ڈیئر سیلری! تم کب آؤگی؟۔

377

عارف رمضان جتوئی
نیوز ون کے رپورٹر ایس ایم عرفان انتقال کرگئے۔ کراچی پریس کلب کے رکن اور ہمارے ایک بہترین ساتھی ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کے انتقال کی خبر ملی تو دل مغموم ہوا. پھر پتا چلا وجہ انتقال ہارٹ اٹیک ہے۔ گزشتہ کئی ماہ سے نیوز ون میں تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ یہ صورت حال اب تقریباً صحافتی ہر ادارے کی ہے۔ ایس ایم عرفان بھی بہت پریشان تھے، ان کے گزشتہ روز کے واٹس ایپ پر ایک مزاحیہ انداز میں اسٹیٹس تھا ’’ڈیئر سیلری! تم کب آئو گی، آئی مس یو سو مچ…‘‘ اب وہ سیلری آکر شاید مس ٹو کہے گی۔
آپ سمجھ سکتے ہیں اس وقت کی مہنگائی اور پھر اس پر تنخواہ بھی وقت پر نہ ملے تو کرائے دار کو مالک نوٹس جاری کردیتا ہے۔ بل چاہے بجلی کا ہو یا گیس کا یا 5 سو تک کی کیبل کا وہ بھی کٹ جاتا ہے۔ بچوں کی فرمائشوں کا گلا گھونٹ بھی دیں تو پیٹ تو بھرنا ہی پڑتا ہے آخر کو جینا تو ہے ناں۔ موسم بھی بدل چکا ہے، پرانے کپڑے دھوپ لگا کر نکال بھی لیں تو ممکن ہے وہ اب چھوٹے ہوچکے ہوں۔ ماں باپ سردی میں رات کو سو بھی لیں تو بچوں کے کپکپانے کو دل کیسے مان لے۔
اللہ جانے ایس ایم عرفان کے حالات ہماری سوچ سے کتنا زیادہ پریشان کن تھے۔ وہ حالات کی سنگینیوں کو جانتے تھے…… پڑھے لکھے بھی تھے… .خود کشی کو وہ حرام سمجھتے تھے مگر یہ دل… اس کا کیا کیا جائے… . کبھی تو مان لے مگر ہر بار تھوڑی مانتا ہے… بہت تڑپا ہوگا کئی بار سوچا ہوگا جا کر مالکان کا گلا دبا دے مگر پھر اپنی تعلیم اور مہذب ہونا یاد کر کے خاموش بیٹھ جاتا ہوگا۔ دل ہے ناں کب تک… بالآخر زور سے دھڑکا اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگیا۔ ایس ایم عرفان کی تدفین کے بعد صحافیوں نے کراچی میں نیوز ون کے ہیڈ آفس پر دھرنا دیا احتجاج کیا۔ یہ حل ہے‘ تو یقینا یہی کرتے رہنا چاہیے‘ مگر شاید یہ حل نہ تھا نہ ہے۔ البتہ کچھ نہ ہونے کے لیے یہ کرنا بھی بہت ہے۔
ایس ایم عرفان کا انتقال صحافت سے منسلک ہر فرد کی پریشانی کو عیاں کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے میڈیا کو جس طرح کے بحران دیے وہ شاید صدیوں بھلائے نہ جاسکیں۔ بڑوں کا کچھ ہوا یا نہیں کم از کم نچلی سطح پر سب ہی پس گئے۔ مالکان اور ایڈیٹر ان کو جیسے موقع ہی مل گیا نکالو ، پھر نکالو اور بار بار نکالو یہاں تک کہ صرف وہی رہ جائے جو ضرورت سے زیادہ ضروری ہے۔ یوں جسے نکال دیا وہ رُل گیا۔ جو رہ گیا اسے تنخواہ بھی کم دی گئی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ کچھ حکومت نے حالات بگاڑے اور کچھ اداروں نے ہاتھ صاف کیا۔ مل بانٹ کر دونوں نے چھوٹے صحافیوں کو رگڑ دیا۔
موجودہ حکومت نے آتے ہی پہلی فرصت میں بے شمار ملازمین کو فارغ کیا۔ پھر جو ’’فراغت‘‘ سے بچ گئے ان کو تنخواہ نہ دے کر ملازمت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اس کے باوجود بھی جو ’’ڈھیٹ‘‘ ملازم ہیں انہیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں مل رہی۔ حالات یہاں تک گمبھیر ہوچکے ہیں کہ اب میڈیا سے وابستہ فرد یا تو جنرل اسٹور چلا رہا ہے یا پھر کہیں مزدور بنا ہوا ہے اور اکثر نے تو چپس اور برگر بیچنا شروع کردیا ہے کہ زندگی کی گاڑی کو بہر حال کسی طور تو رواں رکھنا ہی ہے۔
ایسا ہرگز نہیں کہ میڈیا کا یہ بحران ’’حقیقی‘‘ ہے۔ مصنوعی پن اس میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ جس کی پرچی جاندار تھی وہ آج بھی اپنی جگہ پر کام کر رہا ہے۔ بے شمار اخبارات شائع ہو رہے اور بے شمار ٹی وی چینلز کھل چکے ہیں جہاں معیار کا فقدان بھی ہے مگر اب معیار دیکھتا کون ہے۔ یہ سلسلہ چل رہا ہے اور یوں چلتا رہے گا۔ بے شمار باکمال و باصلاحیت صحافی اب گمنام ہوچکے وجہ وہی کہ ان کے لیے اداروں میں جگہ نہ رہی۔ یہ وہ صحافی ہیں جن کو پہلے گھر اور آفس سے باہر اپنی جان کی فکر رہتی تھی۔ اب ان کو اپنے آفس میں جان بچانے کی فکر لگی ہوئی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے موت ہوتی تھی ایک گولی کھا کر اب موت ہوتی ہے روٹی نہ کھا کر۔
ایم ایس عرفان کی موت کو حادثاتی قرار دیا جائے یا پریشانی کی وجہ کیا‘ فرق پڑتا ہے۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ وہ سب کے لیے مقرر ہے، جب آنا ہے آکر رہتا ہے۔ نیوز چینل نے چند روپے ہی تو روکے ہیں اب اس میں کوئی مر ہی جائے تو ان کا کیا لینا دینا۔ ایسا کبھی کسی چینل مالکان کے بچوں کے ساتھ ہو تو شاید انہیں اس درد یا تکلیف کا احساس ہو۔ ویسے مالک کائنات کی لاٹھی بے آواز ہے، ایسی کئی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں بڑے بڑے اداروں کے بچے بیرون ملک جا کر تابوت میں واپس آئے۔ اللہ سب کو اپنی حفظ وامان میں رکھے۔
صحافتی تنظیموں کو ان معاملات میں اپنا بھرپور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خدارا اس ڈوبتی صحافتی کشتی کو بچانے کے لیے آگے آئیں۔ وہ بھی جو صحافتی تنظیموں کے بڑے ہیں وہ بھی جو اداروں میں اچھی پوزیشن پر ہیں۔ وہ بھی جو روز کیمرہ مین‘ رپورٹرز اور ٹیکنیشنز کے ذریعے ٹی وی اسکرین پر بیٹھ کر بھڑکیں مار رہے ہوتے ہیں۔ اللہ ایس ایم عرفان بھائی کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے، آمین۔

حصہ