دکھوں کی داستان

365

طلعت نفیس
آج ہفتے کا دن تھا۔اور عفت بیگم کے گھرتین بیٹیوں اور چھ نواسہ نواسیوں کی وجہ سے رونق لگی ہویٔ تھی۔ سارے بچے بھاگے بھاگے پھررہے تھے۔ 13 سالہ عریشہ نانی کے پاس بیٹھی غور سے فو ن پر ہونے والی گفتگو سن رہی تھی۔
جی بہن سقوطِ ڈھاکا کے پروگرام کی ساری تیاریاں مکمل ہیں ۔بس آپ دعوتوں کا کام بھر پور طریقے سے کریں تاکہ حاضری اچھی ہو اور نوجوان نسل کو فوکس کریں ۔۔۔۔وہ عموماٌ اس سانحے سے لا علم ہیں ۔اور اگر جانتے بھی ہیں تو بہت معمولی سا۔۔۔۔
عریشہ کال کے ختم ہونے کا انتظار کر رہی تھی ۔
وہ لوگ چند ماہ پہلے ہی دوبئی سے پاکستان شفٹ ہوئے تھے۔پہلے وہ مہینہ دومہینے کے لئے آتی اس دوران گھومنا پھرنا ہلہ گلہ ددھیال اور ننھیال کے چکر لگتے۔ نانی کے اور پروگرامات کے نام سے تو مانوس تھی ۔درسِ قرآن قران کلاسز وغیرہ ۔۔۔مگر سقوطِ ڈھاکا یہ لفظ پہلی مرتبہ سنا تھا۔
نانی یہ سقوطِ ڈھاکا کیا ہے۔پہلے تم ان سب کو بلاؤ جو ادھم مچاتے پھر رہے ہیں۔
عریشہ کہانی سننے کی تجسس میں کسی کو مارتی کسی گھسیٹتی نانی کے پاس لے آیٔ۔اعیان اور مائر کے منہ بنے ہوئے تھے۔کہ عریشہ نے ان کا سارا کھیل خرا ب کر دیا تھا۔خیر نانی کا عکم مانتے چارو ناچار آگئے۔
نانی شروع کریں نا ۔ عریشہ بے چینی سے بولی۔
نانی نے ایک سرد آہ کھینچی۔اور ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے گویا ہوئیں۔
بچو !جب قائدِاعظم نے پاکستان حاصل کیا تو ۔۔۔۔۔ اعیان اور مائر ہنوز منہ بنائے بیٹھے تھے۔حائرہ بے نیازی سے اپنے ہاتھوں سے کھیل رہی تھی۔
بچوں تم لوگوں کو پتا ہے قائدِ اعظم کون ہیں۔؟
جی نانی مجھی پتا ہے ۔ چار سالہ حائرہ جلدی بولی۔
بتاؤ۔نانی نے کہا۔
وہ جن کی تصویر نوٹ پر بنی ہے ۔
نانی آگے چلیں نا عریشہ بے چینی سے بولی۔
اب وہ تینوں بھی متوجہ ہو گئے۔
ہاں تو پہلے پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ایک مغربی پاکستان اور دوسرا حصہ مشرقی پاکستان ۔۔۔۔اعیان نے کچھ بولنے کے لئے منہ کھولا تو نانی نے کہا ۔ اب کویٔ سوال بھی کہانی کے بعد نانی نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ہیں اب وہ کہاں ہے ؟ مائر بے ساختہ بولا۔ خاموش مائر ۔۔۔۔عریشہ بولی۔
ہندؤں کو پاکستان سے نفرت کیوں کہ یہ اسلام کے نام پر بنا تھا۔وہ تو اللہ کی مدد تھی ۔اور کلمے کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔پہلے یہ طے ہوا تھا کہ جن علاقوں میں مسلمان آبادی زیادہ ہے ان کو پاکستان میں شامل کیا جائیگا ۔ مگر ہندوؤں اور انگریزوں کی ملی بھگت سے ایسا نہ ہو سکا ۔کشمیر حیدرآباد
دکن اور بہت سے مسلم اکثریتی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ کرلیا ۔
کشمیر پر تو ابھی بھی قبضہ ہے نا۔عریشہ نے اپنی معلومات جھاڑی۔
پھر 6ستمبر1965میں پاکستان کو کمزور سمجھ کر انڈیا نے اس پر حملہ کر دیا۔ اور اسکے ایک جرنیل کا کہنا تھا کہ ہم صبح کا ناشتہ لاہور میں کرینگے۔
مگر پاکستان کی فوج اور پورا متحدہ پاکستان ایک مٹھی بنا ہوا ۔قبائلی الگ جوش میں بنگالیوں کے کیا کہنے کے وہ پاکستان کی بقاء کے لئے کٹ مرنے کو تیار تھے۔پنجاب سندھ بلو چستان۔جو گلو کار تھے وہ آزادی کے نغمے گا رہے تھے۔اور شاعر عوام میں ولولہ انگیز شاعری سے والہانہ جذ بات جگا رہے تھے ۔اور ان ہی جذبات نے پاکستانی افواج کو حوصلہ بخشا پھر وہ بھارتی فوج کو اپنے ملک سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔
اور یہ ہی ملی اتحاد ہنود اور یہود کے سینوں میں آگ لگا رہا تھا۔اسکے بعد سازشوں کے جال بننا شروع ہوگئے۔جس میں اپنے اور پرائے سب شامل ہوگئے۔اور بنگال میں احساسِ کمتری پیدا کرکے سب کو آپس میں لڑوا یا ۔۔۔
نانی آپس میں لڑنا تو بری بات ہوتی ہے نا۔؟اعیان بولا۔
آپس میں لڑنے سے دشمن کو آسانی ہوتی ہے۔ اور جیسے ایک انگلی دشمن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور جب تمام انگلیاں مل کر مکا بن جاتا ہے۔ تو دشمن کا منہ توڑ دیتا ہے۔ نانی نے کہا ۔
چلیں نا۔ نانی عریشہ بے چینی سے بولی۔
ہاں تو آپس کی یہ آگ پھیلتی چلی گیٔ۔اس کا دشمن نے فائدہ اٹھایا۔اور مشرقی پاکستان کی طرف سے حملہ کر دیا ۔۔۔اور نہ اب قوم میں وہ محبت تھی۔ نہ اتحاد اور یوں 16 د سمبر1971 بھارت کی سازشوں عوام کی کم علمی اور پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلیوںکی وجہ سے ہمارا مشرقی بازو کٹ گیا۔۔۔ نانی اماں پھر چشمہ اتار کر آنکھیں صاف کر رہیں تھیں۔
پر اب وہ ہیں کہیں؟ مائر کی ذہن میں وہ ہی سوال مچل رہا تھا۔
باقی تمام بچے بھی نانی کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
وہ ۔۔۔ اب بنگلہ دیش بن گیا ہے۔ نانی کرب سے بولیں۔
نانی کو اداس دیکھ کرکر سب بچے بھی اداس ہوگئے۔
نانی نے بچوںکو اداس دیکھ کر کر ہلکا سا مسکرائیں۔ اور بو لیں۔۔۔ہاں تو بچوپاکستان سے کس کس کو محبت ہے۔؟
سب یک زبان بولے ہمیں۔
ہاں تو اب ہمیں پاکستان کے لئے کیا کرنا ہے۔؟نانی نے پوچھا
سب کو مل جل کر رہنا ہے ۔سب بچے بولے کیسی کا مذاق نہیں بنانا ۔ کیسی قوم کے لئے لطیفے بنا کر اسکا مذاق نہیں اڑانا جیسے لوگ پہلے بنگالیوں کے لطیفے بناتے تھے ۔ اور اب پٹھانوں کے بناتے ہیں ۔ ثناء پتا نہیں کب آکر کھڑی ہو گیٔ تھی جو آجکل اعیان کے لطیفوں سے نالاں تھی جو وہ اسکول سے سن کر آتا اور سب کو سنا تا تھا۔
نہیں مما میں اب ایسے کویٔ لطیفے کیسی کو نہیں سناؤں گا جس سے پوری قوم کی کا دل دکھی ہو۔اعیان سنجیدگی سے بولا۔
شاباش بچوں بس اب جا کر کھیلو مجھے سقوطِ ڈھاکا کے پروگرام کی تیاریاں کرنی ہیں۔نانی اگر آپکو پوسٹر بنوانے ہوں یو وہ میں بنا دونگی ۔عریشہ باہر جاتے ہوئے بولی۔

حصہ