لا نفصام لھا

724

فریدہ ظہیر
زاہدہ صرف نام ہی نہ تھا، وہ اسم بامسمیٰ تھی۔ دنیا سے کمال درجہ بے رغبتی۔ عمر چھ، سات سال تھی تو تسبیح ہاتھ میں، کام کرنا ہو تو گلے میں۔ بڑے بھائی جان کہتے ’’امی اسے وزیر اوقاف بنادیا جائے گا…‘‘ تاہم وہ اور بڑی ہوئی تو فوراً کہتی ’’نہیں… بڑے بھائی جان! وزیر تو بڑا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں نافرمانی کا… مجھے صرف اللہ کی بندی کہیے۔‘‘ اور سب ہنس پڑتے۔ اسکول گئی تو اور فرسٹ کلاس اسٹوڈنٹ، ہمیشہ اوّل آتی۔ ساتویں میں بہترین مقرر، زبان کی چاشنی سب کو مزا دے جاتی۔ ایسی مسجع و مقفیٰ کہ استاد بھی ایک دوسرے کو دیکھنے لگتے۔ حساب کی ٹیچر ماجدہ آپا نے ایک دن پوچھ ہی لیا: ’’کسے پڑھتی ہو تم؟‘‘
’’جی، رجب علی بیگ سرور اور رتن ناتھ سرشار کو۔‘‘
’’صاحبزادی ذرا میر امن کو بھی دیکھ لیا کرو…‘‘اور بڑی ہوئی تو میگزین سیکریٹری چن لی گئی۔ نہم میں ڈرامیٹک کلب کی صدر بن گئی۔ فرسٹ بھی آتی رہی، تقریری انعام بھی لیتی رہی، میگزین پر کام بھی عمدگی سے جاری تھا… یعنی ہردلعزیز شخصیت تھی۔ گھر میں انداز دیگر تھا۔ آپا جان خوب صورت، گوری چٹی۔ وہ عام سے نقوش اور سانولی رنگت والی۔ کوئی پسند نہ کرتا۔ امی تو مجسم حسن تھیں۔ اس کا دل چاہتا کہیں اور چلی جائے۔ نکتہ چینی سن سن کر ساکت سی ہوجاتی۔ ’’یہ وحیدہ کی بیٹی نہیں ہوسکتی۔ یہ سعیدہ کی بہن نہیں لگتی…‘‘ پھر نماز نے استقامت عطا کی اور وہ کہنے لگی ’’یہ اللہ کی مرضی تھی، کسی کو شکل، کسی کو عقل۔‘‘ سب ہنس پڑتے مگر کہنے کا یارا نہ ہوتا سوائے نانی اماں کے، جو بلند آواز سے کہتیں ’’لاجواب کردیا ناں تم کو… ذرا سوچو قابلِ فخر کیا ہے: کسب، محنت، کوشش۔ پھر من موہنی ہے، گوری نہیں تو کیا ہوا؟‘‘ اس کا دل بڑا ہوجاتا۔ میٹرک میں فرسٹ کلاس آئی۔ یہ گھر میں پہلی بار ہوا تھا، ورنہ بھائی بہن سب سیکنڈ ڈویژن تھے۔ سب سے چھوٹی تھی، سب نے خوب خوشیاں منائیں۔ انہی دنوں آپا جان بیاہ کر پردیس سدھاریں۔ امی کا پیار امنڈنے لگا۔ حجاب نے یہ پیار عطا کیا۔ تفسیر پڑھ کر سمجھاتی گھر میں، تو سب نہال ہوجاتے۔ ابا تھے نہیں، یہ اس کا بہت بڑا غم تھا۔ مگر اس نے جان لیا تھا کہ اللہ صابرین سے خوش ہوتا ہے۔ بس دعا جاری تھی کہ ’’حشر میں جنت عطا کیجیے، ابا تو بہت نیک تھے، مجھے اُن سے ملنا ہے‘‘۔ امی نے بتادیا تھا کہ ابا کا رنگ سانولا تھا۔ نانی اماں نے ان کی خوبیوں کو بھانپ کر اپنی پریوں جیسی بیٹی بیاہی تھی۔ اگرچہ نانا مخالف تھے، مگر وہ پھر بھی نانا ابا سے ناراض نہ ہوئی۔ ہر ایک کی پسند ہے، جبر کہیں نہیں۔ مگر جب آپا جان اپنی سرخ و سفید رنگت پر اتراتیں، اس کا تمسخر اڑاتیں تو وہ کہہ اٹھتی ’’حضرت بلالؓ میرے نبیؐ کو بہت پسند تھے‘‘۔ اور نانی اماں اس کی بلائیں لیتیں۔
وہ بی اے کرچکی تو نہایت گورے چٹے میاں کا سامنا تھا۔ وہ سہم سی گئی۔ آپا جان کی تلخ کلامی یاد تھی اسے، لوگ بہت تنگ نظر ہیں نہ جانے کیا ہو۔ مگر وہ تو انتہائی فراخ دل نکلے۔ پہلا ہی جملہ تھا ’’تم اس قدر جاذبِ نظر ہو کہ رشک آتا ہے، مجھے تو سارے دوست شلجم کہتے تھے تم تو مایوس نہیں ہوئیں؟‘‘
اور اسے اپنی قسمت پر رشک آنے لگا ’’صبر کا پھل میٹھا‘‘
’’کیا؟‘‘ وہ بولے اور دونوں ہنس پڑے۔ زندگی اب مزید دلچسپ ہوگئی تھی۔ سسرال تو جو کہتی برملا نہ کہتی، مگر نندوئی سامنے آکر بات کرتے ’’تم کو تو وحیدہ رحمان کہوں گا میں۔‘‘ اسے پتا بھی نہ تھا کہ یہ کون ہستی ہیں، مگر خود بھائی صاحب نے بتایا کہ ’’انڈین اداکارہ کا نام ہے جو بڑی دل کش سانولی سلونی ہے۔‘‘
مگر بغیر جھجک اس نے کہہ دیا ’’پلیز اداکارہ سے مشابہت مجھے پسند نہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی نیک پروین خفا نہ ہونا، ورنہ جنت نکل جائے گی۔‘‘ اور یوں محفل زعفران زار ہوگئی۔ بیٹا آیا تو شاہزادوں جیسا اور بیٹی حور شمائل۔ لوگ کہتے واہ، اللہ نے کیسا نوازا اسے۔ اور وہ سجدہ ریز ہوجاتی ان عنایتوں پر۔
وقت تو ہوا کے دوش پر سوار نکل جاتا ہے، وہ العصر پڑھ کر خسارے سے دور تھی۔ وتواصو بالحق وتواصو بالصبر۔ دونوں کام مدت سے جاری تھے۔ مگر آزمائش کڑی شے ہے۔ بچپن گزرا، غیر ہوں یا اپنے، نشتر لگتے رہتے تھے، گھائل ہوتی رہتی تھی، آپا جان کے تند و تیز جملے برداشت کرتی رہتی تھی۔ مگر اب سامنا اولاد کا تھا۔ بیٹی تو یقینا خاندان بھر میں سب سے خوبرو تھی، مگر زبان اس کی خنجر تھی۔ ماں کے برعکس ہر عمل جیسے اس پر لازم تھا۔ حجاب سے انکار، کوٹ سے نفرت، پھر دوپٹہ بھی دور پھینک دیا گیا کہ مغربی لباس کے ساتھ بھلا کیا جوڑ! اور پھر بال بھی شانوں پر بکھرنے لگے۔ کبھی برائون کلر، کبھی گولڈن… واہ واہ کا شور ہر طرف، اور اس کی سسکیاں گھٹی گھٹی۔ مجھے برداشت کرنا ہے، یہ میری کڑی آزمائش ہے، مجھے سرخرو ہونا ہے۔
یہ سب ناز و انداز سسرال کی دین تھے۔ ساس فخریہ کہتی تھیں: ’’ہم نے بدل دیا، اب تُو بیٹھی ڈھول بجا‘‘۔ وہ ڈھول سے ہمیشہ کوسوں دور رہی تھی، اب یہ پھبتی اس پر چسپاں کی جارہی تھی۔ اسے کڑوے گھونٹ پینے تھے۔ سہیلیاں بہت مخلص تھیں۔ صفیہ، راشدہ سمجھاتیں تمہارے گھر سے اللہ کی بندی گئی تھی… تم ہلکان نہ ہوا کرو۔ جانتی تو ہو 18 سال کے بعد خود جواب دہ ہیں۔ مگر اس نے تو ساس سے، سسر سے، لڑکے سے وعدے لیے تھے نماز کے، ستر کے، سب منحرف ہوگئے۔ پکڑ اس کی تو نہ ہوگی… مگر اولاد… کیسے… کیونکر… یا اللہ لوٹا دیجیے دوبارہ… یہاں تو میں کنارہ کشی اختیار کرسکتی ہوں۔ اتنا یارا ہے مجھ میں… مگر حشر میں… آگے اندھیرا چھا جاتا… یہ کربلا کا سامنا تھا… اللہ… زبان سے نکلتا اور پھر زبان جیسے تھم سی جاتی… زندگی اب کرب و بلا تھی مگر صبر لازمی تھا… سو کیسے جاتی…! گھٹ رہی تھی۔ بڑھاپا خود روگ ہوتا ہے، اور اب تو کریلا اور نیم چڑھا ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ اقبال نے کیوں کہا… کس کے لیے کہا؟
وہ کمزور نہیں پڑی تھی۔ ہر مقام پر تحمل اور برداشت کا دامن تھامے رہی تھی… شادی اس کی آزمائش تھی… کڑی آزمائش… وہ آزمائشوں سے گزرتی رہی تھی۔ مگر اب… پھر وہ نماز اور توبہ کو کھڑی ہوجاتی۔ توجہ دی تو دیکھا بیٹی نماز کی پابند ہے۔ آس بندھی، نماز روکے گی اسے۔ سیلاب کے بعد سکون ہوگا… وہ خوش آئند جذبوں کے ساتھ قرآن کی طرف متوجہ ہوجاتی۔ میاں کے بعد یہ واحد سہارا تھا۔ لانفصام لھا۔ کبھی نہ چھوٹنے والا…

حصہ