میں جس مکان میں رہتا ہوں اُس کو گھر کردے

1238

قدسیہ ملک
شفقت صاحب نے ساری زندگی پرائیویٹ نوکری کی۔ ایک سے جواب مل جاتا تو دوسری کی تلاش شروع کردیتے۔ اسی مشقت میں کیسے 60 سال کے ہوگئے، پتا ہی نہ چلا۔ اچھی تعلیم اور اچھے تجربے کے باعث اچھے عہدوں ہی پر رہے، لیکن اس کے باوجود اپنا گھر نہ بنا سکے۔ شادی سے پہلے مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے، لیکن شادی اور پھر بچوں کے بعد 120 گز کا گھر چھوٹا لگنے لگا۔ آخر والد کے انتقال کے بعد تینوں بھائیوں کے مشترکہ فیصلے سے الگ الگ رہنے کا فیصلہ کیا گیا۔ تینوں اپنی اپنی بندھی آمدنی کے سبب کرائے کے مکانوں اور فلیٹس میں شفٹ ہوگئے۔ دو بہنوں اور تین بھائیوں میں مکان کی رقم تقسیم ہوئی تو کسی بھائی کے پاس بھی اتنی رقم نہیں تھی کہ اپنا ذاتی مکان خرید سکتا۔ اسی لیے کرائے کے مکانوں پر اکتفا کیا۔ دوسرے بھائیوں کو بھی شفقت صاحب کی طرح بار بار کرائے کے مکان کے لیے پریشان ہونا پڑتا۔کوئی مالک مکان ایک سال سے زیادہ کے لیے مکان دینے پر راضی نہ ہوتا۔ اگر ہو بھی جاتا تو ایڈوانس زیادہ طلب کرتا، یا پھر سال ختم ہوتے ہی کرائے میں اضافے کا مطالبہ کردیتا۔ اسی کشمکش میں ریٹائرمنٹ کے دن آگئے۔ شفقت صاحب بہت پریشان تھے کیونکہ وہ اپنے بچوں کو ساری زندگی کی محنت کے باوجود ایک گھر نہ دے سکے۔
مسز نادر اپنے شوہر کے گولڈن ہینڈ شیک کی رقم سے ایک اچھی جگہ اپنا مکان بنانے میں کامیاب ہوگئیں۔ ابتدا میں تو وہ اپنے دو بچوں اور شوہر کے ہمراہ اپنے نئے گھر کو سجانے سنوارنے میں لگی رہتیں۔ سب سہیلیاں بھی قریب قریب ہی رہتی تھیں۔ وہ بہت خوش تھیں،کیونکہ انہوں نے اپنے گھر کو خوب سجایا ہوا تھا۔ ساری سہیلیوں میں ان کا گھر سب سے خوبصورت تھا۔ لیکن کچھ ہی عرصے میں ان کی ایک دوست ان کے محلے سے ایک دوسرے علاقے میں چلی گئی۔ رفتہ رفتہ ایک کے بعد ایک ساری سہیلیاں دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئیں۔ ان کو یہ بات بہت کھٹکنے لگی،کیونکہ ان کی اہمیت اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی۔ کبھی کبھی ملاقات ہوتی۔ ایک دفعہ وہ اپنی ایک سہیلی سے ملنے اس کے فلیٹ میں گئیں۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اپنی دوست سے اتنے بڑے گھر سے اس فلیٹ میں منتقل ہونے کی وجہ پوچھی، تو ان کی سہیلی اتراتے ہوئے کہنے لگیں ’’مسز نادر آپ کو تو معلوم ہے بچے بڑے ہوگئے ہیں۔ بچوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ پھر اتنے بڑے شہر کے مرکز میں گھر نہ ہو تو اچھے رشتے نہیں آتے۔ بس بچوں کی خاطر ہم نے بھی اپنا اسٹیٹس بلند کرلیا۔ یہ فلیٹ بھلے چھوٹا ہے لیکن شہر کے مرکز میں ہے۔ بچوں کے کالج، یونیورسٹی قریب ہی ہیں۔ میں، میرے شوہر اور بچے بہت مطمئن ہیں۔ آخر مسز نادر بھی اسی دھن میں لگ گئیں۔ انہیں اپنے شوہر سے زیادہ اپنے بچوں کی پروا تھی۔ دھن کی پکی تھیں، سو ایک سال کے اندر اندر اسی علاقے میں ایک چھوٹا سا فلیٹ لینے میں کامیاب ہوگئیں۔ مالک مکان اوپری منزل میں ہی رہتا تھا۔ انہیں ہر روز اپنے گھر میں کسی بھی وقت مالک مکان کی آمد کی پریشانی اٹھانی پڑتی۔ فلیٹ بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔ ان کے بچے بھی شوہر کی طرح اس گھر میں خوش نہیں تھے، لیکن وہ بہت خوش تھیں، کیونکہ اب وہ بھی اپنی سہیلیوں کی ٹکر پر آچکی تھیں۔ ایک سال بعد انہیں بھی مالک مکان نے گھر خالی کرنے کا عندیہ دے دیا۔ انہیں دوسرا گھر بھی فوری مل گیا، لیکن نہ تو یہاں سیوریج کا نظام ٹھیک تھا، نہ سیکورٹی اتنی اچھی تھی۔ آئے دن راہزنی کی وارداتیں بھی ہوتی رہتی تھی۔ کئی بار ان سے بھی طلائی زیورات اور نقدی چھینی جاچکی تھی، لیکن اس سب کے باوجود وہ اپنے پرانے گھر جانے پر راضی نہ تھیں۔
دانش صاحب کو اللہ نے اتنا دیا تھا کہ وہ اور ان کے بیوی بچے بمشکل تین وقت کا کھاناکھا لیتے تھے۔ وہ ہر ماہ بجلی، گیس کے بل، مہینے کا راشن اور گھر کا کرایہ دے دیتے تھے۔ ان کے پاس محفوظ کی گئی رقم کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ رہی سہی کسر مکان کے ماہانہ کرائے، بجلی اور گیس کے بڑھتے ہوئے بلوں نے پوری کردی تھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ مالکانِ مکان کے ہر سال گھر چھوڑنے کے مطالبوں کے باعث وہ ایسی جگہ رہنے پر مجبور تھے جہاں بجلی دن میں 6 بار غیراعلانیہ طور پر غائب ہوجاتی۔ چوری، ڈکیتی، رہزنی تو بالکل عام سی بات تھی۔ علاقے میں پانی کی قلت کے باعث مہینے میں صرف دو بار پانی آتا تھا۔ لیکن ان تمام مسائل کے باوجود وہ سرچھپانے کے لیے میسر ٹھکانے پر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔ مہینہ کیسے گزر جاتا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ لیکن وہ اس سب کے باوجود کرائے کے مکان میں رہنے پر مجبور تھے۔
اکرم صاحب کو اللہ نے بہت دیا تھا۔ ان کے تین گھر تھے۔ ایک میں وہ خود رہتے تھے، باقی دو گھر انہوں نے کرائے پر دیے ہوئے تھے۔ کرائے کے مکانوں کے باعث آئے دن وہ پریشان رہتے تھے۔ کبھی کرایہ دار گھر خالی کرنے کے لیے راضی نہ ہوتے،کبھی کوئی کرایہ دار گھر کا ایسا حال کرکے گھر سے رخصت ہوتا کہ نئے کرایہ داروں کو دینے سے پہلے گھر کو دوبارہ نئے سرے سے بنانا پڑتا تھا۔ ان کے ایک دوست نے انہیں مشورہ دیا کہ ایڈوانس کی مد میں رقم بڑھادو، اور جو نقصان ہو اسی رقم سے پورا کرو۔ انہوں نے اب کی بار ایسا ہی کرنے کا سوچا۔ اس بار انہوں نے ایڈوانس کی خاصی تگڑی رقم معاہدے میں لکھوائی، جو کرائے والی پارٹی بآسانی دینے پر راضی ہوگئی۔ وہ حیران تھے کہ اتنی آسانی سے کیسے راضی ہوگئے!کرایہ دار بھی بہت اچھے تھے۔ مہینہ شروع ہوتے ہی رقم ان کے گھر پہنچا جاتے تھے۔ وہ بہت خوش تھے۔ اس دور میں اچھے کرایہ داروں کا ملنا کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے۔ ایک دن انہیں نامعلوم نمبر سے کال آئی۔ فون اٹھایا تو اُس علاقے کا ایس ایچ او تھا جہاں ان کا کرائے کا مکان تھا۔ انہیں تھانے طلب کیا گیا تھا۔ جب وہاں پہنچے تو پتا یہ چلاکہ آج ان کے گھر پر چھاپا پڑاہے۔ پولیس ان مجرموں کو بہت عرصے سے تلاش کررہی تھی۔ پولیس ان کا مجرموں سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے پورا زور لگا رہی تھی۔ بڑی مشکل سے ان کی خلاصی ہوئی۔
قاسم صاحب نے اپنی محفوظ کی گئی رقم سے ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا۔ وہ خود مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے تھے۔ انہیں گھر کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے وہ گھر انہوں نے کرائے پر دے دیا۔ پانچ سال ہونے کو آئے کرایہ دار اچھا گھر ہونے اور ہر سہولت بآسانی دستیاب ہونے کے باعث قاسم صاحب کا گھر کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے۔
کرایہ دار اور مالک مکان کے مسائل کسی ایک علاقے کا نہیں بلکہ اس گنجان آبادی والے شہر کراچی کے ہر علاقے کا مسئلہ ہے۔ مالک مکان کے اپنے مسائل ہیں، کرایہ دار کے اپنے مسائل ہیں۔ اگر کرایہ دار اچھا مل جائے تو مالک مکان اچھا نہیں ملتا۔ اگر مالک مکان خداترس ہو توکرایہ دار بے خوفی کے ساتھ جو دل چاہے بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مالک مکان اور کرایہ دار دونوں اچھے ہوں اور ان کی آپس میں دوستی بھی ہو۔ اس مسئلے کے پیش نظر انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب کی ہدایت پر کرایہ داری ایکٹ کے تحت مہم شروع کردی گئی ہے۔ اس مہم کا مقصد کسی کو خوف زدہ کرنا نہیں بلکہ یہ ایک احتیاطی اقدام ہے، تاکہ شہر میں امن وامان کی صورت حال کو بہتر رکھنے کے ساتھ ساتھ مجرمانہ سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکے۔ مالک مکان کس طرح کرایہ دار کا انتخاب کرے اور کیا قانونی کارروائی کرے، اس سلسلے میں ڈی پی او عاطف نذیر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہری اپنا فلیٹ، مکان، عمارت یا دکان کرائے پر دینے سے قبل کرایہ دار کے ساتھ تحریری معاہدہ کریں اور معاہدے کی تصدیق شدہ کاپی کے ساتھ کرایہ دار کے مکمل کوائف متعلقہ تھانے یا پولیس خدمت مرکز میں درج کروائیں۔
منسٹری آف ہائوسنگ کے تحت پاکستان کے آئین میں مالک مکان کے کچھ حقوق بیان کیے گئے ہیں جو یہ ہیں:
مالک مکان صرف مخصوص صورتوں میں کرایہ دار کو کرایہ داری ختم کرنے کا نوٹس دے سکتا ہے۔ یہ صورتیں ایکٹ میں واضح کی گئی ہیں۔ اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
1۔کرایہ دار درست وقت پر مکمل کرایہ ادا نہیں کرتا۔
2۔کرایہ دار کرائے کے یونٹ یا عمارت کو نقصان پہنچاتا ہے۔
3۔ کرایہ دار بڑی حد تک دیگر کرایہ داروں یا مالک مکان کے آرام اور سکون میں مداخلت کرتا ہے۔
4۔ اگر مالک مکان کرایہ دار کو کرایہ داری ختم کرنے کا نوٹس دیتا ہے، تو کرایہ دار کو باہر نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر کرایہ دار باہر نہیں نکلتا، تو مالک مکان کو کرایہ دار کو نکالنے کے لیے لینڈ لارڈ اینڈ ٹیننٹ بورڈ (Landlord and Tenant Board)کو درخواست کرنی چاہیے۔
کرایہ وہ رقم ہوتی ہے، جو کرایہ دار کرائے کے یونٹ میں رہائش اختیار کرنے اور اس معاہدے میں متفقہ سروسز یا سہولیات وصول کرنے کے لیے مالک مکان کو ادا کرتا ہے۔
5۔کرایہ دار کو لازمی طور پر اپنا کرایہ وقت پر ادا کرنا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، تو مالک مکان اسے کرایہ داری ختم کرنے کا نوٹس دے سکتا ہے۔
مالک مکان کی طرح کرایہ داروں کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جن پر مالک مکان کو لازمی عمل کرنا چاہیے۔
6۔ کرایہ دار کرائے کی جگہ کو اپنی، اپنے کسی مہمان یا کرائے کے یونٹ میں رہنے والے کسی دوسرے شخص کی وجہ سے کرائے کی جگہ کو ہونے والے کسی بھی نقصان کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس کا اطلاق جان بوجھ کر یا لاپروائی کی وجہ سے ہونے والے کسی بھی نقصان پر ہوتا ہے۔
1۔ اگر کرایہ دار کرائے یا کسی ادائیگی یا ڈپازٹ کی رسید مانگتا ہے، تو مالک مکان کو اسے یہ مفت دینی چاہیے۔ اس کا اطلاق کسی ایسے سابقہ کرایہ دار پر بھی ہوتا ہے جو اپنی کرایہ داری کے ختم ہونے کے بعد 12 ماہ کے اندر رسید مانگے۔
2۔ مالک مکان کرایہ دار کو ادائیگی کی تاریخ پر یا پہلے کرائے کی ادائیگی میں رعایت دے سکتا ہے۔ یہ رعایت قانونی کرائے کے دو فیصد تک ہوسکتی ہے۔
3۔ مالک مکان درج ذیل میں سے کسی ایک طریقے سے کرائے کے بغیر کچھ عرصے کی پیشکش بھی کرسکتا ہے:
12ماہ کے کسی بھی عرصے کے اندر تین مہینے تک کے لیے کرائے کے بغیر عرصہ، آٹھ ماہ کے عرصے میں برابر پھیلا کر ایک مہینے کے کرائے کی رعایت، یا دو مہینوں کے کرائے کی رعایت، جس میں ایک مہینے کا کرایہ پہلے سات ماہ کے دوران برابر پھیلا ہوا ہو، اور آخری پانچ ماہ کے دوران ایک ماہ کے کرائے کے برابر رعایت۔ اس قسم کی رعایت پر تحریری طور پر اتفاق کیا جانا چاہیے۔
4۔ عام طور پر مالک مکان صرف ہر 12 ماہ بعد ہی کرایہ بڑھا سکتا ہے۔ مالک مکان کو لازمی طور پر کرایہ بڑھانے سے کم از کم 90 دن پہلے نوٹس دینا چاہیے۔
5۔ مالک مکان کرائے میں اضافے کی ہدایات سے زیادہ کرایہ بڑھانے کی منظوری کے لیے لینڈ لارڈ اینڈ ٹیننٹ بورڈ کو درخواست دے سکتا ہے۔ متاثرہ کرایہ داران لینڈ لارڈ اینڈ ٹیننٹ بورڈکے سامنے اس درخواست کے خلاف مزاحمت کرسکتے ہیں۔
6۔ مالک مکان کو کرائے کے یونٹ اور جائداد کو اچھی طرح بحال رکھنا چاہیے اور صحت، حفاظت اور دیکھ بھال کے تمام معیارات پر پورا اترنا چاہیے۔
کرایہ داروں کے مسائل میں ایک مسئلہ مالک مکان کی جانب سے زیادہ ایڈوانس وصول کرنا بھی ہے، مفتی مولانا عبدالقیوم ہزاروی اس مسئلے کا حل بتاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اگر پیسے اور وقت مقرر ہو یعنی طے کرلیا جائے کہ اتنا کرایہ ہوگا، رہنے والا اتنی دیر رہے گا اور دونوں فریق راضی ہوں تو ایڈوانس لینا جائز ہے۔‘‘
اگر ان تمام حقوق و فرائض پر کاربند رہا جائے تو مالک مکان اور کرایہ دار ممکنہ پریشانیوں، مسائل اورآزمائشوں سے بآسانی بچ سکتے ہیں۔

حصہ