تقریب پذیرائی، آگہی کی منزل پر

1055

سیمان کی ڈائری
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام پروفیسر رضیہ سبحان کے پانچوں شعری مجموعے”آگہی کی منزل پر“ کی پروقار تقریب پیر کی شام مورخہ 16 دسمبر کونیو کانفرنس ہال کراچی پریس کلب میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت جناب پروفیسر سحر انصاری صاحب نے کی جبکہ ممتاز صحافی اور شاعر محمود شام اور جناب ر رونق حیات مہمان ِ خصوصی تھے۔ نظامت کے فرائض سینئرشاعر راشد نور نے ادا کیے۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلامِ ربانی سے کیا گیا، جس کی سعادت حنیف عابد نے حاصل کی جبکہ ناظمِ تقریب نے نعتیہ کلام کے خوبصورت اشعارپیش کیے۔ رضیہ سبحان کے پانچویں شعری مجموعے پر اظہار خیال کرنے والوں میں پروفیسر انیس زیدی، شائستہ مفتی، ڈاکٹر نثار احمد نثار، ڈاکٹر نزہت عباسی، حنیف عابداور محترمہ نیلو فر عباسی شامل تھیں۔ سحرتاب رومانی نے منظوم خراج ِ تحسین پیش کیا۔ رضیہ سبحان صاحبہ کے پوتے نے اپنی دادی کے لیے توصیفی کلمات انگلش میں ادا کیے۔
مقررین نے اپنے اپنے مضامین میں محترمہ رضیہ سبحان صاحبہ کو اُن کی شاعری پر بھرپور خراج تحسین پیش کیا اور اردو شاعری میں ان کے موجودہ مجموعے کو بھی پچھلے چار شعری مجموعوں کی طرح بہترین کاوش اور کامیاب قرار دیا۔ محترمہ رضیہ سبحان نے اپنے خطاب میں کہا کہ آگہی کی منزل پر پہنچنا یا خود کو محسوس کرنا ہر انسان کی اپنی اپنی ذہنی و قلبی واردات ہے۔ اپنے اپنے فہم وفراست کی روشنی میں متعین کردہ شعوری راستوں پر چلتے ہوئے آگہی کی منزل تک کا سفر ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ اس کیفیت کا خاتمہ کبھی نہیں ہوا کرتا۔ یہ پرت در پرت نئے اسرار و رموز سے آشنائی کا نام ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ابھی تو مجھے آگہی کا حسن اپنی روح میں قطرہ در قطرہ مثل آب حیات اترتا ہوا، گرتا ہوا، محسوس ہورہا ہے مگر میں جانتی ہوں کہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ اپنے خطاب میں رضیہ سبحان صاحبہ نے کتاب کی رونمائی کرنے پرکراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کاشکریہ ادا کیا۔ مہمانوں اور حاضرین کا بھی تقریب میں شرکت کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ مختصر گفتگو کے بعد انھوں نے اپنے شعری مجموعے سے اشعار بھی سنائے خوب داد وتحسین حاصل کی۔
تقریب کے دوران کراچی پریس کلب کے سیکریٹری ارمان صابر اور صدر پریس کلب امتیاز فاران نے محترمہ رضیہ سبحان صاحبہ کو سندھی اجرک پہنائی اورتقریب کے شرکا نے انھیں خوبصورت پھولوں کے تحائف بھی پیش کیے۔ محمود شام نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محترمہ رضیہ سبحان صاحبہ کی شاعری خود کی تلاش نئے نئے افکار، تراکیب، تلمیحات، استعارے تراشنے کا محرک بنتی ہیں اور کہیں کہیں مجھے رضیہ سبحان صاحبہ کو صوفی کہنے کا دل چاہتاہے۔یہ طریقت کی حدود کو چھوتی ہیں مگر پھر ہاتھ لگا کر واپس آجاتی ہیں۔ محترمہ رضیہ سبحان صاحبہ اپنی شاعری میں اپنے محسوسات کو آسان الفاظ اور چھوٹی بحروں میں اپنے سامع اور قاری تک پہنچانے کا کمال رکھتی ہیں۔ تقریب کے صدر جناب سحر انصاری صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ محترمہ رضیہ سبحان صاحبہ کے پچھلے شعری مجموعوں کی طرح ”آگہی کی منزل پر“ شعری مجموعہ بھی بہت عمدہ اور لاجواب ہے۔محترمہ رضیہ سبحان کھلی آنکھوں، تڑپتے دل، سوچتے ذہن کے ساتھ اپنے گردوپیش کو دیکھتیں ہیں اور جب وہ شعری تجربہ پختہ ہو جاتا ہے تو پھر اسے الفاظ کے قالب میں ڈھالتی ہیں۔کراچی پریس کلب کے سیکرٹری ارمان صابر نے اپنے مختصر خطاب میں شر کائے محفل کا شکریہ ادا کیا۔
تقریب کے دوران محترمہ نیلوفرعباسی نےرضیہ سبحان صاحبہ کی کتاب پر گفتگو کی ۔دورانِ گفتگو انھوں نے ممتاز صحافی، براڈ کاسٹر قمر علی عباسی کے کالموں کے مجموعے ”جانے والے“ کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس مجموعے کا ٹائٹل رضیہ سبحان صاحبہ نے ہی تخلیق کیا ہے اور اپنے کالم کے توسط بتاتا چلوں کہ محمود شام صاحب کی زیرصدارت جناب قمرعلی عباسی کے کالموں کے مجموعے ”جانے والے“کی تقریبِ اجرا23 دسمبر بہ روز پیرکراچی پریس کلب میں منعقد ہوگی۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے،نہیں معلوم اُس وقت حالات کیا ہوں۔تاہم یہ اعلان بھی اسی روز کیا گیا۔ ایک بات اور جس کی توجہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے سیکریٹری اے ایچ خانزادہ نے بھی اپنی گفتگو میں دلائی۔ محترم عارف شفیق صاحب کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی مرحوم کے درجات بلند اور اُن کی مغفرت فرمائے آمین!
قریباً سن دوہزار کے قریب جناب عارف شفیق صاحب سے میری ملاقات رمزی آثم کے توسط کراچی آرٹس کونسل کے کیفے گل رنگ میں ہوئی۔ عارف شفیق صاحب سے وہ پہلی اور تفصیلی ملاقات تھی۔ جب انھیں علم ہوا کہ میں شعرو ادب سے شغف رکھتا ہوں تو اُن کی فرمائش پر میں نے اپنی چند غزلیں سنائیں اور عارف شفیق صاحب نے ہر غزل میں سے دو،تین اشعار سادہ کاغذ پر لکھے۔ ملاقات کے بعد میں نے رمزی سے پوچھا کہ میرے اشعار انھوں نے سادہ کاغذ پر کیوں لکھے تو رمزی نے کہاکہ تم خوش قسمت ہو،عارف بھائی تم پر مضمون لکھیں گے۔ وہ مضمون تو ہماری نظر سے گزرا نہیں لیکن مجھے اُن کی نیت پر ذرا سا بھی شک نہیں،یقینا انھوں نے کالم لکھا ہوگا۔ رزق کی تلاش کے باعث میری مصروفیات اتنی رہیں کہ بعد میں عارف شفیق بھائی سے ملاقاتیں تو رہیں لیکن کوئی طویل نشست نہیں تھی۔محترم عارف شفیق شہرہ آفاق شاعر سراج الدین ظفرکے شاگرد تھے۔ہر تخلیقی انسان کی طرح وہ بھی حساس دل کے مالک اور دردمند انسان تھے۔روشنیوں کے شہر کراچی اور اس کے باسیوں سے انہیں بے پناہ محبت تھی۔انہوں نے اسی محبت اور حساسیت کو اجاگر کرنے کے لیے قلم اٹھایا۔کراچی میں دہشت گردی اور قتل و غارت پر انہوں نے اپنے احساسات سپرد قلم کیے۔کوچہئ صحافت میں کئی اخبارات سے اُن کی وابستگی رہی۔ ادبی اور سیاسی کالم لکھتے رہے۔’اندھی سوچیں‘،’گونگے لفظ‘،’سیپ کے دیپ‘، ’جب زمین پر کوئی دیوار نہ تھی‘، ’احتجاج‘،’سر پھری ہوا‘، ’میں ہواؤں کا رخ بدل دوں گا‘، ’میرا شہر جل رہا ہے‘، یقین اور ’میری دھرتی میرے لوگ‘،’میرے کشکول میں ہیں چاندسورج‘ کے عنوان سے شعری اور کالموں کا مجموعہ ’کراچی کی آواز‘شائع ہوچکے ہیں۔ادبی حلقوں میں عارف شفیق کی انقلابی شاعری بے حد پسند کی جاتی ہے اور انھیں اِس عہد کا ایک اہم شاعر تسلیم کیا گیا۔اُن کے ایک شعر ”غریب شہرتو فاقوں سے مر گیا عارف امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی“نے مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ہمیشہ اپنی شاعری میں سچائی کا درس دیا اور عوام کی ترجمانی کی۔ رواں برس ادبی دنیا کے لیے دکھوں کا سال رہا ۔دسمبر کے آخری ایام میں نہیں معلوم ابھی اور کتنے صدمات سہنے ہوں گے۔ محترم اعجاز رحمانی، لیاقت علی عاصم، حمایت علی شاعر، غوث متھراوی کے علاوہ کئی چراغ اس برس بجھ گئے۔ذاتی مصروفیت کے باعث عارف شفیق بھائی کی رحلت پر اہلِ ادب کے تاثرات نہیں لے سکا۔انشااللہ اللہ نے چاہا تو اُن ایک مضمون ضرور لکھوں گے۔ نجی اخبار کے لیے عارف شفیق بھائی نے جوا نٹرویوطارق رئیس فروغ کو دیا تھا اس میں سے اُن کی کچھ گفتگو قارئین کے لیے یہاں پیش ِ خدمت ہیں۔
’’میں اپنے شہر کی سڑکوں پر آٓوارہ بہت پھرا ہوں۔ بارہ تیرہ سال کی عمر میں گھر چھوڑا تھا۔ تقریباً دس پندرہ سال فٹ پاتھوں پر ہی رہا۔ وہ میرا ٹھکانہ تھا، وہیں شاعری کرتا تھا۔ میرے پاس بڑے بڑے شاعر ادیب آتے تھے۔ میں دس نمبر لالوکھیت سے گرومندر تک ٹہلتا ہوا جاتا تھا اور واپسی تک دو ایک غزلیں ہوجاتی تھیں۔ میری بیشتر شاعری انھی سڑکوں پر ہوئی۔ تو لوگوں کو پتہ ہونا چاہئیے کہ وہ سڑکیں کونسی ہیں، وہ شہر کراچی کی ہیں۔ جب ۱۹ء میں کراچی آپریشن ہوا تو میری آوارگی پہ اثر اندا ز ہوا۔ اس زمانے میں میرا شعر جو مشہور ہوا وہ تھا؛ شہر کراچی شہر نگاراں اب مثل بیروت ہوا عارف جیسا آوارہ بھی گھر سے نکلتے ڈرتا ہے۔ دیکھا جائے تو میں نے یہ اپنے عہد کو لکھا ہے۔ میں چونکہ اخبار میں کرائم رپورٹر تھا اس لیے میں نے اس دور کا جو منظر نامہ دیکھا اسے شاعری میں لکھ دیا۔ میرا شہر جل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعر اور ادیب کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی قوم، اپنے شہر، اپنے علاقے کی نمائندگی کرے۔ اور آج بھی اگر بلوچستان کے شعراء اپنے بلوچستان کے عوام کے مسائل اور وہاں کا دکھ بھرپور طریقے سے لکھ رہے ہوتے تو آج بلوچستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ سندھ کے شعراء اور ادیبوں نے جب تک اپنی دھرتی کے مسائل لکھے پورا پنجاب اور پورا پاکستان ان سے ہم آواز تھا۔ اب اتفاق یہ تھا کہ کراچی میں واحد میں نے ہی کراچی کے مسائل پر لکھا۔ اس میں ادبی حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ میری کراچی کے حوالے سے جتنی شاعری ہے اس پر سب سے زیادہ مضامین پنجاب اور بلوچستان کے دانشوروں نے لکھے۔ اور انھوں نے میرے دکھ کو سمجھا۔ فنون میں مجھ پر جو مضمون ہے اس کا ایک جملہ یاد آرہا ہے؛ کہ لیاقت آباد کراچی کا دل ہے اور عارف شفیق لیاقت آباد کی روح ہے۔ بلوچستان، سندھ کراچی سب کے دکھ تو جینوئین ہیں۔ اب ادیب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے عہد کا منظر نامہ پیش کرے۔تاکہ اجتماعی اور انصاف پسند سوچ رکھنے والے تمام قوموں کے لوگ یہ فیصلہ کریں کہ کس کے ساتھ کیا زیادتی ہورہی ہے۔ کیونکہ سیاستدانوں کے بیان پر کوئی بھی یقین نہیں کرتا۔ اس لیے میں نے بغیر ڈرے جو جینوئین مسائل تھے ان پر لکھا۔‘‘

غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر ِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی

عارف شفیق

حصہ