سید مودودیؒ کا ذخیرۂ علمی ایک مختصر فہرستِ تصانیف

5392

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی/ مرتب : اعظم طارق کوہستانی

مولانا مودودی کے بارے میں مولانا ابو الحسن ندویؒ کی راے

(معروف فلسفی، عالم دین)

ان کا اسلوب تحریر،محکم استدلال ،اصولی و بنیادی طریق بحث اور سب سے بڑھ کر ان کی سلاست فکر، ہماری افتاد طبع اور ذہنی ساخت کے عین مطابق تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ان کا قلم اپنی خداداد قدرت و قابلیت کے ساتھ ہمارے بے زبان ذہن و ذوق کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وہ وقت کبھی نہیں بھولتا جب ندوہ کے مہمان خانے کے سامنے ہم چند دوستوں نے محرم ۳۵۶ ۱ھ کے ترجمان القرآن کے اشارات پڑھے تھے جن میں آنے والے طوفان کی خبر دی گئی تھی۔ یہ مولانا کا وہ ولولہ انگیز مضمون تھا جس کی بازگشت عرصے تک سنی جاتی رہی ۔ہم سب لوگوں نے مولانا کی فراست ،خطرے کی صحیح نشان دہی اور قوت تحریر کی دل کھول کر داد دی۔

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ بیسویں صدی کی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے۔ ان کی بہت سی حیثیتیں ہیں: مفسرِقرآن‘ سیرت نگار‘ دینی اسکالر ‘ اسلامی نظامِ سیاست و معیشت اور اسلامی تہذیب و تمدن کے شارح‘ برعظیم کی ایک بڑی دینی و سیاسی تحریک کے موسس و قائد‘ ایک نام ور صحافی اور اعلیٰ پاے کے انشاپرداز— فکری اعتبار سے وہ گذشتہ صدی کے سب سے بڑے متکلمِ اسلام تھے۔
بیسویں صدی میں علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک ولولۂ تازہ عطا کیا اور ان کے اندر اسلامی نشاتِ ثانیہ کی جوت جگائی۔ مولانا مودودیؒ نے اسی جذبے اور ولولے کو اپنی نثر کے ذریعے آگے بڑھایا اور علامہ اقبال کی شاعری کے اثرات کو سمیٹ کر احیاے دین کی ایک منظم تحریک کی بنیاد رکھی‘ پھر اپنے گہربار قلم کی قوت اور غیرمعمولی تنظیمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس تحریک کوپروان چڑھایا۔ اقبال اور مودودی دونوں پر پروفیسر رشیداحمدصدیقی کی یہ بات صادق آتی ہے کہ ان کی تحریروں کو پڑھ کر دین سے تعلق ہی میں اضافہ نہیں ہوتا‘ اُردو سے محبت بھی بڑھ جاتی ہے۔
سید مودودیؒ اُردو زبان کے سب سے بڑے مصنف ہیں۔ ’’سب سے بڑے‘‘ ان معنوں میںکہ کثیرالتصانیف مصنف تو اور بھی ہیں مگر اُردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں انھیں سب سے زیادہ چھپنے والے مصنّف کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کا حلقۂ قارئین‘ بلاشائبۂ تردید‘ اُردو کے ہرمصنّف سے زیادہ ہے۔ اس اعتبار سے ہم انھیں اُردو کا مقبول ترین مصنّف بھی کہہ سکتے ہیں۔
سید مودودیؒ کی شخصیت‘ افکار و نظریات اور ان کی تحریک کے ہمہ گیر اثرات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کی کم از کم ۴۳ زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں— ان کے ذخیرئہ علمی کا مطالعہ‘ ایک بے حد وسیع اور بڑا موضوع ہے۔ دنیا کی مختلف جامعات میں ان پر ایم اے‘ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے لکھے گئے ہیں‘ اور بعض پہلوئوں پر مزیدتحقیقی کام ہو رہا ہے۔
ذیل میں ہم نے تصانیفِ مودودی کی ایک فہرست ترتیب دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ موصوف کا علمی کام کس قدر وسیع الاطراف ‘ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے۔قرآن‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ‘ عقائد‘ عبادات‘ تاریخ‘ فلسفہ‘ تہذیب‘ تمدن‘ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ اجتماعیت‘ اخلاقیات‘ مغربی فکر وغیرہ— اُردو زبان میں کوئی اور مصنّف اس تنوع اور کثیرالجہتی میں‘ سیّدموصوف کا ہم پلّہ نظرنہیں آتا۔
٭…٭
اس فہرست کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
۱- پہلا حصہ تفسیرِقرآن اور سیرت النبیؐ کی کتابوں پر مشتمل ہے‘ اور یہ ان کی قلمی کاوشوں کا اہم ترین سرمایہ ہے۔
۲- یہ حصہ ایسی کتابوں پر مشتمل ہے جنھیں مولانا نے خود تصنیف و مرتب کر کے شائع کیا یا بعض ان کی نگرانی میں اور ان کی تائید و اجازت سے مرتب ہو کر شائع ہوئیں۔ یہ حصہ بھی‘ سید موصوف کے مستند متن میں شمار ہوگا۔
۳- یہ حصہ مولانا کے مکاتیب کے مجموعوں پر مشتمل ہے۔
۴- اس حصے میں ایسی کتابوں کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سے چند ایک تو ان کی زندگی میں شائع ہوئیں‘ مگر بیش تر ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔ یہ کتابیں‘سید مرحوم کی نہیں‘ بلکہ دوسروں کی مرتب کردہ ہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایسی کتابوں اور مجموعوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ ان کے بعض حصوں پر نظرثانی کرتے اور شاید کسی قدر ترمیم و حذف سے بھی کام لیتے‘ کیوں کہ وہ زبان و بیان‘مضمون اور نفسِ مضمون کی نزاکت اور احتیاط کے بارے میں سخت حسّاس تھے۔ اس حصے کی بعض کتابیں ایسی ہیں جنھیں مرتبہ صورت میں مولانا نے دیکھا اور پسند فرمایا بلکہ کہیں کہیں قلم بھی لگایا‘ جیسے:تصریحات یا ۵ اے ذیلدار پارک‘ اول وغیرہ۔
اس حصے میں مولانا کی ترجمہ کردہ ایک کتاب کا ذکر کیا گیا ہے۔
٭…٭
یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس فہرست میں مولانا مرحوم کی تحریروں کا پوری طرح احاطہ نہیںہو سکا۔ ان کی بہت سی تحریریں اور تقریریں‘ رسائل و جرائد میں بکھری ہوئی ہیں اور چند ایک کتابچوں کی صورت میں شائع کی گئی ہیں۔
اس فہرست میں شامل ہرکتاب کی نوعیت واضح کرنے کے لیے‘ قوسین میں اس کی مختصر توضیح (annotation) بھی دی گئی ہے۔ ہر حصے میں حوالوں کی ترتیب الفبائی ہے۔
۱- ترجمہ قرآن مجید‘ مع مختصر حواشی: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۶ء‘ ۱۵۸۰ ص۔ (یہ ترجمہ اور حواشی تفہیم القرآن ہی سے ماخوذ ہیں لیکن ترجمے پر مولانا نے نظرثانی کر کے بعض ترامیم کیں۔ اس نسخے کی اس اہمیت اور استناد کے سبب اس کا ذکر ابتدا میں کیا جا رہا ہے)
٭ قرآن مجید‘ مترجم (بین السطّور): ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۹۰ء‘ ۹۲۷ ص۔ (اس نسخے میں حواشی شامل نہیں۔ ترجمہ متن کے ساتھ ساتھ (بین السطّور) دیا گیا ہے۔ دیباچہ از ملک غلام علی‘ ۲۰ اگست ۱۹۹۰ء)
۲-تفہیم القرآن‘ جلد اول: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۱ء‘ ۶۶۳ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ فاتحہ تا سورہ الانعام۔ آغاز تحریر: فروری ۱۹۴۲ء)
۳- تفہیم القرآن‘ جلد دوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۵۴ء‘ ۷۱۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الاعراف تا بنی اسرائیل)
۴- تفہیم القرآن‘ جلد سوم : شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘ ۱۹۶۲ء‘ ۸۲۱ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ الکہف تا سورہ الروم)
۵- تفہیم القرآن‘ جلد چہارم: شیخ قمرالدین‘ مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور‘۱۹۶۶ء‘۶۸۴ ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ لقمان تا سورہ الاحقاف)
۶- تفہیم القرآن‘ جلد پنجم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۱ء ‘ ۶۳۲ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ محمد تا سورہ الطلاق)
۷- تفہیم القرآن‘ جلد ششم : ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۲ء ‘ ۶۵۹ص۔ (ترجمہ و تفسیر: سورہ التحریم تا سورہ الناس— تکمیل: ۷ جون ۱۹۷۲ء)
۸- سیرتِ سرورِعالمؐ،جلداول: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ء‘ ۷۶۴ص۔ (نبوت‘ رسالت‘ دعوت وغیرہ کے مباحث۔ سیرت النبیؐ کا پس منظر۔ مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)
۹- سیرتِ سرورِعالمؐ،جلددوم: ادارہ ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۷۸ء‘ ۷۶۳ص۔ (سیرت النبیؐ کامکی دور۔مرتبہ: نعیم صدیقی‘ عبدالوکیل علوی)
۱۰- اسلام اور جدید معاشی نظریات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۵۹ء‘ ۱۶۷ ص۔ (کتاب سود کے ان ابواب کا مجموعہ‘ جن کا براہ راست تعلق مسئلہ سود‘ سے نہیں ہے)
۱۱- اسلام اور ضبطِ ولادت: ادارہ دارالاسلام پٹھان کوٹ‘ ۱۹۴۳ء‘ ۶۹ ص۔ (تحریک ضبطِ ولادت کی تاریخ)
۱۲- اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی ‘ لاہور‘ ۱۹۵۵ء ۳۲۰ ص۔ (۳۳-۱۹۳۲ء کے وہ مضامین‘ جو پہلے پہل ترجمان القرآنمیں شائع ہوئے)
۱۳- اسلامی ریاست: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۲ء‘ ۶۲۰ ص۔ (اسلام کے تصور ریاست اور اس کے سیاسی نظام پر مختلف تحریریں۔ ترتیب و تدوین: پروفیسر خورشیداحمد)
۱۴- اسلامی عبادات پر ایک تحقیقی نظر: اقبال اکیڈمی‘ لاہور‘ ۱۹۴۴ء‘ ۷۸ ص۔ (نماز اور روزے پر دو مقالات)
۱۵- اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۶۲ء‘ ۴۹۳+۴۸ ص۔ (مختلف مضامین اور تقاریر کا مجموعہ)
۱۶- الجہاد فی الاسلام: ادارہ دارالمصنفین اعظم گڑھ‘ ۱۹۳۰ء‘ ۵۰۴ ص۔ (الجمعیت دہلی میں یہ سلسلہ مضامین‘ ۲ فروری ۱۹۲۷ء کو شروع ہوا اور ۱۵ جون ۱۹۲۷ء کو جملہ مباحث مکمل ہوئے)
۱۷- انتخابی تقاریر: شعبہ نشرواشاعت جماعت اسلامی حلقہ لاہور ] ۱۹۴۲ء [ ۹۶ ص۔ (صدارتی انتخاب ایوب خاں بمقابلہ فاطمہ جناح کے موقع پر لاہور‘ پشاور‘ سرگودھا‘ کراچی میں تقاریر)
۱۸- پردہ: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۰ء‘ ۲۶۰ ص۔ (پردے سے متعلق مضامین و مباحث۔ آغاز: ۱۹۳۶ء)
۱۹- تجدید و احیاے دین: دفتر ترجمان القرآن لاہور‘ ۱۹۴۱ء‘ ۸۰ ص۔ (یہ مقالہ پہلے پہل رسالہ الفرقان بریلی کے شاہ ولی اللہ نمبرکے لیے لکھا گیا تھا)
۲۰- تحریکِ آزادیِ اور مسلمان‘ جلد اول: اسلامک پبلی کیشنزلاہور‘ ۱۹۶۴ء‘ ۴۸۴ص۔ (یہ مجموعہ مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش،اول‘دوم‘ اور مسئلہ قومیت پر مشتمل ہے۔ مرتب: پروفیسر خورشیداحمد)
۲۱- تحریکِ آزادی ہند اور مسلمان‘ جلد دوم: اسلامک پبلی کیشنز لاہور‘ ۱۹۷۳ء‘ ۴۰۸ ص۔ (مشتمل بر: مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘ حصہ سوم‘ اور اسی موضوع سے متعلق ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۸ء تک کے زمانے میں لکھے گئے مزید سولہ مضامین)
۲۲- تحریکِ اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل: مرکزی مکتبہ جماعت اسلامی پاکستان لاہور‘ ۱۹۵۸ء‘ ۲۳۹ ص۔ (جماعت اسلامی پاکستان کے اجتماعِ ارکان‘ منعقدہ ماچھی گوٹھ‘ فروری ۱۹۵۷ء میں پیش کردہ قرارداد اور اس کی توضیح میں ایک مفصل تحریر)
۲۳- تحریکِ جمہوریت ‘ اس کے اسباب اور اس کا مقصد : شعبہ نشرواشاعت تحریک جمہوریت مغربی پاکستان لاہور‘ ] ۱۹۶۸ء[ ۸۹ ص۔ (تقاریر :کراچی‘ سکھر‘ لاہور‘ راولپنڈی‘ مرتب: جیلانی بی اے‘ نظرثانی و تصویب: سیّدمودودی)
(باقی آئندہ)

حصہ