مالِ غنیمت کا مسئلہ

497

سید مہرالدین افضل
گیارہواں حصہ
سورۃ الانفال، پہلے رکوع کی آیت 1 تا 10 میں ارشاد ہوا: ’’تم سے اَنفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو ’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو، اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو‘‘۔ سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے ربّ پر اعتماد رکھتے ہیں۔ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس بڑے درجے ہیں۔ قصوروں سے درگزر ہے، اور بہترین رزق ہے۔ اِس مالِ غنیمت کے معاملے میں بھی ویسی ہی صورت پیش آرہی ہے جیسی اُس وقت پیش آئی تھی جبکہ تیرا ربّ تجھے حق کے ساتھ تیرے گھر سے نکال لایا تھا اور مومنوں میں سے ایک گروہ کو یہ سخت ناگوار تھا۔ وہ اس حق کے معاملے میں تجھ سے جھگڑ رہے تھے دراں حالے کہ وہ صاف صاف نمایاں ہوچکا تھا۔ ان کا حال یہ تھا کہ گویا وہ آنکھوں دیکھے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔
یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کررہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہوکر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
اور وہ موقع جبکہ تم اپنے ربّ سے فریاد کررہے تھے۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لیے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمہیں خوش خبری ہو اور تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقیناً اللہ زبردست اور دانا ہے۔‘‘
مالِ غنیمت کا مسئلہ: غزوہ بدر سے پہلے جنگیں کمزور کو قتل کرنے، اس کا مال لوٹ لینے اور انسانوں کو غلام بنانے کے لیے لڑی جاتی تھیں، اور یہ جذبات یک طرفہ نہیں دو طرفہ ہوتے تھے… لیکن یہ جنگ دنیا کی تاریخ میں نرالی جنگ تھی، جہاں ایک طرف تو وہی پرانے جاہلانہ جذبات تھے، جب کہ دوسری طرف یہ جنگ صرف اللہ کے لیے لڑی جارہی تھی۔ آپ اس جنگ کو مدافعانہ جنگ بھی کہہ سکتے ہیں کہ حملہ آور لشکرِ قریش تھا… اور اقدامی جنگ بھی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ اہلِ مدینہ قافلے کو لوٹنے کے لیے بھی تیار اور خواہش مند تھے… لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ ایمان کو اچھی طرح بتادیا تھا کہ آج تک عرب جنگوں میں دوبدو لڑائی کو اس لیے ترجیح دیتے تھے کہ دشمن پر اپنی بہادری اور شجاعت کی دھاک بٹھادیں، اور لوگ انہیں رستم مان لیں۔ لیکن ہماری جنگ اللہ کی راہ میں ہے، اپنی ذات کے لیے نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتادیا تھا کہ ذاتی فخر حاصل کرنے کے لیے انفرادی جنگ نہ کرنا… تم اللہ کے لیے تلوار چلائو گے، تمہیں خودنمائی کی ضرورت نہیں۔ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے، تم جنگ میں ثابت قدم رہے تو تمہیں جنت ملے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق کامیابی عطا کی… جس پر سب نے شکر ادا کیا، لیکن تھے تو انسان ہی، اور جنگوں کے بارے میں نقطہ نظر تبدیل ہونے کے باوجود دشمن کے چھوڑے ہوئے اموال کے بارے میں اختلاف کا شکار ہوگئے۔ زمانۂ جاہلیت میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر سپہ سالار تمام مال پر قبضہ کرلیتا۔ اسلام جو اصلاح کرنا چاہتا تھا اس میں یہ طریقہ بالکل نامناسب تھا، کیونکہ پہلی صورت میں لوگوں کے درمیان جھگڑا ہوتا، اور آپس کی لڑائی فتح کو شکست میں بدل دیتی… اور اگر سب مال سپہ سالار کا حق قرار دیا جاتا تو سپاہیوں کو چوری کی بیماری لگ جاتی، اور وہ دشمن سے چھینے ہوئے مال کو چھپانے کی کوشش کرتے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینے سے نکلے اور بدر میں پہنچے۔ دشمن سے جنگ ہوئی اور اللہ نے دشمن کو شکست دی۔ پھر ایک گروہ ان کے تعاقب میں لگ گیا اور انہیں کھدیڑنے اور قتل کرنے لگا، اور ایک گروہ مالِِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اسے بٹورنے اور سمیٹنے لگا، اور ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈالے رکھا کہ مبادا دشمن دھوکے سے آپؐ کو کوئی اذیت پہنچا دے۔ جب رات آئی اور لوگ پلٹ پلٹ کر ایک دوسرے کے پاس پہنچے تو مالِ غنیمت جمع کرنے والوں نے کہا کہ ہم نے اسے جمع کیا ہے لہٰذا اس میں کسی اور کا کوئی حصہ نہیں۔ دشمن کا تعاقب کرنے والوں نے کہا: ’’تم لوگ ہم سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں، کیونکہ اس مال سے دشمن کو بھگانے اور دور رکھنے کا کام ہم نے کیا تھا۔ اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت فرما رہے تھے، انہوں نے کہا: ’’ہمیں یہ خطرہ تھا کہ دشمن آپؐ کو غفلت میں پاکر کوئی اذیت نہ پہنچا دے، اس لیے ہم آپؐ کی حفاظت میں مشغول رہے‘‘۔ اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’تم سے اَنفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو’’یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسول ؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو، اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔‘‘
قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسولؐ کا مال قرار دے کر اصول یہ بنادیا کہ تمام مالِ غنیمت لاکر امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جس کے پاس جو کچھ ہے وہ میرے حوالے کردے۔ صحابہ کرامؓ نے اس حکم کی تعمیل کی۔ اس طرح پہلے تسلیم و اطاعت کی تکمیل ہوئی، پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنادیا گیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے، اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کردیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقے میں تھیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مالِ غنیمت کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ (الرحیق المختوم۔ صفحہ 311)
ایمان کا بڑھنا:۔ ’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کرلرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے‘‘۔ معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ٹھیری ہوئی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ اللہ اور رسول کی اطاعت سے بڑھتا ہے، اور نافرمانی سے گھٹتا ہے۔ جو آدمی بھی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سامنے آنے پر اس کی اطاعت کرے گا اس کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح جب آدمی اپنی مرضی کے خلاف، اپنی محبت اور دوستی کے خلاف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی حکم پائے، اور وہ اس حکم کو مان کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے، اور اس تبدیلی کے لیے ہر تکلیف کو برداشت کرے اُس کے ایمان میں اضافہ ہوگا۔ اور اگر ایسا نہ کرے تو اس کے ایمان میں کمی ہوجائے گی۔
قصوروں سے درگزر ہے: قصور بڑے سے بڑے اور بہتر سے بہتر اہلِ ایمان سے بھی سرزد ہوسکتے ہیں اور ہوئے ہیں، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامۂ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہو… اور لغزش، کوتاہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کردیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہیوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا انالحمد للہ رب العالمین۔

حصہ