کسبِ حلال کے سنہری اصول

1353

افروز عنایت
مجھے اپنی کسی عزیزہ کو تحفہ دینا تھا۔ عموماً گھریلو خواتین گھر کی، خاص طور پر کچن (باورچی خانے) کی کوئی کارآمد شے تحفے میں پسند کرتی ہیں، لہٰذا میں نے گھر سے قریبی ایک دکان سے ٹی سیٹ لیا۔ مجھے جلدی تھی، میں نے دکاندار سے دو مرتبہ کہا بھی کہ ’’بھائی دیکھ بھال کر دیجیے گا، ٹوٹا پھوٹا نہ ہو، مجھے کسی کو تحفہ دینا ہے‘‘۔ خیر میں اس تحفے کو گھر لے آئی۔ دو گھنٹے بعد مجھے عزیزہ کے گھر جانا تھا۔ بہو نے تحفے کے ڈبے پر ٹی سیٹ کی تصویر دیکھی تو تعریف کرنے لگی اورپوچھا کہ امی میں پیکٹ (ڈبہ) کھول کر دیکھ لوں؟ اُس نے ڈبہ کھولا تو اس میں ایک پیالی ٹوٹی ہوئی تھی۔ فوراً میں نے بیٹے کو دکاندار کے پاس بھیجا کہ دوسرا سیٹ نکال کر دیں… بیٹا واپس آکر کہنے لگا ’’دونوں بھائی (دکاندار) ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگے، گویا انہوں نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی تھی‘‘۔ اس قسم کے اکثر واقعات ہمارے سامنے ہوتے رہتے ہیں کہ گاہک کو پھنسانے کے لیے چیز کی تعریفیں بھی کرتے ہیں اور جو چیز دکھائی جاتی ہے اس کے بجائے دوسری چیز پکڑائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اصل قیمت سے بہت زیادہ منافع لیا جاتا ہے، جبکہ اسی چیز کی قیمت بازار میں کم ہوتی ہے۔ سیدھے سادے بندے کو اس طرح گھیرا جاتا ہے کہ اسے احساس ہی نہیں ہوپاتا کہ سامنے والے نے کس طرح مال زیادہ منافع پر (ناجائز طریقے سے) بیچا ہے۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس قرآن اور احکاماتِ الٰہی کی مکمل عکاس ہے۔ کس کس خوبی اور اسوۂ حسنہ کو بیان کیا جائے۔ ہر عمل، ہر انداز، ہر طریقہ کار ہم مسلمانوں کو رہنمائی بخشتا ہے (سبحان اللہ)۔ جس طرح آپؐ نے زندگی کے باقی امور و معاملات کے بارے میں تعلیمات دی ہیں اسی طرح کاروبار اور تجارت کے بارے میں بھی واضح تعلیمات سے امتِ مسلمہ کو نوازا ہے، جس سے رزقِ حلال کے راستے کھلتے ہیں۔
اماں عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’سب سے عمدہ (حلال کا) کھانا آدمی کے واسطے یہ ہے کہ اپنی کمائی کا کھائے، اور اولاد بھی انسان کی کمائی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ۔ ابودائود)
دینِ اسلام نے اس طرح سودا کرنے اور کاروبار کرنے سے روکا ہے۔ دینِ اسلام میں حلال طریقوں سے کمانے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔ حرام رزق اور دوسروں کو نقصان اور دھوکا دینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ جبکہ آج ہمیں اپنے چاروں طرف اکثر و بیشتر اسی قسم کے واقعات سے دوچار ہونا پڑتا ہے جہاں دھوکے بازی اور جھوٹ کا سہارا لے کر مال فروخت کیا جاتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلے کے ڈھیر پر گزرے، آپؐ نے غلے کے ڈھیر میں اپنا ہاتھ داخل کیا تو آپؐ کی انگلیاں تر ہوگئیں، آپؐ نے فرمایا: ’’اے غلے والے یہ تَری کیسی ہے؟‘‘ اُس نے کہا ’’یہ بارش کی تری ہے‘‘۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’تُو نے تَری کو غلہ کے اوپر کی جانب کیوں نہ کیا؟ تاکہ لوگ دیکھتے (اس عیب کو)۔ سنو جو فریب دے وہ مجھ سے نہیں‘‘ (صحیح مسلم)۔ یعنی نقص والی چیز کا نقص خریدار پر ظاہر کرنا چاہیے۔
آج کل کاروبار میں ایک اور بات شروع ہوگئی ہے کہ کسی سے سودا طے کیا، لیکن کہیں اور سے زیادہ قیمت ملنے پر پہلا سودا ختم کرکے نئے گاہک سے معاملات طے کرلیے۔ مکانات اور گاڑیوں وغیرہ کی فروخت میں خصوصاً (اکثر) یہی طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط روش ہے، دینِ اسلام نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’کوئی شخص اپنے بھائی کے بیع پر بیع نہ کرے، نہ اس کے سودے پر سودا کرے۔‘‘ (ابن ماجہ)
اس سلسلے میں حضرت عقبہ بن عامرؓ اور سمرہ بن جندبؓ کہتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب دو صاحبِ اختیار ایک چیز کو خریدیں تو وہ شے اُس کی ہوگی جس نے اول خریدی ہے۔ ‘‘(ابن ماجہ)
دینِ اسلام نے کاروبار اور تجارت کے باریک سے باریک امور کو ہمارے سامنے کھول کر بیان فرمایا ہے۔ کہیں چیز کی خامی خریدار کے سامنے ظاہر کرنے کو کہا، تو کہیں ناپ تول میں احتیاط برتنے کے احکامات سے نوازا گیا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ناپنے اور تولنے والوں کو فرمایا: ’’تم والی کیے گئے ہو دوکاموں کے (ناپ تول کے)۔ ہلاک ہوئیں ان دو کاموں میں سے پہلی امتیں‘‘ (ترمذی شریف) ہم سب قوم شعیب کے حال سے واقف ہیں کہ رب العزت نے انہیں ہلاک کیا، عذاب نازل کیا اس برائی سے۔ اسی لیے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بھی خبردار کیا کہ اس گناہ میں نہ پڑنا، لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ (اکثر) دکاندار اس گناہ میں ملوث ہیں۔ یہ طریقہ کار ہمیں رزقِ حلال سے دور لے جاتا ہے۔ یہ ذرا سے منافع کے لیے اپنی آخرت برباد کرنے کے مترادف ہے اور خریدار کا نقصان الگ…
دینِ اسلام حسنِ معاشرت کا حامی ہے۔ اللہ کے بندوں کو سُکھ و آرام دینے کا… سہولیات فراہم کرنے کا… نہ کہ تکلیف دینے اور پریشان کرنے کا۔ آپؐ کو جب حضرت خدیجہؓ نے شادی سے پہلے اپنا مالِ تجارت فروخت کرنے کے لیے روانہ کیا تو آپؓ کا غلام میسرہ بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ اس تجارتی سفر میں معمول سے زیادہ منافع ہوا۔ واپس آکر میسرہ نے حقیقت بیان کی کہ آپؐ نے کن اصولوں کو مدِنظر رکھا تھا۔ اور وہ وہی تمام اصول تھے جن کی تعلیمات آپؐ نے آگے چل کر (نبوت کے بعد) اپنی امت کو فرمائیں۔ حضرت خدیجہؓ آپؐ کے حسنِ سلوک، شرافت اور ایمانداری سے کاروبار کرنے سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ آپؐ کو اپنا ہم سفر بنالیا۔ (سبحان اللہ)
دینِ اسلام کی یہ تعلیمات نہ صرف بندے کو رزقِ حلال کی ترغیب دلاتی ہیں جس سے بندے کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے، بلکہ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ رزقِ حلال سے نہ صرف برکت نصیب ہوتی ہے بلکہ اولاد بھی نیک، صالح اور فرماں بردار ہوتی ہے، اور کاروبار اور تجارت کے لیے دینِ اسلام نے جو خوبصورت اصول مرتب کیے ہیں ان سے حسنِ معاشرت کو جِلا ملتی ہے۔ میرا اللہ یہ پسند فرماتا ہے کہ بندے میرے دوسرے بندوں کو سُکھ و سہولیات فراہم کریں نہ کہ انہیں پریشانی میں مبتلا کریں۔ اس وقت ہمیں چاروں طرف لوگ مہنگائی کا رونا روتے نظر آرہے ہیں، اس میں کیا صرف حکومتِ وقت کا ہی قصور ہے، یا کاروباری لوگوں کا بھی جنہوں نے مصنوعی مہنگائی اور ’’بحران کی فضا‘‘ قائم کی ہوئی ہے؟ ذخیرہ اندوزی، قیمتیں بڑھانا، خراب مال بازاروں میں بیچنا، سود لینا و دینا، ناپ تول میں کمی کرنا، سودے پر سودا کرنا، مال کے نقص کو پوشیدہ رکھنا… کیا یہ رزقِ حلال کے راستے ہیں؟ ہرگز نہیں، یہ سب احکاماتِ الٰہی اور تعلیمِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہیں، جس سے خریدار زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ آپؐ نے تو مال بیچنے کے لیے قسمیں کھانے سے بھی روکا ہے کہ اس سے برکت جاتی رہتی ہے۔
رب العزت ہمیں ان طریقوں کے استعمال سے رزق کمانے سے بچائے۔ قیامت کے دن ہم سے ہمارا رب حساب کتاب لے گا کہ کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، جیسا کہ سورۃ التکاثر میں میرے رب نے فرمایا ہے، اور آپؐ کی حدیثِ مبارکہ بھی ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز کسی شخص کے قدم (مقامِ حساب سے) ہٹنے نہ پائیں گے جب تک اُس سے پانچ باتیں نہ پوچھ لی جائیں گی (ان پانچ باتوں میں دو یہ ہیں) کہاں سے کمایا؟ اور کہاں خرچ کیا؟‘‘
لہٰذا ہم سب کو مال کمانے، تجارت و کاروبار کرنے میں احتیاط سے کام لینا چاہیے تاکہ آخرت میں ہم رسوائی اور عذاب سے بچ سکیں…
رب العزت ہمیں تعلمیاتِ اسلامی پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حصہ