چڑیا گھر کی سیر

5047

فاطمہ عزیز
میائوں، میائوں میلے پاس بلی ہے۔ مصطفی بولا میرے پاس ہاتھی ہے زینب بھی بولیں۔
زینب اور مصطفی بیٹھے ربڑ کے جانوروں سے کھیل رہے تھے، ابراہیم صاحب بھی پاس بیٹھے ان دونوں کا بغور مشاہدہ کررہے تھے، وہ بڑے تھے اس لیے پاس بیٹھ کر صلح صفائی کا کام کراتے تھے اور رپورٹنگ کرتے تھے۔
مصی بھائی، مصی بھائی… بلی، بلی
زینب کو بلی لینی تھی لیکن مصطفی کو کہاں دینی تھی؟؟
لہٰذا ایک زور دار چیخ کی آواز کے ساتھ رونا دھونا شروع ہو چکا تھا جس سے معلوم ہوتا تھا زینب اور مصطفی میں لڑائی شروع ہو چکی ہے۔
اتنے میں پیچھے سے دادی امی آئیں۔
چلو بچوں تیار ہو جائو، ہم چڑیا گھر جا رہے ہیں، وہاں بہت سے جاندر دیکھیں گے، تمہارے فاروق ماموں تیار ہو گئے ہیں سب بچوں کو لے کر جانے کے لیے۔
زینب اور مصطفی تو دو، ڈھائی سال کے تھے ان کو بس سمجھ آیا کہ باہر جانا ہے اور وہ دونوں جانے کے نام پر جوش میں کھڑے ہو گئے جبکہ ابراہیم بھائی نے ایک زور دار نعرہ لگایا اور تیار ہونے کے کمرے کی طرف چل دیئے، مصطفی کو بھی رخ مل گیا اور وہ بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔ زینب کو ان کی امی نے بیچ میں سے دبوچ لیا تاکہ تیار کر سکیں سب نے کپڑے، جو گرز پہنے، خوب ساری مچھر کی دوا لگائی تاکہ مچھر نہ کاٹیں اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔
چڑیا گھر کے آس پاس سے تمام کچرا اور گاڑیوں کی پارکنگ ختم کر دی گئی ہے اور چڑیا گھر کی دیواروں پر بچوں کی توجہ کے لیے جانوروں کی تصاویر بنائی گئی ہے۔ اس وجہ سے چڑیا گھر جانے کا فیصلہ ایک خوشگوار اثر چھوڑنے لگا کہ کم از کم صفائی ستھرائی تو ہے۔ بچے جانوروں کی تصاویر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہے۔
ارے، دادی امی، وہ دیکھیں ہاتھی، اور وہ شیر دھاڑ رہا ہے۔
ارے وہ دیکھیں تین بندر بیٹھے ہیں۔
مما، وہ دیکھیں زرافہ درخت کے پتے کھا رہا ہے۔ یہ سب تصویروں میں بنایا گیا تھا ایسے ہی شور شرابے میں پارکنگ مل گئی اور ٹکٹ لیا گیا۔ اندر جا کر یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کس طرف کا رخ پہلے کیا جائے کیونکہ چڑیا گھر بڑا ہے۔ گارڈ سے پوچھا کہ ہاتھی گھر کس طرف ہے اور اس طرف چل پڑے ہاتھی دیکھنے کے لیے ایک اور ٹکٹ لینا پڑا لیکن جب اندر گئے تو دل خوش ہو گیا۔ ایک بڑا سا میدان تھا اور اس میں دو بڑے بڑے ہاتھی جھوم جھوم کر چکر لگا رہے تھے۔ ان کے جھوم جھوم کر چلنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ خوش ہیں۔ گیٹ کے پاس لوگوں کا ہجوم تھا جو ہاتھی کو کیلے، سیب اور تربوز کھلا رہے تھے اور ان کے ساتھ تصویریں بنا رہے ہیں۔
زینب نے بھی ہاتھی کو دو کیلے کھلائے جو اس نے بڑے شوق سے اپنی لمبی سونڈ نکال کر پکڑ لیے۔ بچے حیران پریشان تھے کہ ہاتھی اتنا بڑا ہوتا ہے کیونکہ تصویروں میں تو چھوٹا ہی دکھتا تھا۔ تھوڑی دیر میں بچوں کی حیرانی خوشی میں تبدیل ہو گئی اور وہ ہاتھی کے ساھ تصویریں بنانے لگے۔
ہاتھی کو دیکھنے کے بعد شیر، چیتے دیکھنے کا فیصلہ ہوا، اب سب کا رخ شیر، چیتوں کے پنچروں کی طرف تھا، راستے میں مختلف پرندوں کے پنجرے نظر آئے، اس میں رنگ برنگے طوطے، بڑا سا طوطا مکائو، آسٹریلین طوطے اپنی اپنی بولی بول رہے تھے طوطوں کو دیکھنے کے بعد فاختہ اور بگلا دیکھا جو کہ ایک پائوں پہ کھڑا سو رہا تھا۔
’’دادی امی، وہ دیکھیں سارس کا ایک پائوں نہیں ہے‘‘۔ ابراہیم صاحب نے غور سے بگلے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں بیٹا، بگلا سو رہا ہے، وہ ایک پائوں پر آرام سے گھنٹوں سوتا ہے‘‘ دادی امی نے ابراہیم کو سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’دادی امی تو کیا وہ تھکتا نہیں ہے ایک پائوں پر کھڑے کھڑے‘‘ ابراہیم صاحب نے تشویش سے پوچھا۔
’’نہیں بیٹا، اللہ تعالیٰ نے اس کی ٹانگیں مضبوط بنائی ہوتی ہیں‘‘ دادی امی نے سمجھایا۔
بگلا جوان کی باتیں شاید سن رہا تھا، فوراً ہی دونوں ٹانگوں میں کھڑا ہو گیا اور ابراہیم صاحب خوش ہو گئے کہ اب وہ تھکے گا نہیں۔
پرندوں کے پنجروں کے ساتھ کچھ خالی پنجرے بھی موجود تھے جن میں ایک بڑی سی ایل سی ڈی لگی ہوئی تھی اور اس میں کچھ پرندوں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ غور سے سننے پر معلوم ہوا کہ اس وڈیو میں ان پردوں کی تصاویر دکھائی جارہی تھیں جن کی نسل ختم ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے۔ اس کی ایک وجہ جو بتائی گئی وہ شہروں میں بڑی بڑی اور آسمانوں کو چھوتی ہوئی عمارتوں کا بننا تھا جن کی وجہ سے پرندے عقاب، شاہین کی طرح اونچی پروازیں نہیں لے پاتے وہ عمارتوں سے ٹکرا کر مر جاتے ہیں۔ یہ سب جان کر اور خالی پنجرے دیکھ کر دل اداس ہو گیا۔
پرندے دیکھنے کے بعد ہم آگے بڑھے، کچھ دور جا کر ہمیں شتر مرغ کا پنجرہ نظر آیا۔
’’مما، مما، بڑی مرغی‘‘ زینب شتر مرغ کو دیکھ کر بولیں۔
’’جی بیٹا اس کو شتر مرغ کہتے ہیں‘‘ امی نے پیار سے ان کو بتایا۔ آگے جا کر ہرن، بارہ سنگھا، نیل گائیں اور زیبرے دیکھے۔ پھر آئے بندر کے پنجرے کی طرف جہاں بندر ایک چھولے سے دوسرے جھولے میں جھلانگ لگا کر بچوں کو محظوط کررہا تھا۔
ابراہیم نے بندر کو بسکٹ پھینک کر دیا جو انہوں نے فوراً پکڑلیا۔
آگے بڑھے تو آخر وہ پنجرہ آگیا جس کو دیکھنے کے لیے سب بچے بے چین تھے اور وہ تھا شیر کا پنجرہ شیر تھوڑا سست اور نیند میں تھا، کبھی کبھی آنکھ کھول کر آس پاس کا جائزہ لے لیتا تھا جبکہ شیرنی خون کی پیاسی لگ رہی تھی اور سب لوگوں کو ایسے گھور رہی تھی جیسے ابھی کھا جائے گی۔
اس کے بعد چیتے کا پنجرہ آیا جو کہ ادھر ادھر ٹہل کر کھا ہضم کر رہا تھا شاید۔
چیتے کو دیکھتے ہی زینب نے ہائو ہائو کرکے سب کو ڈرانا شروع کر دیا۔ آگے بڑھے تو سفید شیر اور شیرنی نظر آئے جو کہ نایاب جانور ہیں۔
اب ہم سب نے واپس جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ بچے تھک گئے تھے اور شام بھی ہونے والی تھی۔ واپسی میں بچوں کو بطخوں کا تالاب نظر آیا جہاں بطخیں قیں قیں کرتی پھر رہی تھیں۔
’’ارے وہ دیکھو بظخ کا پہلا بچہ‘‘ ابراہیم نے ایک چھوٹا بطخ کا بچہ سب کو دکھایا جو کہ بڑی بطخوں کے جھرمٹ میں تیر رہا تھا اور بطخیں اس کی باڈی گارڈ کی طرح حفاظت کررہی تھیں کہ کہیں چیل کوئے ان کے بچے کو نہ اڑا لے جائیں۔ بچوں نے بطخوں کو پاپ کارن کھلائے جس سے بچوں کے گرد بطخوں کا ایک جمگھٹا سا لگ گیا۔ پاپ کارن ختم ہوئے تو سب بچے بطخوں کو اللہ حافظ کہتے ہوئے واپس گھر کی طرف خوشی خوشی روانہ ہوگئے کیونکہ انہوں نے چڑیا گھر کی سیر کر لی تھی اور ان جانوروں کو دیکھا جن کو اب تک وہ صرف تصویروں میں دیکھتے تھے۔

حصہ