مسلمان عورت چار مضبوط ستونوں کے سائبان میں

1377

افروز عنایت
شاپنگ مال عورتوں اور مردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ 50 فیصد خواتین کا سرے سے دوپٹہ ہی غائب تھا جو مردوں کی ’’نظروں کی داد‘‘ حاصل کررہی تھیں۔ شوز کی دکان میں داخل ہوئی تو سامنے ہی دس گیارہ سال کی فربہ و توانا بچی کرسی پر بیٹھی تھی… جس نے فراک کے ساتھ چڈی پہنی ہوئی تھی۔ دکاندار اس کے قدموں میں بیٹھا تھا۔ لڑکی کا ننگا پائوں (پنڈلی تک) اس کے دونوں ہاتھوں میں تھا۔ اس بچی کے ساتھ اس کی والدہ اور والد بھی تھے۔ بچی کی صحت مند اور فربہ ٹانگیں گھٹنوں سے اوپر تک ننگی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے نہایت دکھ ہوا کہ وہ بچی تو ناسمجھ ہے۔ کیا اس کے باپ کی کوئی ذمہ داری نہیں؟ اسے اپنی بیٹی کی عریاں ٹانگ آنکھوں میں نہیں کھٹک رہی تھی؟ کیا وہ اتنا بیگانہ تھا بیٹی سے کہ اُس کی بیٹی کی ننگی ٹانگ دکاندار کے ہاتھوں میں تھی! یہاں قصور کس کا ہے؟ ماں کے ساتھ باپ کا زیادہ ہے۔ میری آنکھیں شرم سے جھک گئیں۔
٭…٭
سرمد نے تنقیدی نگاہوں سے بہن کو دیکھا جو گلے میں دوپٹہ (برائے نام) لیے گھر سے نکلی اور گاڑی میں جا بیٹھی۔ اُس نے بہن کو تو کچھ نہ کہا لیکن اماں سے ضرور کہا کہ بہن بڑا دوپٹہ لے لے… اماں کو بھی احساس ہوا۔ آئندہ انہوں نے اس بات کا خیال رکھا اور پیار سے بیٹی کو بھی احساس دلایا۔
٭…٭
سلمان صاحب: بیگم آج تک ہمارے خاندان کی لڑکیاں یونیورسٹیوں میں پڑھنے نہیں گئیں، یہ خاندان کی پہلی لڑکی ہے جو یہاں تک پہنچی ہے۔ یہ اپنے طریقِ کار سے دوسری لڑکیوں کے لیے راستہ کھول بھی سکتی ہے اور بند بھی کرسکتی ہے، لہٰذا اس بات کا خیال رکھنا اب تمہاری ذمہ داری ہے۔
سلمان صاحب روایت دار اور نرم مزاج انسان تھے، وہ اپنی بچیوں پر بے جا سختیاں کرنا مناسب نہیں سمجھتے تھے، لیکن انہیں کھلی چھو ٹ دینا دینِ اسلام سے دور کرنا تھا، لہٰذا بیوی کو خاص ہدایت کردی اور ساتھ میں بیٹوں کی ذمہ داری بھی لگا دی کہ بہن کو یونیورسٹی لے جانے اور لے کر آنے کی ذمہ داری لیں۔ اس طرح سلمان صاحب کی بیٹی نے باپ اور بھائیوں کے زیر سایہ تعلیم حاصل کی۔ خاندان اور برادری کی دوسری بچیوں پر بھی اس کا مثبت اثر ہوا اور اُن کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی راہیں کھلیں۔
٭…٭
ٹی وی کے کسی چینل پر بولڈ لڑکی کے بے ہودہ ڈائیلاگ سے نہایت رنج ہوا کہ یہ سترہ اٹھارہ سالہ لڑکی بے ہودہ لباس پہنے ہوئے گھر سے نکلی ہوگی۔ اس کے باپ اور بھائی کی نظر اس کے حلیے پر نہیں پڑی ہوگی۔ یا یہ جو یہاں بے ہودہ ڈائیلاگ بول رہی ہے، والد اور بھائیوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوں گے… جی نہیں، یہ والد اور بھائیوں کی مرضی سے ہی یہاں تک آئی ہوگی، اور آگے نہ جانے اسے کن کن گندے راستوں سے لوگوں سے واسطہ پڑے گا…
٭…٭
میں اپنے چاروں طرف ایسے کئی مناظر دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ آج باپ، بھائیوں، شوہر اور بیٹوں کو کیا ہوگیا ہے…!
عورت کے گرد رب العالمین نے یہ چار مضبوط رشتے رکھے ہیں جن کی ذمہ داری صنفِ نازک کے نان نفقے تک ہی محدود نہیں، بلکہ انہیں عزت، وقار اور تحفظ فراہم کرنا بھی ہے۔ یعنی ان کی جائز خواہشات کی تکمیل، ان کے حقوق کی پاسداری، اور ان کو تحفظ و پُروقار مقام دلانا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں یہ چاروں مضبوط رشتے عورت کو لوگوں کی گندی نظروں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ چاروں رشتے مثبت طریق کار، تحمل اور بردباری سے اپنے فرائض کی تکمیل کرسکتے ہیں۔ الحمدللہ ہم مسلمان خواتین خوش قسمت ہیں کہ رب العالمین نے ہمارے گرد یہ چار مضبوط رشتے مانندِ ستوں رکھے ہیں، اور ان چاروں رشتوں (ستونوں) نے عورت کو مضبوط حصار میں لیا ہوا ہے۔
تمام مکاتبِ فکر، اقوام اور مذاہب میں دینِ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے عورت کو تحفظ، عزت اور تکریم عطا کرنے کے لیے اسے یہ چار مضبوط ستون فراہم کیے ہیں جو اپنے فرائضِ منصبی پر رہتے ہوئے نہ صرف عورت کو دنیا کی برائیوں اور گندگیوں سے محفوظ رکھتے ہیں بلکہ خوشیاں و مسرت بھی دے سکتے ہیں، اور یہ سب کچھ وہ دائرۂ اسلام کے مطابق ہی کرسکتے ہیں۔ عورت کے گرد یہ چار مضبوط ستون باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا ہیں۔ خدانخواستہ اگر یہ اپنے فریضے سے غافل ہوگئے اور عورت سے ’’غلطی‘‘ سرزد ہوگئی تو قیامت کے دن ان چار ستونوں سے بھی پوچھ گچھ ہوگی۔
آج معاشرے میں عورت کو ایک ’’اشتہار‘‘ بنادیا گیا ہے، وہ بے لگام گھوڑے کی طرح دوڑتی جارہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس کے گرد یہ چار ستون کمزور پڑگئے ہیں جو اس کی لگام کھینچ سکیں۔ چند دہائیاں پیچھے کی طرف جائیں تو صورت حال اتنی گمبھیر نہ تھی۔ عورت اپنی اسلامی حدود کے مطابق آگے بڑھ رہی تھی، اور یہ چاروں ستون و محافظ اسے گمراہی کے گڑھے کی طرف بڑھنے نہیں دیتے تھے۔ ہمارے والدِ محترم اور بھائی ہمیں براہ راست کچھ نہ کہتے تھے لیکن ان پانچوں کی آنکھیں ہمارا پہرہ دیتی تھیں۔ ان کی خواہش کے مطابق ہم بہنیں لباس زیب تن کرتی تھیں، اور کہیں گھر سے باہر نکلتیں تو ان میں سے ایک ضرور ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اگرچہ گھر کا ماحول پابندیوں والا اور سخت نہ تھا، والد اور بھائی ہمیں یہ بھی باور کراتے کہ وہ ہم پر اعتماد بھی کررہے ہیں۔ ہمارے گھر کے یہی ستون تھے جن کی وجہ سے ہمیں اچھے برے کی پہچان بھی ہوتی اور ایک تحفظ بھی حاصل ہوتا تھا۔ اماں کو بابا کے خیالات اور طریق کار معلوم تھا، بابا براہِ راست نہ کہتے لیکن اماں ہماری تربیت بابا کی منشا کے مطابق کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ آج بھی ہمارا رہن سہن، لباس اور طریق کار وہی ہے جس کی بدولت ہمیں اپنے شوہروں کے گھروں میں بھی دقت محسوس نہ ہوئی اور ہماری پرانی روش قائم رہی۔ باپ ہو، بھائی ہو، شوہر ہو یا بیٹا… اللہ رب العزت نے انہیں عورت کے مقابلے میں زیادہ مضبوط وتوانا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہمیں (خواتین کو) بھی اس کا احساس ہے، اور بڑی خوبصورت تعلیم ہے دینِ اسلام کی کہ مرد کو بے شک مضبوط و محافظ بنایا۔ لیکن عورت کو بھی بے پناہ حقوق عطا فرمائے گئے ہیں جو کہ کسی مذہب میں نظر نہیں آتے۔
آج چاروں طرف عورت کی بے باکی، عریانی، اور آزادی دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا ہے کہ یہ چاروں ستون کمزور پڑگئے یا لڑکیوں کی ابتدائی تربیت ایسی کی جارہی ہے کہ انہیں ان چاروں سے کوئی سروکار نہیں، یا وہ ان چاروں کو اہمیت نہیں دے رہیں اور اپنی من مانی کررہی ہیں۔ اگر لڑکی کی تربیت اُس کے باپ نے صحیح نہیں کی تو یقینا اس کے گھر کا پہلا ستون ہی کمزور تھا یعنی اس کا باپ… جیسا کہ میں نے اوپر اپنے والد کا ذکر کیا، جو ہم بہنوں کے لیے ایک مضبوط ’’سائبان‘‘ تھے۔ اسلام نے بیٹیوں کی تعلیم و تربیت پر باپ کو جنت کی بشارت اسی لیے دی ہے کہ یہ پہلا ستون ہی اس (عورت) کی مضبوط عمارت (مومن عورت) بنانے میں معاون ثابت ہو۔
حضرت ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کی دو بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے جوان ہونے تک ان کو کھلاتا پلاتا ہے تو وہ اس کو جنت میں لے جائیں گی۔ (ابن ماجہ) ۔
(یہاں بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور پرورش مراد ہے)
اسی طرح آپؐ نے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان مساوی برتائو کا بھی حکم دیا ہے تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہو۔ اسی طرح شوہر بھی بیوی کو چھت اور تحفظ فراہم کرتا ہے، اور بیوی کو بھی اُس کے فرائض سے خبردار کیا گیا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں غیر شادی شدہ اور شادی شدہ خواتین بے لگام اپنی پسند کی زندگی گزارنا پسند کرتی ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت سی برائیوں نے جنم لیا ہے جس میں طلاق بھی شامل ہے۔ مرد کا ہر رشتہ اعتدال اور توازن میں رہ کر عورت کو دنیا کی گندگی، ہوس بھری نگاہوں، اور بے حیائی سے بچا سکتا ہے۔ میں نے اپنے اردگرد ایسے بہت سے جوڑے دیکھے ہیں جن میں ایک اگر دینی رجحان کا حامل ہے تو دوسرے کو بھی اس کے لیے قائل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ لہٰذا میاں بیوی میں سے اگر بیوی نیک وپارسا ہے اور اسے یہ احساس ہے کہ میرا شوہر آزاد خیال ذہنیت کا مالک ہے۔ آگے چل کر وہ اپنی اولاد کی پرورش بھی ان ہی خطوط پر کرے گا، تو اگر وہ شوہر اور اولاد کی بھلائی چاہتی ہوگی تو یقینا شوہر کو نیکی کی طرف راغب کرے گی، اور ایسا ناممکن ہے کہ وہ اپنے مثبت و محبت بھرے انداز سے مرد کو قائل نہ کرسکے۔ یہی طریق کار مرد بھی عورت کے لیے استعمال کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔
آج کی یہ لبرل عورت اس مصنوعی، تباہ کن سانچے سے باہر نکل کر آخرت کی سوچے، اور ان چاروں مضبوط وتوانا ستونوں کو رب العزت کی طرف سے اپنے لیے انعامات اور احسانات سمجھ کر ان کی حیثیت کو دل سے تسلیم کرے، جن کے لیے رب العزت نے خود فرمایا کہ ’’مردوں کو ان پر (عورتوں پر) فضیلت ہے‘‘۔
ان چاروں مردوں (ستونوں) کو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے اپنے فرائض کو ایمان داری سے نبھانا ہوگا، تاکہ دنیاوی عورتوں کے رشتوں کی بدولت انہیں آخرت کی رسوائی حاصل نہ ہو… کیونکہ ان کے معاملے میں آخرت میں ان سے پوچھ گچھ ہوگی۔

حصہ