بھارت کا خاتمہ

1067

کالم کا یہ عنوان کسی مسلمان پاکستانی خصوصاً عرفِ عام میں بدنام جہادی کی گفتگو یا خواہش کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ گزشتہ نصف صدی سے برصغیر پاک وہند کے ادب کے مقبول ترین ’’ادیب‘‘ خشونت سنگھ کی 2003ء میں شائع ہونے والی کتاب The end of India کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ دراصل ان کی تحریروں کا ایک مجموعہ ہے جو وہ گجرات سانحے کے حوالے سے وقتاً فوقتاً لکھتے رہے اور پھر انہوں نے اسے فروری 2003ء میں شائع کردیا۔ یہ مضامین لکھتے ہوئے انہیں جس طعن وتشنیع کا سامنا کرنا پڑا، اس کے بارے میں دیباچے میں تحریر کرتے ہیں:
’’اپنے کالموں کے جواب میں مجھے ہندو بنیاد پرستوں کی طرف سے نفرت آمیز خط موصول ہورہے ہیں۔ کوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرتا جب مجھے کوئی ایسا خط یا پوسٹ کارڈ نہ موصول ہوتا ہو جس میں مجھے ہندوستان کے لیے لعنت قرار دیا گیا ہو، یا پاکستانی ایجنٹ لکھا ہو۔ اس طرح کی اور بھی ایسی گالیاں لکھی ہوتی ہیں کہ جو ناقابلِ اشاعت ہیں۔‘‘
خشونت سنگھ نے اس تباہی کو بہت پہلے ہی سے محسوس کرنا شروع کردیا تھا۔ انہوں نے گجرات کو ’’ہندوتوا‘‘ کی لیبارٹری کہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے اس خطرے کی بُو 1998ء میں اُس وقت ہی محسوس ہوگئی تھی جب میں نے دیکھا کہ احمد آباد کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ پر لگے ہوئے بورڈوں پر احمد آباد کی جگہ ایمداواد (AMDAVAD) لکھوا دیا گیا ہے، اور ایسا ایک سرکاری حکم نامے کے تحت کیا گیا تھا۔
خشونت سنگھ نے یوں اس بورڈ کی تبدیلی کے دن سے بھارت کے زوال کا نوحہ مرتب کیا ہے، لیکن ان کی اپنی ہی تحریریں آج سے پچاس سال قبل احمد آباد کے 1969ء کے فسادات پر بھی خون کے آنسو روئی تھیں۔ آج 2019ء میں جو کچھ بھارت میں ہورہا ہے وہ اس قدر خوفناک ہے کہ کسی کو تاریخ کے پرانے زخم یاد کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ہر روز ایک نئی کربلا برپا ہوجاتی ہے۔
18 ستمبر 1969ء وہ دن تھا جب احمد آباد میں فسادات پھوٹ پڑے۔ کانگریس کا ہتندر ڈیسائی گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ ابھی ملک وجود میں آئے صرف 22 سال ہوئے تھے اور کانگریس کا سیکولر لبرل راج مستحکم تھا اور ان کی سیکولر منافقت کے پردے میں جو مسلمان دشمنی پوشیدہ تھی اس نے دو ہزار انسانوں کی جان لے لی تھی۔ اڑتالیس ہزار مکان اور دکانیں نذرِ آتش کردی گئیں اور زخمیوں کی تعداد کا کوئی شمار نہ تھا۔ فسادات کا آغاز ایک ہندو سادھو کی گائے سے ہوا، جس نے ایک مسلمان کو سینگ مارکر شدید زخمی کردیا تھا۔ گائے پر ہاتھ اٹھانا تھا کہ پورا شہر دس فیصد مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔ بڑا قتل عام چھوٹے چھوٹے فسادات کا تسلسل تھا۔
1960ء سے 1969ء تک گجرات کے شہری علاقوں میں 685 مسلم کُش فسادات ہوئے تھے، جبکہ ان 685 فسادات میں سے 578 صرف ایک سال یعنی 1969ء میں ہوئے۔ اس حساب سے روزانہ تقریباً 2 فسادات برپا ہوئے۔ ان تمام فسادات میں الیکشن، انتخابی مفاد اور جمہوریت میں اکثریت کی آمریت کی لعنت کی وجہ سے سیکولر کانگریس کا جو روپ نظر آتا ہے وہ بی جے پی سے کسی بھی طور پر کم نہیں۔ کانگریس حکومت نے آر ایس ایس کا بھرپور ساتھ دیا اور آئندہ کے خونیں بھارت کی بنیاد رکھ دی۔ خشونت سنگھ ان فسادات کے پانچ ماہ بعد احمد آباد گئے اور انہوں نے ایک المناک مضمون تحریر کیا۔ یہ مضمون آج سے پچاس سال پہلے کا ہے، لیکن اس کی سطور میں جو درد ہے، بھارتی معاشرے میں مسلمانوں کی جو زبوں حالی اور بے بسی ہے، اُس سے لگتا ہے کہ بھارت مسلمانوں کے لیے کبھی اچھا نہ تھا۔ خشونت سنگھ نے پچاس سال پہلے لکھا:
’’میرا مقصد یہ دریافت کرنا نہ تھا کہ کیا ہوا۔ بلکہ یہ کیوں ہوا ہے؟ اور یہ کہ آج احمد آباد کے لوگ کیا سوچتے ہیں؟ اور اگر آئندہ کوئی ایسا واقعہ دوبارہ ہوا جس نے شہرکی نوّے فیصد ہندو اور دس فیصد مسلمان آبادی کے تعلقات کشیدہ کردیے تو وہ کیا کریں گے؟ میں اپنی تفتیش کا آغاز جگن ناتھ مندر کے دورے سے کرتا ہوں۔ مجھے توڑ پھوڑ کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تسلی کرنے کے لیے میں نے ایک پروہت سے پوچھا۔ اُس نے مجھے باہر دیکھنے کا کہا، میں باہر گیا اور دیکھا۔ داخلی دروازے کے اوپر کسی مہنت کی شبیہ کو ڈھانپنے والا شیشہ تھا۔ وہ شیشہ تین جگہ سے تڑخا ہوا تھا۔ میں برگد کے درخت تلے انگ بھبھوت رمائے منتر جاپتے سادھوئوں کے پاس پہنچا اور اُن سے پوچھا کہ کیا کوئی نقصان ہوا ہے؟ انہوں نے ناپاک زبان میں اپنا آپ ظاہر کیا۔ میں بازار سے گزرتا ہوا اُس درگاہ پر پہنچا، کہا جاتا ہے کہ فساد یہیں سے شروع ہوا تھا۔
مندر کی گائیوں کے ریوڑ نے عرس کے لیے جانے والے زائرین میں بھگدڑ مچا دی تھی۔ درگاہ کا دروازہ بند تھا۔ اس پر کانسٹیبل پہرہ دے رہے تھے۔ میں نے باہر بیٹھے ہوئے نگران سے پوچھا کہ کیا یہی وہ جگہ ہے؟ اس نے مشتبہ نظروں سے مجھے دیکھا۔ جواب دینے کے لیے اس نے بلغم فٹ پاتھ پر تھوکا۔ پولیس سب انسپکٹر نے مجھے گندی نظروں سے دیکھا۔ میں پولیس والوں کو پسند نہیں کرتا، پس میں وہاں سے کھسک لیا۔ میں سندھی بازار چلا گیا، اس میں بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں ہیں، جو پلائی ووڈ (PLYWOOD) اور ٹین کی چادروں سے بنائی گئی ہیں۔ قطار اندر قطار چھوٹی چھوٹی دکانوں میں کپڑے کی گانٹھیں پڑی تھیں اور رنگ رنگ کی ساڑھیاں لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ جگہ انڈین آئل کے پیٹرول بردار کی طرح آگ پکڑنے والی دکھائی دیتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اس بازار کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔ میں اس بات پر یقین کرسکتا تھا، تاہم مجھے نقصان کا کوئی نشان بھی نظر نہیں آیا۔ سندھی باہمت اور مہم جو نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ضرور اس کو دوبارہ تعمیر کرکے کاروبار دوبارہ شروع کردیا ہوگا۔ میں نے اپنے اوپر ہلہ بول دینے والے دکان داروں میں سے ایک کی دعوت قبول کرلی کہ کچھ خریداری کیجیے… مجھے معلومات کے لیے دھوتی خریدنا پڑی۔ مجھے نفرت سننا پڑی۔ میں نے ایک اسکوٹر کرائے پر لیا۔ میٹر پر روغن سے لکھے ہوئے 786 کے عربی اعداد سے مجھے پتا چل گیا کہ ڈرائیور کا عقیدہ کیا ہے۔ دوستانہ مکالمے کے لیے اسکوٹر بہترین ذریعۂ سفر نہیں ہے۔ میں نے چلاّ کر ’’برے دنوں‘‘ پر تبصرہ کیا۔ ڈرائیور پیچھے مڑا ’’تم مجھے کریدنا چاہتے ہو؟ میں جانتا ہوں تم کس کے ساتھ ہو!‘‘ اس نے زبان سے تو یہ لفظ ادا نہیں کیے تھے تاہم اس کی غمناک آنکھیں یہی کہہ رہی تھیں۔ میں نے پان والوں، چنے والوں، پھل فروشوں سے پوچھنے کی کوشش کی۔ نتیجہ وہی ہے۔ اگر وہ بولیں تو جان لو کہ وہ ہندو ہیں۔ اگر وہ چپ رہیں تو سمجھ لو کہ وہ مسلمان ہیں۔ گفتگو اور خاموشی نفرت سے معمور ہیں۔ میں خود کو اپنا مشن یاد دلاتا ہوں۔ یہ مُردہ ماضی کو کریدنا نہیں ہے بلکہ جاری مزاج کا اندازہ لگانا اور یوں مستقبل کی پیش گوئی کرنا ہے۔ تاہم ستمبر کے گزرتے ہوئے کل ہمیشہ میرے ساتھ رہتے ہیں۔ میں صابرمتی کے ساتھ ساتھ احمد آباد سے باہر آتا ہوں۔ میں ملبے کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرتا ہوں۔ ایک آدھا ٹوٹا ہوا مینار اس ملبے کی حقیقت بتادیتا ہے۔ میں قبروں کے پاس سے گزرتا ہوں جن کے کتبے ٹوٹے ہوئے ہیں، میں ضبط کھو بیٹھتا ہوں اور آنسو میری آنکھوں سے بہنے لگتے ہیں۔ وہ کیسے عفریت اور سؤر تھے جنہوں نے نہ تو عبادت گاہوں کو چھوڑا اور نہ قبروں کو؟‘‘
یہ پچاس سال پہلے کا بھارت ہے جس کے گیت میرے ملک کا سیکولر دانشور مجھے سناتا رہا ہے۔ لیکن آج بھارت میں کوئی ایک بھی خشونت سنگھ ایسا نہیں جو ایسی تحریر لکھے، چھپوائے اور پھر اسی معاشرے میں زندہ سلامت بچ جائے۔ اس تحریر کے چونتیس سال بعد خشونت سنگھ نے اپنی کتاب ’’بھارت کا خاتمہ‘‘ میں لکھا تھا:
’’اگر ہم خود کو ایک قوم بنائے رکھنے میں ناکام رہے تو ہم خود اس ناکامی کے ذمہ دار ہوں گے۔ اور ہم خود ہندوستان کی موت کے حقیقی مجرم ہوں گے۔‘‘ کاش وہ آج زندہ ہوتا اور موت کی جانب بڑھتے بھارت کا خود مشاہدہ کرتا۔

حصہ