال سے اس شعبہ سے وابستہ ہوں۔
کل کے ماحول میں اور آج کے ماحول میں ، گھریلو نظام میں، اسکول کے نظام میں، خاندان کے نظام میں بنیادی طور پر کیا تبدیلیاں محسوس کرتے ہیں؟
کل کا جو ماحول تھا اس میں بہت سارے معاملات میں آپ کا صرف ذاتی مسئلہ نہیں ہوتاتھا بلکہ مربوط خاندانی نظام ہوا کرتا تھا۔ اپنے گھرانے کے ساتھ ساتھ آپ کا خاندان سے بھی تعلق ہوتا تھا۔ اس میں ایک محبت بھی تھی، اتحاد بھی تھا اور بہت ساری چیزیں ہم مل جل کر لیتے تھے۔ مختلف سرگرمیوں کے لئے وقت ہوتا تھا۔ خاندانوں کو وقت دے رہے ہوتے تھے۔ مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملتا تھا۔ وہ ساری چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہوتی چلی گئیں۔ بچوں کی زندگی صرف تعلیم تک رہ گئی ہے اور بدقسمتی سے پاکستان کا نظام تعلیم چونکہ ایک ایڈاپٹڈ تعلیمی نظام ہے جو کہ ہمارے لئے نہیں بنایا گیا بلکہ ہم کسی دوسرے کے تعلیمی نظام کی پیروی کرتے ہوئے اسے زبردستی خود پر مسلط کئے ہوئے ہیں اور جو کام زبردستی کیا جائے اس میں آپ کی توانائی بھی زیادہ صرف ہوتی ہے اور نتیجہ بھی نہیں نکل پاتا لہٰذا بچوں کے پاس دیگر مصروفیات کے لئے وقت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح دیگر معاشرتی اقدار بھی زوال پذیر ہوتی چلی گئیں، لوگوں کے رویوں میں بڑی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ایک طرح سے پورا نظام تقریباً یکسر تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔
ٹیکسٹائل انڈسٹری میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
ٹیکسٹائل ہماری صنعت کا ایک ایسا شعبہ ہے کہ اس کا ہر ہر شعبہ خود میں ایک صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔ ٹیکسٹائل ایک ایسی صنعت بھی ہے جس میں صبر کا بڑا عمل دخل ہے اور صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔
ٹیکسٹائل ایک بہت ہی الگ شعبہ ہے تعمیرات سے، کیسے آنا ہوا تعمیرا ت کی صنعت میں؟
دراصل ٹیکسٹال بزنس کے دوران ہی مجھے کچھ پروجیکٹس کنسٹرکشن کے حوالے سے ملے، اس میں دلچسپی پروان چڑھی پھر یہ بھی محسوس ہوا ہے کہ اس صنعت میں کام کرنے کو بہت ہے، سیکھنے کے بہت مواقع ہیں اور یہ شعبہ ایسا لگا کہ اگر اس میں محنت کی جائے تو بہت کچھ کرنے کو ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ ٹریننگ لی، پڑھا سیکھا، سمجھا اور اس کے بعد اس صنعت میں کام کا آغاز کیا۔ ویسے بھی میری عادت ہے کہ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے کوشش کرتا ہوں کہ اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کروں۔ کیونکہ یہی ریاضت آپ کی قوت فیصلہ کو تقویت دیتی ہے جس سے آپ عملی زندگی میں بہترین استفادہ کرسکتے ہیں۔آپ آباد کے بھی ممبر ہیں اور یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس نے سارے بلڈرز اور ڈیولپرز کو ایک چھتری فراہم کی ہے۔ آپ کا آباد کے ساتھ کیسا تجربہ ہے اور آباد اس صنعت کو درپیش مسائل کے حل کے لئے کیا کررہا ہے ؟
میرے نزدیک آباد ایک درسگاہ کا درجہ رکھتا ہے اور آباد سے جو شخص جڑ جاتا ہے وہ نکھر جاتا ہے۔ اس کی شخصیت، اس کے کام کرنے کی صلاحیت، سوچنے کا زاویہ بہت وسیع ہوجاتا ہے۔ وسیع النظری حاصل ہوتی ہے۔ آباد کا جو نظام ہی ایسا ہے جس میں آپ کے اندرکچھ کرنے کا جذبہ بیدار ہوجاتا ہے۔ ہماری انڈسٹری لوگوں کو شیلٹر فراہم کرتی ہے اور اس شیلٹر کی فراہمی میں ہمارے تمام ممبرز لگے رہتے ہیں، تگ و دو کرتے ہیں۔ بہت سے مسائل کا انہیں سامنا بھی رہتا ہے ان تمام مسائل کا وہ ذاتی طور پر بھی سامنا کررہے ہیں اور آباد ان کو مکمل تعاون دیتا ہے۔ پالیسی سازی میں، صنعت کی بہتری میں، کام کے معیار کو عالمی سطح پر لانے میں اور یہ کہ ہمارے ممبران اور صارفین کو کس طرح زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کی جاسکتی ہیں۔
حکومت کی جانب سے پچاس لا کھ گھر بنانے کی بات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ تقریباً سوا سالقبل اس منصوبے کا اعلان ہوا، اسے کب تک عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے؟
پچاس لاکھ گھروں کی جو بات کی گئی ہے اتنے بڑے پروجیکٹ کے لئے ظاہر ہے سب سے پہلے جگہ کی ضرورت ہے پھر اس کے بعد انفرا اسٹرکچر کی ضرورت ہے، اس کے بعد ایسی قابل عمل پالیسی کی ضرورت ہے جس کے تحت لوگ کام کرسکیں۔ آباد حکومت کو ہمیشہ ہی اس حوالے سے پیشکش کرتا رہا ہے کہ ہمارے لوگ اس پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمارے پاس ایسے لوگ ہیں جو اس طرح کا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن سب سے پہلے ایک مستحکم پالیسی کی ضرورت ہے کہ اس منصوبے میں جو بھی کام کرے اسے آزادی سے کام کرنے کا موقع ملے اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہ ہو۔ پچھلے تین سال سے ہماری انڈسٹری پریشانی کا شکار ہے، کام نہیں ہے، بیروزگاری بڑھتی جارہی ہے۔ کنسٹرکشن انڈسٹری سے وابستہ دیگر صنعتوں کا بھی برا حال ہے۔
کراچی کے انفرا اسٹرکچر کی جو صورتحال ہے، اس میں بلڈز مافیا کا نام لیا جاتا ہے، آباد نے بھی وزیر اعلیٰ کو اس حوالے سے درخواست دی کہ ایسے منصوبوں کی روک تھام کی جائے جو غیر قانونی ہے آپ کا کیا کہنا ہے یہ کس کا نقصان ہے؟
یہ ہمارے شہرکا، ہمارے ملک کا، ہمارے لوگوں کا نقصان ہے۔ یہ تو ایک طرح سے بم ہے۔ خدانخواستہ اگر کسی بھی قسم کا زلزلہ آجائے تو اندازہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا ضیاع ہوگا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس لاکھ سے زائد لوگ متاثر ہوسکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی خوفناک صورتحال ہے۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ظاہر اس کی روک تھام اور ان کارروائیوں پر نظر رکھنے کے لئے باقاعدہ ادارے قائم ہیں۔ قانونی طور پر جو تعمیرات کی صنعت سے وابستہ لوگ ہیں، ڈیولپرز ہے، کنسٹریکٹرز ہیں، آباد کے ممبران ہیں جب ہم کوئی کام کرنے جاتے ہیں تو ہمیں پانی سمیت دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے حوالے سے کئی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین سال سے ہماری انڈسٹری سخت مشکلات سے دوچار ہے۔مگر یہ جو شہر کے مضافاتی علاقوں میں کنسٹرکشن ہورہی ہے انہیں ساری سہولیات مل جاتی ہیں اور ایک طرح سے دیکھا جائے تودستیاب وسائل پر بوجھ بھی ہے۔ جو قاعدے کے مطابق کنسٹرکشن کرنے والے لوگ ہیں، ایک نظام کے تحت چلنے والے لوگ ہیں ان کے کام کو متاثر کرنے کا باعث بھی ہے۔
صنعت کو درپیش مسائل کے حوالے سے لوگوں کو سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے آباد کیا کررہا ہے؟
آباد نے ستمبر میں سی بی سی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے جس میں زمینوں کے کاغذات کے حوالے سے درپیش مسائل پر بہت جلد منصوبہ بندی کرنے والے ہیں۔ آباد کے تحت ایک باقاعدہ پالیسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ آئندہ جو بھی اسکیمیں آئیں اس کے لئے سی بی سی کے اندر ایک ایسا ادارہ ہو جہاں زمین کی الاٹمنٹ سے مکان کے بننے تک تمام چیزیں وہیں ہوں۔ جیسے سی بی سی کسٹوڈین ہے اسی طریقے سے ایک کسٹوڈین قائم کیا جائے۔ اس سے تمام معاملات میں نہ صرف شفافیت آئے گی بلکہ لوگوں کو سہولت بھی ہوگی۔ اس وقت فنانس سیکٹر کا کنسٹرکشن انڈسٹری میں کوئی رول ہی نہیں ہے اس کے لئے سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہمارے فنانس سیکٹر کو بھی مستحکم کیا جائے اور اس کے لئے کام کی ضرورت ہے۔ ہم خود بھی ایس ای سی پی کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ غیر قانونی تعمیرات ختم ہوں ۔ اس کے ساتھ ساتھ آباد سماجی سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیتا ہے۔ ووکیشن ٹریننگ سینٹر پر کام کررہے ہیں ان شاء اللہ اس حوالے سے بہت جلد منصوبے لارہے ہیں۔ آباد ووکیشن ٹریننگ سینٹرسے انڈسٹری کے لئے تربیت یافتہ افرادی قوت تیار ہوگی، جس میں انڈسٹری سے متعلق مختلف شعبوں کے لئے ماہر افراد تیار کئے جائیں گے۔ پھر ہمارے جتنے بھی ممبران ہیں ان کے اداروں میں انہیں روزگار بھی فراہم کیا جائے گا تاکہ ہم ایک پڑھا لکھا باصلاحیت نوجوان تیار کرسکیں اور ہمارا مقصد بھی یہی ہے کہ باصلاحیت اور پڑھے لکھے نوجوان تیار کریں جو ہمارے معاشرے میں مثبت کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔
تعمیرات میں ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کے حوالے سے آباد کوئی منصوبہ رکھتاہے؟
کراچی میں جہاں تعمیرات کے حوالے سے دیگر مسائل درپیش ہیں وہیں ماس ڈیولپمنٹ یا بیٹرمنٹ کی مد میں بلڈرز سے اچھی خاصی رقم لینے کے باوجود ادارے بنیادی سہولیات فراہم نہیں کرتے جس میں واٹر اینڈ سیوریج اور انفرا اسٹرکچر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ اداروں کا یہ کام ہے کہ جس مد میں جو رقم لی جارہی ہے وہ اس مد میں خرچ کریں اور بنیادی سہولیات فراہم کریں۔ بحیثیت بلڈر ہم ایک حد تک ہی کام کرسکتے ہیں۔ یہ اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے کہ کیوں وہ اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کررہے۔ خالد بن ولید روڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں پر کئی پروجیکٹ تیار ہوئیمگر سیوریج کی لائن کا ڈائیا میٹر نہیں بڑھاگیا حالانکہ تعمیرات کے باعث وہاں بڑی لائن کی ضرورت ہے۔ وہاں کے تمام بلڈرز اینڈ ڈیولپرز بیٹرمنٹ ادا کرتے ہیں جو اچھی خاصی رقم ہوتی ہے مگر اس کے باوجود وہاں کوئی کام نہیں ہوا۔ متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پروجیکٹ میں ہریالی کے حوالے سے آباد نے کچھ عرصہ پہلے اس حوالے سے کام کرنے آرکیٹیکٹس کے لئے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ایسے تمام لوگوں نے شرکت کی جو اس حوالے سے کام کرتے ہیں۔ اس کانفرنس میں اس حوالے سے کافی تجاویز پیش کی گئیں اور مختلف حوالوں سے بڑی سیرحاصل گفتگو ہوئی۔ اب آباد کے تحت جتنے بھی نئے پروجیکٹس بن رہے ہیں اس میں اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے کام کیا جائے۔
آپ کا پاکستان کے بیٹوں کو، بیٹیوں کوکیا پیغام ہے؟
پاکستان ہمارا وطن، ہم پاکستان سے ہیں، ہماری پہچان پاکستان سے ہے اور ہمیں اجتماعی حیثیت میں خود سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے پاکستان کو کیا دیا، اور ہماری یوتھ کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے کیا کرسکتی ہے، ہر ایک کو انفرادی طور پربھی خود سے یہی سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم پاکستان کو کیادے رہے ہیں؟ ہم ایسا کیاکام کررہے ہیں کہ وہ پاکستان کے لئے پاکستان کے لوگوں کے سود مند ہو۔

حصہ