کفرانِ نعمت

292

شہلا خصر
آج پھر پڑوس کے مکان سے آنے والی دھم دھمادھم کی آوازیں اور ساتھ ہی نحیف سی آواز میں سسکیوں سے رونے کی آوازیں خالہ صفیہ کے لیے سوہانِ روح بنی ہوئی تھیں، مگر وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ یہ آوازیں آج کیوں آرہی ہیں، اور یہ کہ انہیں روکنا کسی کے بھی بس میں نہیں۔ بس وہ بے چاری دل ہی دل میں دعائیں کررہی تھیں کہ کسی طرح پڑوس کے مکان مالک طفیل احمد کا غصہ ٹھنڈا ہوجائے، ورنہ تو اس کی دھان پان سی بیوی رابعہ کی کوئی نہ کوئی ہڈی ٹوٹنے ہی والی ہے۔
طفیل احمد کی نظر میں اُس کی بیوی کا قصور ہی اتنا بڑا تھا کہ آج یہ ’’خاطر‘‘ کرنے کا اسے پورا پورا حق تھا۔ تواتر سے چار سال میں چار عدد بیٹیاں پیدا کرنا طفیل احمد کی نظر میں ناقابلِ معافی جرم تھا۔ آج ہی رابعہ اسپتال سے اپنی تین دن کی پھول سی بیٹی کو لے کر گھر آئی تھی، اور طفیل احمد نے بیٹے کی پیدائش کے شوق میں سال بہ سال اتنے بڑے نقصان کی پوری پوری وصولیابی رابعہ کی آدھے گھنٹے تک مرمت کرکے کی، اور جب غصہ کچھ کم ہوا تو اول فول بکتا گھر سے نکل کر روزانہ کے معمول کے مطابق اپنے دوستوں کی بیٹھک میں چلا گیا۔ موقع غنیمت جان کر خالہ صفیہ دوڑ کر رابعہ کے گھر آگئیں۔ درد سے کراہتی رابعہ کو اٹھاکر بستر پر لٹایا، دودھ گرم کرکے لاکر دیا اور گلے سے لگا کر تسلی دی۔ اس کے سوا وہ کر بھی کیا سکتی تھیں! گزشتہ چار سال سے یہی ڈراما ہر لڑکی کی پیدائش پر دہرایا جاتا تھا، اور اس کی قسطیں کئی ماہ تک چلتی رہتی تھیں۔ طفیل احمد کا تعلق پنجاب کے کسی دیہات کے بڑھئی خاندان سے تھا۔ اس کے خاندان میں بچپن ہی سے بچوں کے رشتے طے ہوجاتے تھے، اور چونکہ خاندانی بڑھئی تھے اس لیے بچوں کی تعلیم وغیرہ کی فکروں سے تقریباً آزاد ہی تھے۔
رابعہ، طفیل احمد کی سگی خالہ زاد تھی۔ رابعہ کی پیدائش ہی کے وقت طفیل کی ماں نے اپنے بیٹے کے لیے اسے مانگ لیا تھا۔ چھوٹی عمر ہی سے طفیل احمد اپنے بڑے بھائیوں کی طرح باپ کے ساتھ کام پرجانے لگا اور کچھ ہی عرصے میں وہ بہترین کاریگر بن گیا اور کمانے کے قابل ہوگیا، لہٰذا خاندانی رسم و رواج کے مطابق بچپن کی منگ رابعہ سے اُس کی شادی کروا دی گئی۔ طفیل چار بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا اور گھر میں بے حد لاڈلا تھا۔ بچپن ہی سے اسے شہر کی رنگینیاں بہت بھاتی تھیں، اور وہ ان جگمگاتی روشنیوں کو قریب سے دیکھنا چاہتا تھا۔ اسی شوق کی تکمیل کے لیے اس نے قریبی شہر کی ایک معیاری فرنیچر مارکیٹ میں دکان لینے کی خواہش ظاہر کی، جو کہ تھوڑے پس و پیش کے بعد مان لی گئی، اور یوں چھوٹے سے گائوں کو خیرباد کہہ کر طفیل احمد اپنی بیوی کو لے کر پُررونق شہر کی جگمگ رنگینیوں میں آبسا۔ یہاں آکر اس کاکام بھی خوب چمک اٹھا۔ بے انتہا آمدنی ہونے لگی۔ رہن سہن میں بھی واضح تبدیلی آگئی۔ مگر روپیہ پیسہ طفیل احمد کی جاہلانہ سوچ کو نہ بدل سکا، اور وہ بیٹیوں کی پیدائش کو نحوست کی نشانی سمجھتا، اسی لیے دن بہ دن اُس کا رویہ رابعہ کے ساتھ نہایت تلخ اور تحقیر آمیز ہوتا چلا گیا۔ پڑوس کے سبھی گھرانوں کو رابعہ سے دلی ہمدردی تھی۔ رابعہ نہایت سادہ اور نیک عورت تھی۔ گزشتہ چار سال سے وہ اس علاقے میں رہائش پذیر تھی، اور پڑوس کے تقریباً تمام گھروں کی خواتین اس کی سلیقہ شعاری اور اخلاق کی گرویدہ تھیں۔ رابعہ کا زیادہ وقت بچیوں کی نگہداشت اور گھر کے کاموں میں گزر جاتا، اور جب بھی فرصت ملتی وہ قرآن شریف لے کر بیٹھ جاتی اور تلاوتِ قرآن میں اپنے دل کا سکون تلاش کرتی۔ طفیل احمد کے والدین اسپتال میں چیک اپ کے لیے ایک دوبار ضرور شہر کا چکر لگاتے اور ان کے پاس ٹھیرتے۔ طفیل کا باپ قدیر احمد قدرے معقول انسان تھا، وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو سمجھاتا کہ بیوی کے ساتھ اپنا رویہ درست کرو، اور اپنی پوتیوں سے بھی بے حد پیار کرتا۔ مگر طفیل کی ماں سرداراں بی بی روایتی ساس کا مکمل نمونہ تھی۔
پہلی ہی لڑکی کی پیدائش پر رابعہ کو ساس کی بہت سی کڑوی کسیلی باتیں سننا پڑیں۔ بقول سرداراں بی بی کے: ہمارے خاندان میں تو ہمیشہ پہلی اولاد لڑکا ہی ہوتی ہے، یہ لڑکی کیسے پیدا ہوگئی؟ اور یہ کہ میرے بیٹے کی ساری کھلائی پلائی تم نے ضائع ہی کردی۔ اس کے علاوہ بھی نہ جانے کون کون سے الفاظ کے نشتر تھے جو اس معصوم کو برداشت کرنا پڑے۔ ان سوالوں کے جواب میں سوائے خاموشی سے آنسو بہانے کے، اُس کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا۔ اسی طرح صبر شکر کے ساتھ وقت گزرتا گیا۔ اللہ نے اگلے سال پھر سے اُس کی گود بھردی۔ اس بار طفیل احمد کی دلی مراد بر آئی اور اللہ تعالیٰ نے بہت خوبصورت اور صحت مند بیٹے سے نوازا۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد رابعہ کو تھوڑی سی قدر اور عزت ملی اور اس کے سنگین جرم یعنی چار بیٹیاں پیدا کرنے کو بھی کسی حد تک معاف کردیا گیا اور ’’خاطر داری‘‘ میں بھی کسی حد تک کمی آئی۔ لیکن اب ایک اور تکلیف دہ صورت حال پیدا ہوگئی۔ طفیل اپنے اکلوتے بیٹے صغیر احمد کو دل و جان سے چاہتا تھا اور اسے ہتھیلی کا چھالا بناکر رکھتا تھا۔ وہ دنیا جہان کی آسائشیں، پھل مٹھائیاں، کھلونے وغیرہ لے کر آتا، مگر وہ سب کچھ صرف صغیر احمد کے لیے ہوتا، اور انہیں استعمال کرنے کا حق چاروں لڑکیوں کو نہ ہوتا۔ باپ کے اس منفی رویّے سے ننھی بچیوں کے دل ٹوٹ جاتے۔ ان کی معصوم نگاہوں میں بے شمار حسرتیں اور سوالات ہوتے۔
وقت کا پہیہ چلتا گیا اور کئی سال بیت گئے۔ اب پانچوں بچے جوان ہوچکے تھے۔ رابعہ نے اس تمام صورت حال میں نہایت سمجھداری سے اپنی بیٹیوں کی پرورش کی۔ انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائی، اور ہمیشہ صبر اور شکر کا درس دیا۔ باپ کی بے رخی اور ناانصافی کو رب کی رضا سمجھ کر قبول کرنے کو کہا۔ چاروں بیٹیاں ماں کی بہترین تربیت پاکر نہایت سمجھدار اور سلجھی ہوئی نکلیں۔ دوسری طرف باپ کے غیر ضروری لاڈ پیار اور حمایت کی وجہ سے صغیر احمد نہایت ضدی، اکھڑ مزاج اور خود پرست ہوچکا تھا۔ دونوں بڑی لڑکیوں عائشہ اور فاطمہ کی بات بچپن ہی میں ماموں کے دونوں لڑکوں سے طے ہوچکی تھی، لہٰذا میٹرک پاس کرتے ہی دونوں بیاہ کر ماموں کے گھر چلی گئیں۔ دونوں کے شوہر کم تعلیم یافتہ تو ضرور تھے مگر بہت بااخلاق اور شائستہ مزاج تھے۔
رابعہ کے بھائی سرور احمد اور اس کی بھابھی سکینہ نے اپنی چاروں اولادوں یعنی دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اللہ کے حکم کے مطابق انصاف اور برابری سے پالا تھا، لہٰذا شادی کے بعد دونوں لڑکیاں بہت خوش تھیں اور رابعہ کو بھی سکون نصیب ہوا۔
اب صغیر احمد بھی کاروبار کے معاملات کو اچھی طرح سمجھنے لگا تھا۔ باپ سے فرمائش کرکے اس نے شہر کے مہنگے پوش علاقے میں دکان خرید لی۔
امیروں کے علاقے میں کاروبار کرنے سے اسے بہت فائدہ ہوا، کیونکہ گاہک اگر صاحبِ حیثیت ہوں تو مال کے اچھے دام مل جاتے ہیں۔ چنانچہ روپے کی ریل پیل سے صغیر کی خودسری اور عیاشیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اب تو وہ باپ سے بھی بہت بدتمیزی سے بات کرتا۔ مگر طفیل احمد اپنی محبت کے ٹھاٹیں مارتے سمندر میں ڈوبا ہی رہتا، اسے صغیر احمد کی کوئی بھی بدتمیزی بری نہ لگتی کیونکہ وہ تو بیٹے ہی کو اپنا وارث، جانشین اور بڑھاپے کا سہارا سمجھتا تھا۔ اللہ کا کرنا کچھ یوں ہوا کہ طفیل احمد پینتالیس سال کی عمر میں جگر کے کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگیا۔ ڈاکٹروں نے فوری طور پر علاج شروع کروانے کو کہا۔ شادیوں کا سیزن عروج پر تھا۔ صغیر کے پاس فرنیچر کے آرڈر کی لائنیں لگی ہوئی تھیں، وہ کسی بھی قیمت پر اپنی لاکھوں کی آئی آمدنی کو برباد کرکے باپ کو لے کر اسپتالوں کے چکر کاٹنے پر راضی نہ ہوا، اور روز حیلے بہانے کرکے نکل جاتا۔
آخر ایک دن مجبوراً رابعہ کو طفیل کو لے کر اسپتال جانا پڑا۔ مگر اب رابعہ میں بھی وہ دم خم نہ رہا تھا کہ پورا پورا دن اسپتال میں ڈاکٹروں کے لیے انتظار گاہ میں بیٹھے، اور مختلف نوعیت کے ٹیسٹ وغیرہ کروائے، لیبارٹری کے چکر لگائے۔ اسی لیے ایک ہی دن کی مشقت سے رابعہ کو تیز بخار ہوگیا۔
اگلی بار مجبوراً طفیل احمد کو اپنی دونوں چھوٹی بیٹیوں خدیجہ اور ماریہ کے ساتھ ہی اسپتال جانا پڑا۔ دونوں بیٹیاں ماں کی طرح بہت صابر شاکر تھیں۔ سخت گرمی اور رش کے باوجود دونوں نے تحمل کے ساتھ ڈاکٹر کے معائنے کے لیے انتظار کیا اور پورا دن اسی تگ و دو میں گزر گیا۔ طفیل احمد دل ہی دل میں کچھ خفت محسوس کررہا تھا، کیونکہ اس کی نظر میں بیٹیوں سے مدد لینا مردانگی کے اصولوں کے خلاف تھا۔
دن پر دن اور مہینوں پر مہینے گزرتے گئے۔ کینسر کا علاج نہایت صبر آزما اور طویل ہوتا ہے۔ کیمو تھراپی اور ریڈیالوجی نے طفیل احمد کو توڑ کر رکھ دیا۔ خدیجہ اور ماریہ نے اولاد ہونے کا پورا پورا حق ادا کیا اور اس مشکل وقت میں بیٹا بن کر باپ کا سہارا بنیں، جبکہ صغیر احمد کے مشاغل میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اپنے باپ کے لیے تو وقت نہ نکال پایا، مگر دوستوں کے ساتھ ملائشیا کے ٹرپ پر جانے کے لیے اسے وقت مل گیا۔
طفیل احمد نے کبھی خوابوں میں بھی نہ سوچا تھا کہ وہ جن بیٹیوں کو زندگی بھر نظرانداز کرتا آیا تھا اور غیر ضروری اور اضافی بوجھ سمجھ کر انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا، وہی بیٹیاں اس کی زندگی کا اتنا مضبوط سہارا بن جائیں گی۔ ان سب حالات نے اس کی آنکھوں پر بندھی جہالت آمیز سوچ کی پٹی اتاردی۔ اب اسے اپنی ایک ایک غلطی کا شدید احساس ہورہا تھا۔
شام کو جب رابعہ طفیل احمد کے لیے تازہ موسمی کا جوس بناکر لائی تو احساسِ ندامت سے طفیل احمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر رابعہ سے معافی مانگی اور کہنے لگا کہ میں نے بہت بڑی غلطی کی جو تم جیسی نیک اور صابر بیوی اور بیٹیوں کی قدر نہ کی اور ساری عمر حق تلفی کرتا رہا۔ تم مجھے معاف کردو تو شاید اللہ تعالیٰ بھی مجھے معاف کردیں۔
رابعہ نے کبھی بھی شوہر کو اس طرح دکھی نہ دیکھا تھا، وہ بھی رو پڑی اور طفیل احمد کو سچے دل سے معاف کردیا۔ باپ کے رونے کی آواز سن کر خدیجہ اور ماریہ بھی بے چین ہوکر دوڑی آئیں۔ طفیل احمد نے اپنی دونوں بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا اور اپنے رب کا شکر ادا کیا جو ایسی بیٹیوں سے نوازا، واقعی بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہیں، بیٹیوں کو حقیر جان کر میں نے اپنے رب کا کفران نعمت کیا۔ طفیل احمد نے رب کے احسان کو دل سے تسلیم کیا اور سچی خوشی کے آنسو اُس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔

حصہ