شریک مطالعہ: خدائی سرگوشیاں

1691

نعیم الرحمن
مجیب الحق حقی کی کتاب’’خدائی سرگوشیاں‘‘ ایک انوکھی اور پُراثر کتاب ہے۔ اس لیے میں نے اسے ’’کتابِِ دل‘‘ کا نام دیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر مصنف نے اس کے موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’سائنس کا دائرۂ کار ہمارے حواس اور دماغ تک محدود ہے جو ظاہری اور مادّی عناصر سے منسلک ہیں، اور سائنس کو اس سے غرض نہیں کہ کائنات کو چلانے والے بنیادی فطری قوانین کا منبع کیا ہے۔ یہی وہ غیر عقلی بنیاد ہے جس پر جدید سائنس کی عمارت کھڑی ہے، اور یہی وہ مقام ہے جہاں خدائی سرگوشیاں انسان کی چشمِ حیراں کو رہنمائی فراہم کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ خدائی سرگوشیاں کیا ہیں؟ آئیے جانتے ہیں اس کتاب کے اندرجھانک کر۔
کائنات کے ذرے ذرے میں وجودِ حق کے شواہد موجود ہیں۔ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم انہیں اُن کے اندر اور آسمان میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے۔ یہاں تک کہ اُن کے سامنے عیاں ہوجائے گا کہ یہی حق ہے،کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر چیز کا شاہد ہے؟‘‘
بس انہیں دیکھنے اور سمجھنے کے لیے چشمِ بینا درکار ہوتی ہے۔ پارٹیکلز آف گاڈ کی دریافت کی روشنی میں سائنس نے بھی خدا کی تلاش کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ادیب و دانشور عکسی مفتی نے اسی حوالے سے ’’تلاش‘‘ کے نام سے علم و دانش سے بھرپور ایک کتاب میں اللہ کی تلاش اور اس کی سائنسی حقیقت بیان کرنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیزکتاب ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری اس میں ڈوب جاتا ہے۔
مجیب الحق حقی نے ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ میں یہی کام بہ انداز ِدگر انجام دیا ہے۔ انہوں نے کائنات کے مشاہدے کے ذریعے وجودِ باری تعالیٰ کے اشاروں کی نشاندہی کی ہے۔ سائنس، الحاد اور اسلام کا جائزہ دلچسپ بھی ہے اور معلومات افزا بھی۔ حقی صاحب کتاب کے پبلشر بھی ہیں۔ 228 صفحات کی یہ کتاب بہترین کاغذ پر بہت عمدہ طبع ہوئی ہے، اس کی کتابت بھی شاندارہے۔ کتاب پر قیمت درج نہیں۔ مصنف نے یہ کتاب”Understanding The Divone Vhisper” کے نام سے پیش کی ہے اور اس کا اردو ترجمہ بھی خود ہی کیا ہے، جس پر وہ مبارک باد کے حق دار ہیں۔
پیش لفظ رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی اسلام آبادکے استاد سمیع الدین نے لکھا ہے:
’’مجیب الحق حقی صاحب کے ساتھ بذریعہ سوشل میڈیا تعارف ہوا۔ آپ کے دل آویز سائنسی نقطہ ہائے نظرنے مجھے تادمِ حیات اپنا گرویدہ بنا لیا۔ حقی صاحب کی اعتدال پر مبنی سائنسی نگارشات تمام مکاتبِِ فکر سے تعلق رکھنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ سائنسی نظریۂ حیات کی تلاش میں ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ اُن کی ایک گراں قدر کوشش ہے۔ شاید یہ آئن اسٹائن یا مورس بوکائلے کے پائے کی تحقیق نہ ہو، لیکن ان کی تحقیقات سے کسی طور کم بھی نہیں ہے۔ مورس بوکائلے بھی اپنی تحقیق میں کسی حد تک عدم توازن کا شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے قرآن کا حق تو ادا کیا کہ وہ کیسے سائنسی نظریۂ حیات کی آبیاری کرتا ہے، لیکن جب حدیث اور سنت کی باری آئی تو صاحبِ تحقیق کے پاس دلائل کی تشنگی اسلام کے ایک بہت ہی اہم ماخذ قانون کو سائنسی نظریۂ حیات کے تقاضوں پر پورا نہ اتروا سکی۔ زیر نظر کتاب شاید اسلامی قانون کے اس اہم ماخذ کو زیرِ بحث نہ لاسکی، لیکن مورس بوکائلے کی طرح اس اہم ترین اصول قانون کی قانونی اور تشریحی اہمیت میں کمی کا سبب بھی نہ بن سکی۔ اس کتاب کی مزید خوبیاں کچھ یوں ہیں کہ اس کے دلائل و براہین انتہائی سلیس اورعام فہم ہیں، ایک عام پڑھا لکھا شخص بھی ان کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ دلائل میں پیشہ ورانہ لفاظی قاری کو نظر نہیں آئے گی۔ مصنف نے سائنسی نظریۂ حیات کو قرآنی دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ سائنس اور قرآن میں کوئی تصادم نہیں ہے، بلکہ قرآن مکمل طور پر مظاہرِ فطرت کو سہل و آسان بناتا ہے، اور یہ بھی واضح کیا ہے کہ سائنس جتنی ترقی کرے گی اتنا ہی اس پر قرآن کی حقانیت کھلتی رہے گی۔‘‘
پاک ترک اسکول کے استاد ہمایوں مجاہد ڈار نے ’’سینہ روشن ہو تو ہے سوزِسخن عین حیات‘‘ کے عنوان سے کتاب ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’کبھی خیال آتا ہے کہ کتابِ مقدس میں ایسی اور اس سے ملتی جلتی آیات کیوں نہ اتریں؟ ’’ہم تمہیں بیسویں صدی میں ڈی این اے کی دریافت کی خبر دیتے ہیں‘‘۔ یا یوں کہ ’’طاقتور ٹیلی اسکوپس کے ذریعے خلا کی وسعتیںماپنے، اس میں تیرتے، سیارگان کا لگا بندھا، منظم و مربوط نظام مشاہدہ کرنے کی اہلیت، آبدوزوں میں بیٹھ بیٹھ کر سمندر کے باطن میں اترکر باریک ترین آبی حیات کے حیرت زا مشاہدے تمہیں ہمارے ہونے کی خبر دیں گے۔ تب تم میں سے صاحبانِ شعور پکار اٹھیں گے کہ بے شک اللہ وحدہٗ لاشریک ہی زندگی، اس کے تمام تر لوازمات و موجودات کا خالق ہے۔‘‘ ماضی، حال اور مستقبل کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے والا خالق علیم بذاتِ الصدور ایسا حیرت انگیز دعویٰ رکھنے والا عالم الغیوب کیا کچھ ایکسپوز نہ کر ڈالتا جسے سن کر، دیکھ اور پرکھ چکنے کے بعد ہرشخص کلمہ گو ہوتا؟ نہیں، اس نے ایسانہ کیا کہ تب ایمان جبر ہوجاتا۔ عقل جیسا شان دار سرچ انجن سافٹ ویئر عطا کرنے والے نے دوٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ چاہو تو مجھے مانو، چاہو تو میرا انکار کرو۔ ہاں آس پاس میں بکھری کتابِ کائنات میں میری نشانیاں ہیں، انفس و آفاق میں ہم تمہیں اپنے موجود ہونے کے اَن گنت ثبوت دکھائیں گے، انسانی شکل میں اپنے خاص نمائندے یعنی پیغمبر بھیجیں گے۔ ان تمام کلیوز کی مدد سے اگر تم پہیلی بوجھ لو، تو تمہیں کروڑہا سال کی نہ ختم ہونے والی حیات مع رنگا رنگ لوازمات، راحت و آرام بطور انعام عطا کریں گے۔ خالقِ عقل نے عاقل انسان کو زندگی کی پہیلی بوجھنے کو اشارے دیے۔ یہ اشارے علم، فہم، سوال در سوال کی یلغارکرسکنے کی قوتِ عاقلہ جیسے آلات کو عمدگی سے برتنے کی صورت سمجھے جا سکتے ہیں، اور بالآخر یہ اشارات بات سمجھ میں آجانے کی صورت سرِ تسلیم خم کردینے کے متقاضی ہیں۔ انہی اشاروں کو مجیب الحق حقی نے ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ کے نام سے تعبیرکیا ہے، اور ایسی متعدد، زیادہ ترمعنی خیز سرگوشیاں ایک مقام پر اکٹھی کردی ہیں۔‘‘
بلاشبہ ایمان کتنی بڑی، کیسی حیرت انگیز دولت ہے۔ ملی تو ایک عامی کو مل گئی، نہ ملی تو عظیم فلاسفروں اور اپنے علم کے جھنڈے گاڑنے والے دانشوروں کو نہ ملی۔ مجیب الحق حقی نے دیباچہ میں لکھا ہے: ’’Understanding The Divone Whispers کے اردو ترجمے کے تحت شروع ہونے والا عمل مختلف جہتیں اختیار کرتا ایک ایسی کتاب کی شکل اختیار کر گیا کہ اسے ترجمے کے بجائے معنوی تاثر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ کچھ ترامیم اور اضافے کے ساتھ اس کتاب کی تکمیل میرے لیے نہایت خوشی کی بات ہے۔ اس کتاب کا موضوع صرف توحید ہے۔ 20 مئی 2010ء کو مغرب کے دریدہ دہن اور تنگ نظر افراد نے آزادیٔ اظہار کی بنیاد پر ڈرامحمد ڈے منایا تھا۔ اس کے ردعمل میں مجھے غیر مسلموں سے بحث کے دوران اپنے عقیدے کی تشریح سائنسی بنیادوں پر کرنی پڑی۔ میں نے اس سے قبل کبھی کچھ نہیں لکھا تھا، نہ ہی کوئی فلسفہ پڑھا تھا۔ لیکن اس سمت اٹھنے والا قدم پھر بڑھتا ہی رہا، یہاں تک کہ Understanding The Divone Whispers اور پھر ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ کی بازگشت بنا۔‘‘
کتاب کے تعارف میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’موجودہ دورمیں جدید علوم کے پھیلاؤ کی وجہ سے نوجوانوں میں عقائد کے حوالے سے غلط فہمیاں پیدا ہورہی ہیں، اور تعلیم یافتہ نوجوان مذہب کا فہم نامکمل ہونے کی وجہ سے سیکولر ازم اور آزاد خیالی کی طرف متوجہ ہورہے ہیں۔ موجودہ دور کے نوجوان جو جدید نظریاتِ حیات سے متاثر نظر آتے ہیں، صرف آزاد خیالی کی مصنوعی روشنی کی چکا چوند سے متاثر ہیں، جب کہ درحقیقت وہ ان جدید غیر عقلی و غیر منطقی نظریات کا دفاع کرنے میں بہت کمزور ہیں، اور نظریۂ حیات کے حوالے سے اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب نہیں دے سکتے۔ اُدھر جدیدیت کی اندھی تقلید نے مغرب میں اخلاقی بنیادیں ہلا دی ہیں، مادّہ پرستی کا عفریت خاندانی نظام اور خونیں رشتوں کو تہ و بالا کیے دے رہا ہے، بزرگ گھروں سے نکال کر اولڈ ہوم پہنچا دیے گئے، ہم جنسوں کی شادیاں قانونی ہوچکی ہیں اور آزادی کے نام پر ایسے کھیل تماشے ہورہے ہیں کہ عقل انگشت بدنداں ہے۔ یہ سب افراتفری جدید لا مذہب نظریات کے فروغ کا شاخسانہ ہے۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ نئے نظریات اور اُن کے ماخذ کا علم حاصل کرکے اِن کی خامیوں کو اجاگر کیا جائے اور موجودہ دور کے سائنسی نظریات کی خامیوں کو بھی، جو الحادکے معاون بنے ہوئے ہیں، واضح کیا جائے اور اس بات کی وضاحت ہوجائے کہ کوئی بھی مادّیت اور الحاد پر مبنی جدید نظریہ انسانیت کی رہنمائی نہیں کرسکتا۔‘‘
کتاب میں تیزی سے اثرکرتے تشکیک کے تدارک کے لیے کچھ حساس موضوعات جیسے خدا کی تخلیق، وجودِ خدا، تقدیر، قدرتِ خدا، علوم کا منبع اور وجودیت کی تشریح سائنسی پیش رفت کی روشنی میں کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ قارئین کے سامنے توحید اور اسلام کے حوالے سے نہ صرف واضع تصویر آئے، بلکہ الحاد کو رد کرنے والے دلائل سے بھی آشنائی ہو۔ یہ صرف حقیقی سچائی کو جاننے اور اجاگر کرنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
کتاب کے مختلف ابواب کے عنوانات اور ذیلی عنوانات سے ہی موضوع کا تنوع اور وسعت آشکار ہوجاتی ہے۔ کتاب کے عنوانات ہیں: ’’انسان اور بنیادی سوالات‘‘، ’’ایمان اور سائنس‘‘، ’’سائنس، سائنس داں اور خدا‘‘، ’’خدا کو کس نے بنایا‘‘، ’’انسان کیا ہے‘‘، ’’کائنات‘‘، ’’سائنسی نظریات کا عمومی جائزہ‘‘، ’’حل کی تلاش‘‘، ’’خدائی سرگوشیاں۔ القرآن‘‘، ’’غیر معمولی مظاہر اور قرآن‘‘، ’’حقیقتِ کبریٰ اور انسانی عقل‘‘، ’’دہریت کی سائنسی تشریح‘‘، ’’کیونکہ میں سوچتا ہوں، لہٰذا میں ہوں‘‘، ’’آفاقی علوم کا منبع‘‘، ’’قدرتِ خدا اور گوگل‘‘، ’’جبر و قدر، تقدیر اور لوحِ محفوظ‘‘ اور ’’حاصلِ مطالعہ‘‘۔
جدید سائنس دان، دانشور اور محقق طبعی شواہد کے بغیر خدا کو ماننے پر رضامند نہیں ہیں، جب کہ مذہب کا مؤقف ہے کہ خدا طبعی وجودیت سے بالاتر ہے۔ مذہبی اور سائنسی فکر میں ہمیشہ بنیادی مسئلہ خدا کا وجود رہا ہے۔ کیا جدید سائنس واقعی خدا کی منکر ہوسکتی ہے؟ سائنس دانوں کا نقطۂ نظر ہے کہ جو دعویٰ تجربے سے ثابت نہ ہو وہ سائنسی طور پر غلط ہے۔ آپ خدا پریقین تو رکھیں لیکن اس کے سچ ہونے پر اصرار نہ کریں کیونکہ سائنسی تجربات اس کی تصدیق نہیںکرتے۔ لیکن حقی صاحب نے کس سادہ انداز میں وجودِ باری تعالیٰ کا ثبوت دیا ہے:
’’انسان کے دو رُخ ہیں، ایک طبعی اور دوسرا تصوراتی۔ جسمانی رُخ کو طبعی طور پر ہم اپنے حواس سے محسوس کرلیتے ہیں، جب کہ شخصیت مع نام یعنی مسٹر ایکس ایک غیر مرئی وجود ہے جس کو ہمارا شعور جو خود غیر مرئی ہے ایک تصور کی شکل میں قبول کرتا ہے۔ اس طرح ہمارے حواس اور شعور مل کر مخصوص شخص کو پہچانتے ہیں۔ کیا سائنس کوئی ایسا طریقہ دریافت کرپائی ہے کہ کسی انسان کی شخصیت متعین کرسکے؟ جواب یہی ہے ’نہیں‘۔ جدید ترسائنسی تجربات بھی کسی انسان کی شخصیت کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ شخصیت کی کھوج میں کسی بھی سائنسی ٹیسٹ یا تلاش میں ایک انسان کو محض خلیاتی انبار یا جینیاتی مجموعہ ہی بتایا جائے گا۔ میڈیکل ٹیسٹ مطلوبہ معلومات تو دیتا ہے لیکن یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ کس شخص سے متعلق ہے۔ یہاں پر کوئی انسان ہی ایسی رپورٹ پر نام لکھ کر متعلقہ شخص سے منسوب کرتا ہے۔ اگر سائنس کسی شخص کے وجود کی تصدیق سے قاصر ہے توکیا اس کا وجود نہیں ہے؟‘‘
خدا کا انکار کسی بھی فرد کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے، لیکن جب کوئی عالم یا ماہر طبیعات اپنی علمی حیثیت میں اس کا اظہار کرتا ہے تو ایک تاثر یہ بنتا ہے کہ اس کا علم بھی اس کی تائید کرتا ہوگا۔ سائنس کا دائرۂ کار میٹا فزکس نہیں ہے، پھر وہ خدا کو طبعی پیرایوں میں تلاش کرتے ہیں اور طبعی آثار نہ پاکر خدا کا انکار کرتے ہیں۔ ان کا یہ مؤقف کمزور بنیادوں پر استوار ہے، کیوں کہ ایک طرف وہ لاتعداد غیر مرئی قدرتی اور آفاقی قوانین کو بغیر ان کا منبع جانے، تسلیم کرتے ہیں جو تجربات کے نتیجے میں محض اپنے طبعی انعکاس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب خدا کے منکر ہیں حالانکہ اسی پیرائے میں مذہبی نقطۂ نظر سے تمام تخلیق خدا کے ارادے کا طبعی انعکاس ہی ہے۔ جس طرح کسی تجربے کا نتیجہ ایک فطری قانون کا پتا دیتا ہے، بالکل اسی طرح کوئی بھی تخلیق اپنے خالق کی صفت خلاقی کا اظہار ہوتی ہے۔
’’خدائی سرگوشیاں‘‘ انسانی ذہن میں جنم لینے والے سوالوں کے مؤثر جواب دیتی ہے۔ انسان خدا کو بھی اپنی طرح زندگی اور وجود کا خوگر سمجھتے ہوئے جاننے کی کوشش کرتا ہے، جو خدا کو سمجھنے کا غیرحقیقی تصور ہے۔ خدا یقینا ایک زندہ ہستی ہے، لیکن اس ہستی کا وجود کس نوع کا ہے یہ انسانی عقل سے ماورا ہے۔ جس طرح بجلی کو قابو کرکے انسان نے کمپیوٹر اور روبوٹ بناکر انہیں مصنوعی زندگی اور ذہانت دی۔ جس طرح انسان کا تخلیق کردہ الیکٹرانک ماحول میں مقید کوئی سپرکمپیوٹر اپنی الیکٹرانک جبلت کی محدودیت کی وجہ سے خلوی زندگی کی رمق تک بھی نہیں پہنچ سکتا، اسی طرح انسان کبھی بھی خدا کو طبعی پیرایوں میں قید رہ کر نہیں سمجھ سکے گا۔
سائنس آج بھی جن سوالوں کے جواب نہیں دے سکی ان میں سے چند یہ ہیں: ’’کائنات عدم سے خودبخود کیسے ظاہر ہوئی؟ کائنات کیوں بنی؟ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟ کائنات میں ہر جگہ ایک نظم کیسے قائم ہے؟ اور کیوں ہے؟ بے پایاں علوم بھی کیا بگ بینگ سے قبل موجود تھے؟ جدید علوم خدا کا متبادل پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس لیے فلاسفر اور دہریے مذکورہ سوالات کے جواب میں اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہیں۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا منکرِ خدا کبھی کائنات اور زندگی کے عجوبے کی تشریخ خدا کو خارج کرکے نہیں کرسکا۔ ان کے پاس نہ زندگی اور شعور کی سائنسی وضاحت ہے اور نہ ہی انسانی جذبات و خیالات کی توضیح ہے۔
اکیسویں صدی کے وسط تک خودمختار انسانی روبوٹ فٹ بال ٹیم اُس وقت کی انسانی ورلڈ چیمپئن ٹیم کو فیفا قوانین کے مطابق کھیلتے ہوئے شکست دے گی۔ فیفا کا لنک اس کی تصدیق کرتا ہے۔ گویا اگلی چند دہائیوں میں ایسا ہونے جارہا ہے۔ ذرا تصور کریں انسانوں کے مقابلے کے دوران اُن خودمختار روبوٹ پلیئرز کی ذہنی کیفیت کیا ہوگی۔ وہ الیکٹرانک حصار میں قید ہوں گے، اُن کا کھیل ایک خاص دائرے کے اندر ہی گردش کرے گا جو گراؤنڈ تک ہی محدود ہوگا۔ وہ انسانوں کی طرح ہی کھیلیں گے، لیکن ارادے اور عمل کی آزادی کے باوجود ان کا عمل اپنے پروگرامر کی تعین کردہ حدود تک ہی رہے گا۔
مصنوعی ذہانت کا یہ حیران کن تصور آج ہمارے ذہن میں سما سکتا ہے۔ منکرین قرآن کریم کو بھی انسانی تحریر قرار دیتے ہیں۔ اس کا بھی مجیب الحق حقی نے اس کتاب میں خوبصورتی سے جواب دیا ہے۔
غرض مجیب الحق حقی کی کتاب ’’خدائی سرگوشیاں‘‘ علم و دانش سے معمور ہے، جس کا ہر باب چشم کشا اور معلومات افزا ہے اور اسے ہر صاحبِ علم کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ ایک ایسے شخص کی تصنیف ہے جس نے اس سے قبل کوئی کتاب تحریر نہیں کی۔

حصہ