زبان کی خوبصورتی

638

حرا زرین
’’یہ جو ثمرینہ ہے ناں، یہ بہت سرو قامت ہے، سنہری رنگت جیسے شفق پھوٹ رہی ہو۔ غزالی آنکھیں، بال ایسے جیسے گھٹا چھا رہی ہو‘‘۔ ارے آپ تو تصوراتی اور تخیلاتی دنیا میں ہی چلے گئے۔ یہ کوئی اصلی ثمرینہ نہیں بلکہ ایک خیالی ثمرینہ ہے جن کی تعریف پی ٹی وی کے پرانے دور کے مقبول ڈرامے میں کی جارہی ہے۔ تعریف کے لیے کیا خوب صورت انداز اپنایا گیا۔ الفاظ و تشبیہات دیکھ کردل عش عش کر اٹھا۔
ذرا موازنہ تو کیجیے موجودہ ڈراموں اور میڈیا کی زبان سے، اب تو ایسا زبان و بیان تقریباً ناپید ہی ہوچکا ہے۔ پرانے ڈرامے دیکھیں تو یہی زبان وبیان نظر آتا ہے۔ شائستہ مزاح، پاک صاف زبان، سلیس اردو، اور الفاظ کی بہترین ادائیگی۔ آج کے دور میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ میڈیا پر عام فہم یا عوامی زبان استعمال کی جائے، یعنی وہ زبان جو عوامی سطح پر بولی اور سمجھی جاتی ہو۔
اسی چکر میں اب اخبارات و چینلز پر ایس ایم ایس والی زبان استعمال ہونے لگی ہے۔ خبریں سنو تو چونکہ، البتہ، دوسری جانب اور جو ہے جیسے الفاظ کا ایسا بے دریغ اور بے مقصد استعمال ہوتا ہے کہ اگر ان الفاظ کو نکال دیا جائے تو شاید خبر میں الفاظ کم ہی بچیں۔ ڈراموں میں بھی انتہائی عامیانہ زبان اور لب ولہجہ دکھایا جانے لگا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میڈیا اس بات کو بالکل بھول گیا ہے کہ اس کا مقصد تفریح کے ساتھ تعلیم بھی ہے۔ عوام کے زبان و بیان کو بہتر بنانے کے بجائے خود کو اُن کی سطح پر گرا لیا گیا ہے اور گلی محلّوں کی زبان جسے پہلے بزرگوں کے سامنے بولنا بھی گستاخی سمجھا جاتا تھا، اب دھڑلے سے میڈیا پر بولی جارہی ہے۔
یہ سب کہنے کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ ڈراموں یا خبروں میں انشاء پردازی شروع کردی جائے اور جملوں کو پہاڑوں سے ٹکر دلوا کر ان کی گونج کو لہروں سے ہم آہنگ کیا جائے، پھر ان کے ملاپ سے بننے والی آواز کو ہوا کے دوش پر اٹھا کر اسکرین پر پٹخ دیا جائے۔ مگر پھر بھی کچھ تو شائستہ اور اچھی زبان اختیار کریں۔ عام فہم کے چکر میں ہماری نئی نسل اپنی قومی زبان کو ہی بھول بیٹھی ہے۔ ذرا ثقیل لفظ کہہ دو تو اس کا ترجمہ کرنے کی درخواست کردیتے ہیں۔ پھر وہ لفظ انگریزی زبان میں ادا کرکے سمجھانا پڑتا ہے۔ اپنی زبان کو اس طرح فراموش کردینا درست نہیں، اور پھر ہم جیسے اردو کے تھوڑے بہت قدردان بھی اس لطف سے محروم ہوکر رہ گئے۔ یقین جانیے بڑا لطیف احساس ہوتا ہے شائستہ و شگفتہ سی اردو سن کر (اب یہ لطیف، شائستہ اور شگفتہ انسانوں کے نام نہیں ہیں)۔ دیکھیے اب ٹیوب لائٹ کو ’نلی دار بتی‘ اور ٹیلی ویژن کو ’دورنما‘ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن پھر بھی ٹرین کو ’ریل‘ گاڑی پکارنا قطعی مشکل نہیں۔ اس لفظ کے ساتھ ہی جھولے دار یادیں جڑی ہوئی ہیں۔ پین کو ’قلم‘ کہنے سے خودبخود ذہن میں خطاطی اور تختی ابھرنے لگتی ہے۔ ونڈو کو ’جھروکا‘ کہہ کر تو دیکھیں، سانولی سلونی سی حسینہ خود جھانکتی نظر آئے گی۔ اسی طرح اور بھی بہت سے الفاظ ہیں جو عام فہم اور بآسانی بولے اور سمجھے جا سکتے ہیں۔ خدارا انہیں تو نئی نسل کی ڈکشنری، میرا مطلب ہے لغت سے خارج نہ کریں۔
اسی حوالے سے ایک مشہور لطیفہ یاد آرہا ہے۔ لکھنؤ میں ایک استاد صاحب بڑی ثقیل قسم کی اردو بولا کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ جب بات کرنی ہو تو تشبیہات، استعارات، محاورات اور ضرب الامثال سے آراستہ پیراستہ اردو زبان استعمال کیا کرو۔ ایک بار دورانِ تدریس یہ استاد صاحب حقہ پی رہے تھے۔ انہوں نے جو زور سے حقہ گڑگڑایا تو اچانک چلم سے ایک چنگاری اُڑی اور استاد جی کی پگڑی پر جا پڑی۔ ایک شاگرد اجازت لے کر کھڑا ہوا اور بڑے ادب سے گویا ہوا ’’حضورِ والا! یہ بندۂ ناچیز حقیر فقیر، پُرتقصیر ایک روح فرسا حقیقت حضور کے گوش گزار کرنے کی جسارت کررہا ہے، وہ یہ کہ آپ لگ بھگ نصف گھنٹے سے حقہ نوشی فرما رہے ہیں، چند ثانیے قبل میری چشمِ نارسا نے ایک اندوہناک منظر کا مشاہدہ کیا کہ ایک شرارتی آتشی پتنگا آپ کی چلم سے افقی سمت میں بلند ہوکر چند لمحے ہوا میں ساکت و معلق رہا اور پھر آکر آپ کی دستارِ فضیلت پر براجمان ہوگیا۔ اس فتنہ و شر کی بروقت اور فی الفور سرکوبی نہ کی گئی تو حضورِ والا کی جان والا شان کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں…‘‘ اور اتنی دیر میں استادِ محترم کی دستار اُن کے بالوں سمیت جل کر بھسم ہوچکی تھی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اب ایسے بھی نہ کریں، لیکن پھر بھی تھوڑا سا… چاشنی کے لیے… جذبات کے لیے… ان الفاظ سے جڑے احساسات کے لیے… سجاوٹ کے لیے اپنی زبان سے جڑ کر تو دیکھیں۔

حصہ