مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

895

امریکی تال پر رقص کرنے والے دنیا بھر کے تجزیہ نگار گزشتہ پندرہ سال سے افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج کی ناکامی کا ذمے دار ایک تنظیم کو گردانتے، بلکہ اس کی مسلسل گردان کرتے چلے آرہے ہیں۔ یوں تو بجائے خود یہ کوئی تنظیم، گروہ یا جتھا نہیں ہے بلکہ افغانستان میں گزشتہ چالیس سال سے جاری معرکۂ حق و باطل میں سرفروشوں کا ایک گروہ ہے جو 11 نومبر1994ء کو ملّا محمد عمر کی قیادت میں اماراتِ اسلامی افغانستان کے قیام کے لیے طالبان کا حصہ بن گیا تھا۔ اسے مغربی دنیا اور اس کے مرعوب سیاست دان، دانشور ’’حقانی نیٹ ورک‘‘ کہتے ہیں۔ آج اس حقانی نیٹ ورک کا اہم ترین فرد ’’انس حقانی‘‘ قطر میں طالبان امریکا مذاکرات میں طالبان کے نمائندہ وفد میں شامل ہوچکا ہے۔
امریکی استعمار کے برابر میز کی دوسری جانب بیٹھنے والے ان سرفروشوں میں ایک اور ایسے شخص کا اضافہ ہوا ہے جو ان لوگوں کی قید میں تھا۔ کیا کسی کو یقین آ سکتا تھا کہ اکتوبر 2001ء میں جب ہر دوسرے شخص پر جہادی ہونے کا شبہ کیا جاتا تھا اور پرندوں کی طرح پکڑ پکڑ کر لوگوں کو امریکا کے حوالے کیا جارہا تھا، تو ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ یہ مجبور و مقہور لوگ، بدنام زمانہ گوانتاناموبے اور بگرام جیسی جیلوں سے چھوٹ کر عزت و تکریم کی اس منزل پر جا کھڑے ہوں گے، جب امریکی ہی نہیں اردگرد کے وہ تمام ممالک بھی، جو کل تک ان کے دشمن تھے، ان کے خلاف امریکا اور اتحادی افواج کی مدد کررہے تھے جیسے روس، چین، ایران، پاکستان، متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی عرب… سب کے سب ان درویشانِ خدا مست اور فقیرانِ منبر و محراب کی میزبانی کا شرف حاصل کریں گے۔
تاریخ نے اس معجزے پر مہرِ تصدیق ثبت کردی ہے اور مسلسل کرتی چلی جارہی ہے۔ کل کے موسٹ وانٹڈ (Most Wanted) آج کے چیف نیگوشئیٹرز (Cheif negotiators) ہیں۔ میں ان دونوں انگریزی الفاظ کی جگہ ’’اہم ترین مطلوب افراد‘‘ اور ’’اہم مفاہمت کار‘‘ استعمال کرسکتا تھا، لیکن میں اُن دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی زبان بولنا چاہتا تھا جنہیں آج بھی یقین نہیں آرہا کہ ایسا سب کچھ کیسے ہوگیا۔
اللہ دنوں کو انسانوں کے درمیان کیسے بدلتا ہے۔ پرویزمشرف کا وہ پاکستان جو تمام سفارتی آداب بالائے طاق رکھ کر طالبان کے سفیر ملّا عبدالسلام ضعیف کو امریکا کے حوالے کرتا ہے، آج وہی پاکستان، بحرین سے گرفتار ہونے والے انس حقانی کو رہا کرواتا ہے اور طالبان عمران خان کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک اہم افغان کمانڈر سے گفتگو ہورہی تھی، تو اس نے دو لوگوں کے حسنِ سلوک اور مہربانیوں کا خصوصی تذکرہ کیا۔ ایک عمران خان کا، جس نے ایسے وقت افغان حکومت سے طالبان کے تین قیدیوں کو رہا کروایا جب امریکی انتظامیہ مذاکرات ختم کرنے کے بعد مکمل طور پر جنگ کے ماحول میں آگئی تھی، دوسری شخصیت قمر جاوید باجوہ کی ہے جس سے ملاقات کے قصے اب افغانستان میں سنائے جاتے ہیں کہ اس نے کس طرح طالبان کے وفد کی پذیرائی اور آئو بھگت کی۔ یہ ملاقات اُس وقت ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ ستمبر میں مذاکرات کے خاتمے کا اعلان کرچکا تھا۔ وہ تمام قوتیں جن کی شدید خواہش ہے کہ امریکا ابھی مزید کچھ دیر افغانستان میں رہے، ان کی خوشی دیدنی تھی۔
یہ قوتیں کون ہیں… بھارت، افغان حکومت اور پاکستان کے سیکولر، لبرل امریکا نواز دانشور۔ لیکن کمال دیکھیے کہ طالبان نے مذاکرات کے خاتمے کے بعد خطے کے ممالک کے ساتھ ایک بھرپور سفارتی مہم کا آغاز کردیا جسے جارحانہ سفارت کاری (Aggressive diplomacy) کہتے ہیں۔ 17 ستمبر کو طالبان کا وفد ایران گیا اور وہ ایران جو کل تک طالبان حکومت کا مخالف تھا اُس نے طالبان کے مؤقف کی تائید کی۔ اس کے بعد روس کا دورہ کیا گیا۔ ان دونوں کامیاب دوروں کے بعد افغان حکومت کی بوکھلاہٹ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ 22 ستمبر کو ملّا برادر اور اُن کے وفد نے چین میں افغانستان کے لیے خصوصی نمائندے ڈین شیجو سے ملاقات کی، اور اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا۔
طالبان کا وفد بیجنگ کے بعد شنگھائی بھی گیا۔ ان علاقائی ممالک کے بعد ان کا اہم ترین دورہ 3 اکتوبر کو پاکستان کا دورہ تھا۔ ملّا فاضل، مولوی محمد نبی عمری، عبدالحق وثیق، مولوی خیراللہ خیر خواہ، مولوی امیر خان متقی، مولوی مطیع الحق خالص، ملّا عبدالسلام حنفی، ضیا الرحمن مدنی، شیخ شہاب الدین دلاور، شیخ سید رسول، نبراس الحق عزیز، اور ان گیارہ افراد کا سربراہ ملّا عبدالغنی برادر۔ افغان طالبان کا ترجمان رسالہ ’’الشریعہ‘‘ لکھتا ہے کہ پاکستان میں ملّا عبدالغنی برادر کو صدارتی پروٹوکول دیا گیا۔ ’’اللہ رے تیری شان کے قربان جائیے‘‘۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کھانے پر ملاقات کی۔ یادیں اس وفد کے ارکان جس محبت سے اپنے ساتھیوں میں بیان کرتے ہیں وہ مؤرخ وقت آنے پر تحریر کرے گا تو لوگ حیرت میں گم رہ جائیں گے۔
وہ رات بھی عجب تھی جب مذاکرات ختم ہونے کا اعلان ہوا تھا۔ جب طالبان کو اندازہ ہوا تھا کہ امریکا خاموشی سے بلیک واٹر اپنی جگہ چھائونیوں میں آباد کررہا ہے۔ انہوں نے جنگ تیز کردی تھی اور کابل کی جانب پیش قدمی شروع کردی تھی۔ رات ایک بجے زلمے خلیل زاد بیچ میں کودا، پیش قدمی رک گئی۔ لیکن کوئی نہیں جانتا تھا کہ کابل شہر میں طالبان کی اس قدر طاقت موجود ہے کہ حملہ کرکے بلیک واٹر کا ہیڈ کوارٹر تباہ بھی کرسکتے ہیں اور اس کے سربراہ کو موت کے گھاٹ بھی اتار سکتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے دبائو میں ٹویٹ پر اعلان کردیا کہ مذاکرات ختم۔ لیکن ان دو مہینوں میں طالبان کی سفارتی جارحیت اور میدانِ جنگ کی کامیابیوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو راتوں رات افغانستان کا خفیہ سفر کرنے پر مجبور کردیا۔
افغان عوام کا الیکشنوں کا تقریباً بائیکاٹ، افغان حکومت کے اثرو نفوذ کا خاتمہ، طالبان کی پیش قدمی اور بقول طالبان پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کی جانب سے افغان حکومت پر دبائو نے مل کر ان تمام قوتوں کے ارادے خاک میں ملا دیے جو چاہتی تھیں کہ امریکا افغانستان میں مزید کئی سال تک رہے۔ افغان بھی لڑتے رہیں اور خطے کے دوسرے ممالک بھی امن سے محروم رہیں۔
یہ مذاکرات کہاں تک جاتے ہیں، ان سے کیا نکلتا ہے، یہ کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام… کسی کو کچھ خبر نہیں۔ لیکن ایک بات ثابت ہے کہ کامیابی صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور فراست صرف مومن کا خاصا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کی فراست سے ڈرو، کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔‘‘(ترمذی)
آج مومن کی فراست کامیاب ہوئی ہے اور ماتم انہی تین طاقتوں کے ہاں برپا ہے: بھارت، افغان حکومت اور پاکستان کا سیکولر، لبرل دانشور۔

حصہ