گھر کا پرسکون ماحول بچوں کو ذہنی تناؤ سے بچاتا ہے

273

تسلیم اختر
ذہنی اور جذباتی تنائو کی کیفیت بچوں اور بڑوں، دونوں پر طاری ہوسکتی ہے، لیکن اسے دور کرنے کے لیے بڑوں کی نسبت بچوں کو ادویہ نہیں دی جاتیں اور اس بات پر خود معالجین بھی متفق ہیں۔ اس کے باوجود حال ہی میں ایک چشم کشا طبی تحقیق منظرعام پر آئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکا جیسے ملک میں جسے جدید طب کے میدان میں نہایت اہمیت حاصل ہے، بچوں کے ذہنی تنائو اور جذباتی دبائو کو دور کرنے کے لیے معالجین کی جانب سے ادویہ استعمال کروانے کے رجحان میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ یہ ادویہ عام طور پر بچوں کی بدمزاجی کے خاتمے اور ان کے منفی رویوں کو ختم کرنے کے لیے معالجین تجویز کرتے ہیں۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نفسیاتی ماہرین و معالجین اپنے پاس لائے جانے والے ان بچوںکا نفسیاتی طریقوں سے علاج کرنے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ ادویہ کے استعمال سے ان بچوں کی آئندہ کی زندگیوں پر دیرپا لیکن مضر اثرات کے رونما ہونے کو قطعاً نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔‘‘
تحقیق میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ یہ رجحان جس کا ابھی صرف امریکا کی حد تک ہی جائزہ لیا گیا ہے، کیا مستقبل میں ایک مثبت عمل کے طور پر سامنے آئے گا، یا اس سے متعدد بیماریوں کی علامتیں جنم لیں گی؟ صورتِ حال جو کچھ بھی ہو، ایک بات یقینی ہے، وہ یہ کہ اس کی ذمہ دار صرف فوری علاج اور جلدی صحت یاب ہونے کی وہ خواہش ہے جس نے اس تیز رفتار دنیا کے باسی حضرتِ انسان کو ہر مرض کا علاج دوا، اور وہ بھی جو تیزی سے اثر کرے، میں ڈھونڈنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
پہلے علاج اور صحت یابی کے لیے معالجین مریضوں کے معمولاتِ زندگی کو بھی پیش نظر رکھتے تھے اور مرض کی علامتوں کے تحت انہیں غذا میں ردوبدل اور آرام کا مشورہ دیا جاتا تھا۔ شیر خوار بچے کو لاحق کسی بھی مرض کے علاج کے لیے ماں کو بھی پرہیز کروایا جاتا تھا۔ لیکن اب ہم صرف ادویہ اور وہ بھی سریع الاثر میں ہر مرض کا علاج ڈھونڈنے لگے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ کمسن بچوںکے نفسیاتی مسائل کے تدارک کے لیے انہیں عمر سے قطع نظر ادویہ استعمال کروانے کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ بچوں کے نفسیاتی عوارض کو ختم کرنے کے لیے والدین کے رویّے نہایت مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

حصہ