سقوط ڈھاکا

465

نیلم حمید
۔16دسمبر1971ء بلاشبہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اور ہر سال اس دن کا سورج محب وطن پاکستانیوں کے لیے دل ہلا دینے والی یادوں کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔ یقین نہیں آتا کہ مشرقی پاکستان، جو کبھی پاکستان کے وجود کا حصہ تھا، اسے کاٹ کر بنگلا دیش بنادیا گیا۔ اورپاکستان کے دشمنوں نے پاکستانی قومیت کے تصور پر کاری وار کرکے گہرا زخم لگایا، جس پر ہر پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اس سانحے نے ہماری قوم کی سوچ اور لاشعور پر گہرے اثرات مرتب کیے اور قوم کو بے یقینی کی دلدل میں دھکیل دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اسلام کے نام پر دو ریاستیں وجود میں آئیں: مدینہ اور پاکستان ۔
پاکستان اپنے وجود کے قیام کے بعد سے اپنی مذہبی شناخت دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ دشمنانِ اسلام کو اس کا اسلامی تشخص کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا۔ اسلام دشمنوں نے اس کے خلاف جال بُننے شروع کردیے۔ ہندوئوں کی عیاری، منافقت اور چال بازی، انگریزوں کی عیارانہ اور مکارانہ چالوں اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں سے سقوطِ ڈھاکا وقوع پذیر ہوا۔ ہمارے لالچی اور خودغرض حکمراں دشمنوں کے پھیلائے جال میں بآسانی پھنس گئے۔
1971ء میں ملک کی بقاء کی جنگ افواجِِ پاکستان کے شانہ بشانہ لڑنے والے غدار ٹھیرے۔ اقتدار کے لالچ اور ڈالروں کی چکا چوند نے حکمرانوں کی آنکھیں چندھیا دیں۔ ان کو پاکستان کے وجود اور اس کی سلامتی سے کوئی غرض نہ تھی۔
اسلام دشمنوں نے بھارت کو چھتری فراہم کی اور 16 دسمبر کو یہ سانحہ رونما ہوا۔ سقوطِ ڈھاکا کے بنیادی کردار یحییٰ خان کی نااہلی، مجیب الرحمن کی ہٹ دھرمی اور بھٹو کی ہوسِ اقتدارِ کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔
آہ… مشرقی پاکستان، ہمارا سنہرا روپہلا دیس… وہ محبِ وطن پاکستانی جنہوں نے آزادی کی جنگ شانہ بشانہ لڑی، 1965ء کی جنگ متحد ہوکر لڑی۔
اس سانحے پر جس قدر غور کریں ذہن الجھتا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کی تاریخ میں کوئی مہینہ ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی سانحے سے دوچار نہ ہو۔
قائداعظم کا مہینہ، جہاں خوشیاں ہیں وہاں اس سانحے کی وجہ سے قائد کی روح بھی تڑپتی ہے۔ اگر اُس وقت افہام و تفہیم سے کام لیا جاتا اور اجلاس میں ڈھاکا جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں نہ دی جاتیں تو آج پاکستان دولخت نہ ہوتا۔ وہ ڈھاکا جو خوب صورت مساجد کی سرزمین تھا، میرا ڈھاکا جو بہتے دریاؤں کی روانی تھا، میرا ڈھاکا جو سراپا محبت تھا، اس کے کہساروں اور کھلے میدانوں کی جب یاد آتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے، مگر ہم نے بحثیت قوم اس سانحے سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور آج بھی ہمارے سیاست داں اور حکمراں اپنی ذہنی غلامی کے سبب رہے سہے پاکستان کے ٹکڑے کرنے میں مصروف ہیں۔

حصہ