بزم شعر و سخن ایک معروف ادبی تنظیم ہے‘ تاجدار عادل

859

نثار احمد نثار
بزمِ شعر و سخن ایک معروف ادبی تنظیم ہے جو تواتر کے ساتھ ادبی پروگرام ترتیب دے رہی ہے‘ یہ سخن فہم افراد پر مشتمل ایک ایسا ادارہ ہے جس کے عہدیداران و اراکین خفیہ رائے شماری سے منتخب ہوتے ہیں ابھی حالیہ الیکشن میں طاہر سلطان پروفیوم والا اس ادارے کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور آج کا مشاعرہ بھی ان کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار بزم شعر و سخن کے تحت ہونے والے مشاعرے کے مہمان خصوصی تاجدار عادل نے اپنی غزلیںسنانے سے قبل کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ بچپن ہی سے مشاعرے سنا کرتے تھے کیوں کہ ہمارے گھر کا ماحول علم پرور تھا میرے والد بھی شاعر تھے جب میں جوان ہوا تو میں نے مشاعرے آرگنائز کیے لیکن ٹی وی کی ملازمت کے دوران کبھی اپنے اشعار نہیں سنائے۔ میری شاعری کی کتاب’’مات ہونے تک‘‘ شائع ہوچکی ہے تاہم میں اپنی مصروفیات کے باعث دوسرا شعری مجموعہ ترتیب نہیں دے سکا ان شاء اللہ اس طرف توجہ دوں گا۔ مشاعرے کے صدر رفیع الدین راز نے کہا کہ تاجدار عادل ایک قادر الکلام شاعر ہیں ان کے کئی شعر حالتِ سفر میں ہیں ان کی شاعری جدید لفظیات اور زندہ استعاروں سے مرصع ہے آج بھی انہوں نے بہت عمدہ غزلیں سنائی ہیں۔ صاحبِ صدر نے مزید کہا کہ طارق جمیل او ران کے رفقائے کار بہت محنت سے ادبی تقریبات منعقد کرتے ہیں ان کا ہر پروگرام کامیاب ہوتا ہے‘ ان کے پروگرام میں شعر و سخن سے دلچسپی رکھنے والے افراد موجود ہوتے ہیںاور دل کھول کر داد پیش کرتے ہیں جس سے شاعری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ تنظیم ہر سال ایک بڑا مشاعرہ منعقد کرتی ہے جس میں کراچی اور دوسرے صوبوں کے شعرا شریک ہوتے ہیں۔ بزم شعر و سخن کے صدر طاہر سلطان پرفیوم والا نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ہمارا کام ادب کی خدمت کرنا ہے‘ ہماری تنظیم کے تمام افراد متحد ہو کر پروگرام بناتے ہیں‘ ان شعرا کو مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی جاتی ہے جن کی ہماری تنظیم منظوری دیتی ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم نئے شعرا کو سامنے لائیں اور تجربہ کار شعرا کا کلام بھی سنیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو کو رومن اردو کے بجائے اردو رسم الخط میں لکھا جائے تاکہ اردو کی انفرادیت قائم رہے۔ مشاعرے بھی ہماری تہذیبی روایت ہے اس ادارے کے تقدس کو قائم رکھا جائے اور ہر سطح پر مشاعرے کرائے جائیں۔ ہم گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی 23 مارچ کو عالی شان مشاعرہ منعقد کرنے جارہے ہیں آپ تمام سے درخواست ہے کہ آپ ہمارے ہاتھ مضبوط کریں ہم چاہتے ہیں کہ ہم غریب شعرا کی کتابیں اپنے خرچ پر شائع کریں ہم بہت سے شعرا کی کتابیں خرید کر عوام تک پہنچاتے ہیں تاکہ کتب بینی فروغ پائے اور کمپیوٹر کے ساتھ ساتھ ہمارے لوگ کتابوں سے بھی استفادہ کریں۔ طارق جمیل نے کلماتِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کے پروگرام کے شرکاء کو چھ بجے شام بلایا تھا تاکہ مشاعرے سے قبل ’’گیٹ ٹو گیدر‘‘ میں کچھ موضوعات پر گفتگو ہو سکے خدا کا شکر ہے کہ ہم اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے۔ آج جن مسائل پر بات چیت ہوئی ان میں ادب پروری کے علاوہ یہ بات بھی زیر بحث آئی کہ ہم اپنی اسلامی اور تہذیبی روایات سے دور ہوتے جارہے ہیں جس کے باعث بہت سی پریشانیوں کا سامنا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزاریں اسی میں ہماری دینوی اور دنیاوی ترقی مضمر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اپنے شیڈول کے مطابق مشاعرہ شروع کرچکے تھے اور مشاعرے کا اختتامی وقت ساڑھے نو بجے شب تھا لیکن ہم آدھا گھنٹہ لیٹ ہوگئے اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے سامعین اور شعرا کے درمیان انتہائی خوش گوار فضا قائم رہی اور مشاعرہ لمحہ بہ لمحہ پُر لطف ہوتا رہا‘ وہ اس سلسلے میں تمام شعرا کے علاوہ سامعین کے بھی شکر گزار ہیں کہ وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہمارے مشاعرے میں تشریف لائے۔ مشاعرے کے نظامت کار سلمان صدیقی تھے جنہوں نے بڑی عمدگی سے مشاعرہ چلایا اور کہیں بھی ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ انہوں نے اسٹیج پر بلاتے وقت ہر شاعر کا تعارف کرایا‘ ان کے اس انداز کو بے حد سراہا گیا۔ مشاعرے کا آغاز تلاوت کلام مجید سے ہوا‘ رضا حیدر نے نعت رسولؐ پیش کی۔ اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ رونق حیات‘ آصف رضا رضوی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف نثار احمد نثار‘ نجیب ایوبی‘ حنیف عابد‘ سعد الدین سعد‘ احمد سعید خان‘ پروفیسر ظہیر قندیل‘ خالد میر‘ ڈاکٹر شکیل فاروقی‘ ضیا زیدی‘ تنویر سخن اور احسن طارق نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ طارق جمیل کی رہائش گاہ پر منعقد ہونے والے مشاعرہ کا اختتام شان دار ڈنر پر ہوا۔

پی ای سی ایچ کالج برائے خواتین میں مشاعرہ بہ یاد پروین شاکر

گزشتہ ہفتے پی ای سی ایچ کالج برائے خواتین میں بہ یادِ پروین شاکر مشاعرہ منعقد کیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر فاطمہ حسن نے کی۔ مہمان خصوصی پروفیسر رضیہ سبحان تھیں۔ پروفیسر ڈاکٹر الماس روحی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ پروگرام کالج کے قائداعظم آڈیٹوریم میں ترتیب دیا گیا تھا جس میں طالبات کے علاوہ سامعین کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مشاعرہ گاہ بہت خوب صورتی سے سجائی گئی تھی جس کا کریڈٹ کالج انتظامیہ اور طالبات کو جاتا ہے۔ مشاعرے میں سب سے پہلے طالبات نے اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی اس کے علاوہ جن شاعرات نے کلام نذر سامعین کیا ان میں ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ پروفیسر رضیہ سبحان‘ ڈاکٹر رخسانہ صبا‘ ڈاکٹر عنبرین حسیب عنبر‘ پروفیسر ڈاکٹر فرحت عظیم‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ حمیرہ راحت‘ غزل انصاری‘ ہما بیگ‘ سحر علی سحر‘ آئرن فرحت‘ ہما اعظمی‘ شائستہ سحر‘ عظمی حسن‘ پروفیسر گل فرح اور ڈاکٹر رخسانہ جمیل شامل تھیں۔ کالج کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر تطہیر فاطمہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب ہر تعلیمی ادارے میں بزم ادب موجود ہوتی تھی جس کے تحت ادبی و علمی پروگرام ترتیب دیے جاتے تھے۔ دھیرے دھیرے یہ روایت ختم ہوگئی ہم نے اپنے کالج میں کوشش کی ہے کہ ادبی پروگرام منعقد کراتے رہیں‘ مشاعرہ بھی ایک ادبی تقریب ہے جس سے زبان و ادب فروغ پاتے ہیں آج تمام شعرا نے بہت عمدہ کلام سنایا۔ ڈاکٹر نزہت فاطمہ حسن نے کہا کہ آج کے مشاعرے میں جن طالبات نے کلام سنایا وہ اس بات کی گواہی ہے کہ اس کالج کی طالبات میںشعری ذوق موجود ہے اور سخن فہم سامعین بھی ہر اچھے شعر پر داد دے رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کچھ ضروری کام ہیں جس کی وجہ وہ پورا مشاعرہ سماعت نہیں کر پائیں گی میرے جانے کے بعد پروفیسر رضیہ سبحان مشاعرے کی صدارت کریں گی۔ پروفیسر رضیہ سبحان کی صدارت میں مشاعرہ مکمل ہوا۔ انہوں نے اپنے ترنم اور خوب صورت شاعری سے مشاعرہ گرمایا اور بہت داد حاصل کی۔ انہوں نے اپنا کلام سنانے سے پہلے کالج انتظامیہ کی اس ادبی پروگرام کو بے حد سراہا اور امید ظاہر کی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ اس موقع پر کالج کی طرف سے تمام شاعرات کو یادگاری شیلڈ پیش کی گئی۔

بزمِ مینائے غزل کا طرحی مشاعرہ

بزمِ مینائے غزل شمالی کراچی کا طرحی مشاعرہ فراست رضوی کی صدارت میں منعقد ہوا‘ مہمان خصوصی پروفیسر صفدر علی انشاء تھے۔ تقریب میں رونق حیات اور الطاف احمد کو اعزازات سے نوازا گیا۔ مشاعرے میں فراست رضوی‘ صفدر علی انشاء‘ رونق حیات‘ ڈاکٹر شوکت اللہ خان جوہر‘ لیاقت تمنائی‘ احمد سعید خان سعید‘ آصف رضوی‘ منظر جوہری‘ سعد الدین سعد‘ محمد اسماعیل میمن‘ زین افغانی‘ شہزاد سلطانی‘ آصف سلطانی‘ ایوب صابر اور زین سطوت نے اپنا کلام سنایا۔

اکادمی ادبیات کراچی کے تحت جشن قائداعظم اور مشاعرہ

اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے زیر اہتمام چار روزہ جشن قائداعظم کے موقع پر مذاکرے کا انعقاد کیا گیا۔ افتتاحی تقریب کی صدارت نامور شاعر جاذب قریشی نے کی جب کہ مہمانان خاص رخسانہ صبا‘ ڈاکٹر نثار احمد نثار‘ یاسمین یاس اور حنیف عابد تھے۔ اس موقع پر جاذب قریشی نے کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں 13 جنوری 1948ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا یہ بیان ان کے اس واضح نظریے کی عکاسی کرتا ہے کہ حصول پاکستان کا مقصد صرف ایک خطہ اراضی کا حصول نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان کو اسلامی نظام کے عملی نفاذ کا مرکز بنانا چاہتے تھے جو اسلامی دنیا کے لیے ایک عملی مثال ہو‘ ان کے پیش نظر اسلامی حکومت کا جو تصور تھا اس پر مزید روشنی ان کی 1948 کی ایک اور تقریر سے پڑتی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ’’اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفا کیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ معروف شاعرہ رخسانہ صبا نے کہا کہ پاکستان کے قیام سے صرف سولہ ماہ قبل قائداعظم محمد علی جناح کا یہ ارشاد اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ ان کے سامنے ایسے پاکستان کا تصور تھا جو علاقائی‘ لسانی تعصب‘ مفاد پرستی اور تنگ نظری سے پاک ہو۔ جہاں اعلیٰ اخلاقی صفات کے حامل افراد اسلامی روایات و اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ پاکستان بلا شبہ مذہب کے نام پر قائم ہوا لیکن پاکستان مذہبی تعصب اور تنگ نظری سے قطعاً پاک ہے۔ اس موقع پر اکادمی ادبیات پاکستان کراچی کے ریزیڈنٹ ڈائرکٹر قادر بخش سومرو نے کہا کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان جغرافیائی طور پر دو حصوں پر مشتمل ہوگا‘ یا ایک متحدہ ریاست ہوگی اس بارے میں تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما مولانا عبدالحامد بدایونی لکھتے ہیں ’’یہ صحیح ہے کہ اجلاس لاہور 1940ء میں جو قرارداد منظور ہوئی تھی اس میں بھی وہ آزاد مملکتوں کا حصول اس لیے چاہتے تھے کہ جہاںٍ اسلام کے عدل و انصاف اور مساوات کے اصول عملی طور پر رائج ہوں اور لوگ اپنی دیرینہ روایت اور تمدنی خصوصیات کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرے کا انعقاد کیا گیا جس میں جاذب قریشی‘ رخسانہ صبا‘ نثار احمد نثار‘ عرفان علی عابدی‘ یاسمین یاس‘ ہدایت سائر‘ شجاع الزماں خان‘ تنویر سخن‘ نظر فاطمی‘ حنیف عابد‘ منصور ساحر‘ ڈاکٹررحیم ہمراز‘ افضل ہزاروی‘ سید اوسط علی جعفری‘ تاج علی رعنا‘ حمیدہ کشش‘ عامر جونیجو‘ کوثر گل نے کلام پیش کیا اور قائداعظم محمد علی جناح کو خراج تحسین پیش کیا۔ آخر میں قادر بخش سومرو نے مہمانان گرامی کا شکریہ ادا کیا۔

حصہ