این آر سی، دو قومی نظریہ اور بھارتی مسلمان

813

راشدعلی
این آر سی کے نفاذ کے بعد بھارتی عوام سراپا احتجاج ہے۔ مودی اور اس کا اسسٹنٹ امیت شاہ بین الاقوامی امن کو سبوتاژ کرنے کے لیے غیر آئینی اقدامات کررہے ہیں۔ این آر سی اسی فساد کی ایک کڑی ہے۔ بھارتی پارلیمنٹ میں قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کی Two nation theory کا ذکر 72 سال بعد دوبارہ ہوا ہے۔ بھارتی دانشور دوقومی نظریہ کی بابت بھرپور بحث کررہے ہیں۔ بھارتی مسلمان یہ کہنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ محمدعلی جناح کا دوقومی نظریہ حقیقت پر مبنی تھا۔ نریندر مودی اور امیت شاہ کے اقدامات نے بھارتی اقلیتوں جھنجھوڑ کررکھ دیا ہے۔ این آر سی پرقلم آرائی سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ تاریخ کے اوراق پر سرسری نظر ڈال لی جائے۔
دوقومی نظریہ سے متعلق مختلف آراء ہیں بعض کے نزدیک محمد بن قاسم کی راجا داہر کے خلاف جنگ اور اسلام کی ترویج دوقومی نظریہ کی بنیاد ہے۔ بعض کے نزدیک برصغیر میں پہلے ہندوئوںکا قبول اسلام دو قومی نظریے کی بنیاد تھا۔ ظاہر ہے جس شخص نے بتوں کی پرستش چھوڑ کر ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مان لیا تو اس نے ان تمام رسوم و روا ج ا ور تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیا جس پر وہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اس نام تک کو ترک کر لیاجو اسے پیدائش پر دیا گیا تھا۔ یہی کچھ بر صغیر میں ہوا اور ایک نئے نظریہ زندگی نے جنم لے لیا جو موجودہ طرز زندگی سے با لکل مختلف تھا۔ اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں میں چلتی ہوئی دو قوموں کی صورت میں موجود رہے۔ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لے کر تا وقت اپنا تشخص برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس ایک دین، مذہب اور اصول تھے۔ اس کے برعکس ہندو مذہب محض رسوم ورواج کا ایک مجموعہ ہی ہے وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو ان کے فائدے یا نقصان کا باعث بنے۔ بعض کے نزدیک تحریک خلافت، تحریک علی گڑھ، علامہ اقبال کے افکار، قائد اعظم محمد علی جناح دو قومی نظریے کے بانی ہیں۔ دو قومی نظریہ کے مفہوم کو سمجھاتے ہوئے ڈاکٹر غلام علی خان رقم طراز ہیں ’’دوقومی نظریہ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک منفرد قوم ہیں، مسلمانوں کا کسی غیراسلام مملکت میں کسی دنیاوی طاقت کو حاکم اعلیٰ تسلیم کر کے مستقلاً اس کی اطاعت میں زندگی گزارنے پر رضامندہوجاناشر ک ہے کیونکہ اسلام کی روسے حاکمیت اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔‘‘ ہندوستان میں دو قومی نظریہ کا مطلب تھا کہ یہاں دو قومیں آباد ہیں ایک ہندو اور ایک مسلمان۔ مسلمان سالہا سال سے اپنا نظام، تہذیت‘ ثقافت‘ تاریخ اور ورثہ رکھتے ہیں۔ یعنی ہندو اور مسلم ایک دوسرے کی تاریخ و تہذیب و ثقافت میں مدغم نہیں ہو سکتے۔ ان کی تہذیب و تمدن کے ساتھ افکار و خیالات بھی ایک دوسرے سے متصادم ہیں ۔
سردار پٹیل نے1946میں بمبئی میں تلک کی ایک برسی میں کہا تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ رہے ہیں مسلمانوں کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ اپنا رویہ بدل لیں، اگر جناح فرقہ پرستی چھوڑ کر قوم پرستی اختیار کرلیں تو کانگرس انہیں پورے ہندوستان کی حکومت دینے کو تیار ہے۔ محمد علی جناح ؒ نے اس سازش کا صحیح ادراک کرتے ہوئے علیحدہ وطن کے مطالبے پر ڈٹے رہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد‘ جو سردار پٹیل کی تھیوری کے قائل تھے‘ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو علامہ اقبال ؒ اور محمدعلی جناح ؒ کو سلیوٹ پیش کرتے ۔بقول شاعر:

تقدیرِ اُمم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

پاکستان ایک حقیقت تھا! نہ جانے کیوں پنڈتوں نے اس کی مخالفت کی۔ تب بھی حقیقت تھی آج 27 کروڑ بھارتی مسلمانوں کو احساس ضرور ہوگیا ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے وچاروں کا کچھ سال پہلے بہت چرچا رہا جو مضحکہ خیز تھا۔ یہ درست ہے کہ پاکستان ٹوٹ گیا اور ابوالکلام آزاد کا اندازہ بھی درست ہو گیا لیکن 23مارچ 1940 کی قرارداد کی سچائی بدستور قائم ہے۔ 16دسمبر 1971کو بنگالی پاکستان سے علیحدہ ہو گئے لیکن اس سب کے باوجود کئی بنگالی دانشور آج بھی کیوں کہتے ہیں کہ دو قومی نظریہ ختم نہیں ہوا؟ وہ کیوں کہتے ہیں کہ بنگالیوں نے بنگلہ دیش بنا لیا۔ ہندوستان میں واپس نہیں گئے اور آج بھی کچھ بنگالی دانشوروں کو کیوں یقین ہے کہ ایک دن مغربی بنگال بھی بنگلہ دیش کا حصہ بن جائے گا۔ کون نہیں جانتا مکتی باہنی کے پیچھے مکار ہندو لابی اور اپنوں کی نااہلیاں تھیں۔ این آر سی نے بھارت میں ایک نئے اسلامی ملک کی بنیاد ڈال دی ہے۔ یہ شور روز بہ روز بلند ہوگا۔ بگڑتے بنتے اتحاد، ابھرتی اور گرتی ہوئی معیشت دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے والی ہیں۔ مجھے ان لوگوں کے چہرے نہیں بھولتے جو بھارت کے لیے امن کی آشا کا راگ الاپا کرتے تھے۔ بھائی بھائی کا نعرہ بلندکرنے والے ارض پاک کے حقیقی وجود کے بادی النظر میں منکر ہیں۔ بھارت میں ہونے والے مظالم دل کی دھرتی کو آنسوئوں سے نم کردیتے ہیں۔ میں مہاجرین کی فصیل سے ہوں میرے دادا جان میوات گڑگائواں سے ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا ہجرت کی وجہ کیا تھی؟ انہوں نے بتایا ’’اسلام‘‘ کہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق آزادی سے گزاریں گے۔ کچھ ماہ پہلے میں نے اپنے ایک ہندوستانی مسلمان بھائی سے کہا کہ آپ پاکستان کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ جناح کا غلط فیصلہ تھا کہ اس نے ہمیں دو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا۔ این آر سی کے نفاذ کے بعد اب وہ دوست کہہ رہا ہے کہ محمد علی جناح کی سوچ ٹھیک تھی۔ ’’حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے۔‘‘
کچھ دوستوں نے سوال کیا ہے کہ 27 کروڑ لوگوں کی موجودگی میں این آر سی بل کیسے پاس ہوگیا؟ اس کی متعدد وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ بھارتی جنتا پارٹی اکثریت میں ہے اس کے پاس نمبر زیادہ ہیں لہٰذا بل پاس کروانا کچھ مشکل نہ تھا۔ دوسرے مسلمان کے پاس مضبوط قیادت نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی پارٹی بنائی ہی نہیں۔ بھارتی مسلمان اپنے بڑوں کی غلطی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ مودی اسرائیل کو رول ماڈل سمجھتا ہے۔ انتہا پسند سوچ کے ہندوئوں کا ماننا ہے کہ دنیا کے نقشے پر 65 اسلامک اسٹیٹ ہیں جبکہ 93 اسٹیٹ کرسچن ہیں مگر ہندوئوں کی کوئی اسٹیٹ نہیں ہے۔ مودی بھارت کو ہندو اسٹیٹ ڈکلیئر کرنا چاہتا ہے اسی لیے قومیت میں تمام اقلیتوں کو شامل کیا گیا ہے ماسوائے مسلمانوں کے۔
مودی کے اس اقدام پر چینی اخبار سائوتھ چینی مارننگ پوسٹ کا تجزیہ ہے کہ جرمنی، چلی یا جنوبی افریقہ ہو یا دیگر اقوام‘ انہوں نے کربناک ماضی سے سبق سیکھا اور اقدامات کیے تاکہ غلطیوں سے بچا جائے، مفاہمتی عمل بھی شروع کیا تاکہ ماضی کے زخم ٹھیک ہو سکیں لیکن بھارت کا معاملہ برعکس ہے‘ اس نے الٹے راستے کا انتخاب کیا ہے۔ تقسیم کے بعد بھارتی قوم نے سیکولر جمہوریہ بننے کا انتخاب کیا جس میں تمام مذاہب کے پیروکاروں کو برابر کے حقوق میسر ہوں۔ تاہم بھارت کی اکثریتی آمرانہ سیاست نے پارلیمنٹ کے اندر اس انتخاب کو رد کر دیا ہے۔ بی جے پی کی ہندو مذہبی سیاست کی سوچ ہے کہ مسلمان ظالم اور حملہ آور ہیں اس لیے انہیں شہریت نہیں دینی چاہیے۔ مودی سرکار کا ایک اور خطرناک قدم نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) بھی ہے جس کے تحت ریاست آسام میں 19 لاکھ افراد کی شہریت مشکوک قرار دے دی گئی ہے جن میں بیشتر مسلمان ہیں، اب اسے بھی پورے ملک میں نافذ کرنے کا منصوبہ ہے۔ ان خاندانوں کی حالت قابلِ رحم ہے جو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دربدر بھٹک رہے ہیں، ہزاروں لوگ قید ہیں، جیلوں میں درجنوں لقمۂ اَجل بن گئے، کئی ایک نے خودکشی کر لی، ان خاندانوں کے ساتھ مذاق کیا جا رہا ہے کہ ایک ہی گھر کے چند افراد بھارتی شہری ہیں تو دیگر کی شہریت ہی مشکوک قرار دے دی گئی۔
ماہرین قانون نے این آر سی بل کو بھارتی آئین کے متصادم قرار دیا ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمان ادھیر رنجن نے کہا کہ یہ بل بھارت کے آئین کی مختلف شقوں کے خلاف ہے۔ بھارت آئین کی روح سے ایک سیکولر ملک ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر تفریق اور امتیازی سلوک نہیں کیا جا سکتا‘ اس ترمیمی بل میں مسلمانوں کو واضح طور پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ جب بھارت کا آئین 26 جنوری1950 کو نافذ کیا گیا تو اس میں بھارت کی شہریت کی تعریف جس طرح کی گئی اسے آرٹیکل پانچ میں بیان کیا گیا ہے جس کی رو سے جو شخص بھارت میں پیدا ہوا، جس کے والدین میں سے کوئی ایک بھارت میں پیدا ہوئے یا جس نے آئین کے نفاذ سے قبل پانچ سال مسلسل بھارت میں گزارے وہ بھارت کا شہری ہوگا۔ آرٹیکل 14 اور 15 میں آئین کی نظر میں مساوات کا ذکر ہے یعنی قانون کی نظر میں بھارت کی سر زمین پر کوئی بھی شخص مساوی حقوق کے تحفظ سے محروم نہیں۔ آرٹیکل 15 میں مذہب، ذات پات، نسل، جنس، جائے پیدائش یا اُن میں سے کسی بھی بنیاد پر غیر امتیازی سلوک کی بات کی گئی ہے۔ اس طرح قانون دانوں کا کہنا ہے کہ ترمیم میں چھ برادریوں کا ذکر کر کے اور مسلمانوں کو اس میں شامل نہ کر کے اس کی مخالفت کی گئی ہے۔
نریندر مودی نے این آر سی بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن کی مخالفت سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ بل ہزار فیصد درست ہے۔ جبکہ نریندر مودی کبوتر کی طرح آنکھ بند کیے ہوئے یہ بھول چکے ہیں کہ سارا کا سارا بھارت سراپا احتجاج ہے۔ دہلی، کیرالہ، بنگال، آسام، ناگالینڈ، اروناچل پردیش اور بہار سمیت کئی ریاستوں میں اس سیاہ قانون کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دارالحکومت دہلی کے جامعہ نگر کے علاقے میں احتجاج کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ کو پولیس نے چھاونی میں تبدیل کر دیا۔ زمین پر خون مسلم بہہ رہا ہے اور ہم خاموش تماشائی ہیں۔ آج روئے زمین پر مسلمانوں کی اکثریت فرمان ربانی کو نظر انداز کرتے ہوئے یہود و ہنود کی پیروی میں مصروف ہے‘ کیا ایسی حالت میں انہیں تنبیہ خدا وندی کے عین مطابق حکمرانوں کے ظلم و جبر سہنے نہیں پڑیں گے؟ کیا اس کا ادراک و خوف ہم مسلمانوں کو نہیں ہے؟ انسانیت کے قاتل کھلے عام منصوبہ بندی کررہے ہیں اور مسلم امرا خاموش تماشائی کے ماسوا کیا ہیں۔ لاکھوں انسانوں کے قاتل خود کو انسانیت کا مسیحا کہتے نہیں تھکتے۔ کیا ملتِ اسلامیہ کے حکمران اپنا محاسبہ کرنے اور مسلمانوں کو تحفظ دینے کے لیے کمربستہ ہیں ۔
کیا ہم بھول گئے ہیں کہ ایک غزوہ سے لوٹتے وقت مسلمانوں کا لشکر جب وقتی آرام کرنے کے لیے خیمہ زن ہوتا ہے۔ خاتم الانبیاء ایک پیڑ سے ٹیک لگائے بیٹھے ہیں۔ اس وقت ایک صحابیؓ حاضر ہوتے ہیں، سلام کے بعد سوال کرتے ہیں یا رسول اللہؐ کوئی آسان تدبیر یا نسخہ تجویز کیجیے کہ جس پر عمل کرتے ہوئے میں سیدھا جنت میں چلا جاؤں؟ اللہ کے رسول ؐفرماتے ہیں دین تو آسان ہے نا، اس پر عمل کرتے ہوئے سیدھا جنت پاؤ گے۔ وہ صحابیؓ دوبارہ پوچھتے ہیں۔ ہاں رسول اللہ یقینا دین آسان اور قابل عمل ہے اور میں اس پر عمل پیرا بھی ہوں، پھر بھی میں اپنے جنت میں جانے کی فکر ہی سے کچھ اور آسان عمل کا متقاضی ہوں‘ جس پر پابندیٔ عمل سے جنت اپنے لیے یقینی بناسکوں۔ اس وقت بھی اللہ کے رسولؐ نے یہی کہا تھا کہ دین آسان ہے اس پر عمل پیرا رہو، جنت تمہاری ہی ہے۔ جب اس صحابیؓ نے تیسری دفعہ جنت کے وجوب کے لیے کسی خاص عمل کا تقاضا کیا تب آپ ؐنے فرمایا تھا کہ’’اللہ کی ذات میں کسی کو شریک مت بناؤ۔‘‘ اس کا کیا مطلب تھا ؟اس کا مطلب تھا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کے علاوہ کوئی رول ماڈل نہیں ہے۔ مگر ہمارے رول ماڈل گمراہ سیکولر انسانیت دشمن لوگ ہیں جن کے پاس نہ سوچ ہے نہ فہم‘ وہ صرف شیطانی قوتوں کی خوشنودی کے لیے ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔ ہماری تاریخ بہادری، جواں مردی سے عبارت ہے۔ ہم اس راستے کا بھی انتخاب نہیں کرتے جو بزدلی سے منسوب ہو۔ ہمارے خون میں جھپٹنے کا ہنر ہے‘ پلٹنے کا نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام پسندوں نے ہمیشہ امن کی آشا کا حقیقی چراغ جلایا اور دنیا کو جنگ وجدل سے محفوظ بنانے کے لیے گراں قدر خدمات دیں ۔ ذرا سوچیے آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
روہنگیا مسلمان ہجرت کے جس کرب سے گزرے وہ غم بھلایا نہیں جاسکتا، ان کے گھر ملکیت سکون چھینا گیا ،انہیںسمندر کی لہروں کی نذر کیا گیا، مائوں کی گودیں اجاڑی گئیں، فلسطین، شام، یمن، افغانستان، کشمیر اور اب بھارتی مسلمانوں کو شہریت سے خارج کرنا ایک خاص طبقے کے خلاف نفرت کا شاخسانہ نہیں تو اور کیا ہے؟ کہاں ہیں انسانی حقوق کی چیمپئن بین الاقوامی تنظیمیں؟ ہم نے دیکھا صہیونیوں اور مشینریوں کے ایما پر متعدد مرتبہ بین الاقوامی امن کے لیے مشترکہ فورس تشکیل دی گئیں‘ مگر افسوس تاریخ میں ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لیے کوئی اتحاد قائم ہوا ہو؟ بین الاقوامی دنیا بالخصوص اُمت مسلمہ کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تاکہ زمین پر امن قائم رہے۔ بدامنی، ناانصافی، ظلم و بربریت معاشروں کو تباہ کردیتے ہیں، غیروں سے توقعات قائم رکھنے والے ہمیشہ اسی اذیت سے دوچار ہوتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ نے اتحاد کے ساتھ اپنا حقیقی بلاک بنایا ہوتا ایک کرنسی، ایک جسم، ایک ملت بنے ہوتے توہم اس کرب سے نہ گزر رہے ہوتے۔

حصہ